اک وہ ہیں جو تڑپتے ہیں فاقوں کے تار میں
(عابد محمود عزام, Karachi)
تھرپارکر میں معاملے کی سنگینی شاید خوراک
کے قحط سے زیادہ صاحب اقتدار طبقے میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے ہے۔
جب زمینیں بنجر ہوجائیں تو صرف کھیت اجڑتے ہیں، لیکن اگر شاہوں کے ذہن بنجر
ہوجائیں تو بستیاں ویران و سنسان ہوتی چلی جاتی ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں
پر جوں تک نہیں رینگتی اور تھرپارکر میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ حکومت کی
عدم توجہی کے باعث بھوک و افلاس کے سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا
رقص جاری ہے۔ بھوک و پیاس کے ہاتھوں ستائے تھر کے معصوم بچے اپنی جانیں پے
در پے موت کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ سال گزشتہ تھر کے باسیوں پر قیامت ڈھا
گیا تھا اور اس سال کا آغاز بھی اچھا نہیں ہوا ہے۔ 2015ءمیں 376 بچوں سمیت
لگ بھگ ایک ہزار افراد غذائی قلت سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے
گزشتہ سال مٹھی میں ہونے والی ہلاکتوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ایک مرتبہ
پھر تھرپارکر کے علاقے مٹھی میں حکومتی نااہلی، غذائیت کی کمی اور دیگر
امراض کے نتیجے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا 20، جبکہ گزشتہ ایک ماہ
کے دوران 45 بچے موت کی وادی میں چلے گئے ہیں۔ میڈیا پر خبریں آنے کے بعد
حکومت نے روایتی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ برس تھر میں قحط سالی اور
بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے تھر
کے لیے خصوصی پیکج، ہسپتالوں کی بہتری اور ان کے بجٹ میں اضافے کا اعلان
کیا گیا تھا، لیکن اِن میں سے اکثر پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ صوبائی
حکومت کی غفلت وکوتاہی کا ہی شاخسانہ ہے کہ تھریوں کو مسلسل غذائی قلت کا
سامنا ہے اور سرکاری شفاخانوں میں عوام کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
شفاخانوں میں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے اور بعض ڈسپنسریوں کی ادویات
پرائیویٹ میڈیکل اسٹوروں پر بیچنے کا انکشاف بھی ہوا ہے، جس کا نتیجہ یہ
نکلتا ہے کہ معصوم بچے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ ہرروز کسی نہ کسی ماں
کی گود اجڑ جاتی ہے، آہ وفغاں اور فریاد بھری چیخیں تو ہر آنکھ کو اشکبار
کردیتی ہیں ، لیکن حکومتی شعبے کے اہلکار ایسے سفاک اور بے رحم ہوتے ہیں کہ
ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
تھر میں زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں۔
یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ پینے کا صاف پانی نایاب ہے۔ ستم
رسیدہ تھری روزگار، علاج معالجے اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ چہار سو
بھوک و افلاس موت کا خوفناک سایہ بنی ہوئی ہے، لیکن شاہوں کی طبعیت پر اس
کا رتی بھر بھی اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ حکمران دو چار دن میڈیا کے سامنے
تصاویر بنوانے کے بعد تھری عوام کو بھول کر اپنی سیاسی دھینگا مشتی اور
اللوں تللوں میں بھرپور طریقے سے مگن ہو جاتے ہیں۔ بھلا صاحب اقتدار طبقے
کو اپنے سیاسی بکھیڑوں اور موج مستی سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ تھر کے عوام
کے لیے سوچیں۔ بقول شاعر
اک وہ ہیں ناﺅنوش سے جن کو نہیں فراغ
اک وہ ہیں جو تڑپتے ہیں فاقوں کے تار میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا تھا ”اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی
بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کی بھی باز پرس ہو گی۔“ وہ خود
رات کے وقت بھیس بدل کر غریبوں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور خود اپنی
کمر پر سامان لاد کر محتاج لوگوں تک پہنچاتے تھے، لیکن یہاں معاملہ بالکل
الٹ ہے۔ وزیراعلیٰ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اپنے
کاندھے پر سامان لادکر غریبوں میں تقسیم کریں، بلکہ صرف یہ گزارش ہے کہ
عوام کی خبر گیری رکھنا اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرنا تو وزیراعلیٰ کی
ذمے داری ہے، بھوک و پیاس سے جان دیتے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنا تو ان
ہی کی ذمے داری ہے، لیکن وزیراعلیٰ اور حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں
کی۔حکومت کو معاش کے ذرایع کے حوالے سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے تھر
کے عوام مستقل طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جائیں۔
تھرپارکر ایک صحرائی علاقہ ہے، جس کو اکثر قحط کا سامنا رہتا ہے۔ قحط کے
دوران اپنی اور اپنے مویشیوں کی جان بچانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بیراجی
علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور عرصے سے یونہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ برطانوی دور میں متوقع مہینے میں بارشیں نہ ہونے پر علاقے
کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف کردیے جاتے تھے اور
تھری باشندوں کو رعایتی قیمت پر گندم بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ایک طویل عرصے
سے تھر کے عوام کو بے بہا مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ہر سال دو سال بعد یہاں
بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ فاقہ کشی، مختلف
مہلک بیماریوں اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب سیکڑوں افراد موت کے
منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن ان تمام تلخ حقائق کے باوجود ہر حکومت نے تھر
کے حوالے سے بے رخی، لاپروائی، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہمیشہ تھر کے علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور کبھی اس علاقے کے مسائل کو
مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی جستجو نہیں کی گئی۔ جہاں دنیا میں صحراﺅں پر
شہر آباد ہو رہے ہیں، وہاں قدرتی وسائل سے مالا مال تھر کی قسمت کو کیوں
نہیں بدلا جاسکتا؟
اگر حکومت یہاں کالے سونے کا پروجیکٹ شروع کرسکتی ہے تو پھر یہاں کے عوام
کے مسائل حل کیوں نہیں کرسکتی؟ لیکن حکومت کی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ
میڈیا کی نشاندہی کے بعد حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے اور کچھ روز
میڈیا کے سامنے ہلچل نظر آتی ہے۔ جب تک میڈیا تھر کے معاملے کو نمایاں کیے
رکھتا ہے، حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی ہے، لیکن میڈیا خاموش ہوجاتا ہے
تو حکومت بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول جاتی ہے۔ تھر میں
جب بھی قحط پڑتا ہے، حکمران میڈیا کی موجودگی میں گندم کی کچھ بوریاں اور
نقد امداد تقسیم کرکے چلتے بنتے ہیں، حالانکہ یہ بات صاحب اقتدار طبقے کو
مد نظر رکھنی چاہیے کہ قحط زدہ خاندان حکومت کی جانب سے تقسیم کی گئی گندم،
منرل واٹر اور چند ہزار روپے میں کتنے روز زندہ رہ سکیں گے؟ تھر میں عوام
کی مشکلات پر مستقل طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
تھر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ تھر میں زندگی کا دارومدار بارش پر ہے، جو
یہاں بہت کم ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے تالاب بنائے گئے
ہیں، لیکن وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ زیر زمین پانی ڈیڑھ سو فٹ
کے نیچے ملتا ہے اور وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ تھری خواتین میلوں دور سے گدلا
پانی لاتی ہیں۔ زیرزمین پانی انتہائی نمکین اور وہ بھی 150 سے 200 فٹ
گہرائی میں جاکر ملتا ہے۔ ایسے مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ریاست کی
ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔ آب پاشی کے لیے نہری نظام کو موثر کرنا
چاہیے، تاکہ تھر کے باسیوں کو فصلیں اگانے کے لیے صرف بارش پر انحصار نہ
کرنا پڑے اور میٹھا پانی پہنچانے کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ بھارت تو
اپنے صحرائی علاقے میں میٹھا پانی پہنچا چکا ہے۔ جب بھارت اپنے صحرائی
علاقے میں بجلی، سڑکوں اور میٹھے پانی کی پائپ لائنوں کا جال بچھا سکتا ہے
تو یہ کام ہماری حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ حقیقت یہی ہے کہ تھر میں معاملے
کی سنگینی صرف بیڈ گورننس اورغیر سنجیدگی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حکومت اگر آج
تہیہ کرلے کہ اسے تھر کے حالات کو بہتر انداز میں بدلنا ہے، تو یقین جانیے
سب کچھ ہوسکتا ہے۔ |
|