ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

دسمبر کے آخری ہفتے میں کرناٹک سرکار نے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے جنوبی کرناٹک کے منگلورو شہرمیں داخلے پر پابندی لگا دی، ذاکر نائک وہاں ساؤتھ کرناٹک سلفی موومنٹ کی ایک امن کانفرنس میں دو جنوری کو تقریر کرنے والے تھے جس پر وہاں کی کچھ ہندو تنظیموں نے اعتراض کیا تھا۔ ذاکر نائک کے ساتھ ویشو ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا کے شہر میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔دونوں لیڈروں پر یہ الزام ہے کہ یہ نفرت آمیز تقریریں کرتے ہیں۔واضح رہے کہ پروین توگڑیا وہاں ’’لو جہاد‘‘، گؤسرکچھا، ہندوؤں پر ہونے والے حملے کے خلاف ایک میٹنگ میں شرکت کرنے والے تھے ۔ ایسے میں ان دونوں لیڈروں پر پابند ی لگا نے کی فوری وجہ یہ ہے کہ منگلورو ضلع میں لوکل باڈی انتخاب ہونے والے ہیں اور کرناٹک کی کانگریس سرکار کو یہ خدشہ ہے کہ ان لیڈروں کی وجہ سے فرقہ وارانہ ماحول بگڑے گا اور ووٹران فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم ہوجائیں گے جس سے کانگریس کے جیت کے آثار معدوم پڑجائیں گے۔

نفرت آمیز تقریر ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2014ء میں مرکز میں بی جے پی سرکار بننے کے بعد ان واقعات میں بہت شدت واقع ہوئی ہے۔ اس سے قبل لوک سبھا انتخاب سے پہلے بھی ملک میں ہندو وہندوتو کی قوتوں کے ذریعہ اس قسم کی تقریریں اور بیانات بہت عام ہوئے ہیں۔ حتی کہ 2013ء میں سپریم کورٹ چیف جسٹس التمش کبیر کو ایک معاملے میں یہ کہنا پڑا کہ مرکزی سرکار ریاستی سرکاروں کو حکم دے کہ وہ اس قسم کی تقریریں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ لیکن اس قسم کی کارروائی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کبھی نہیں کی گئیں۔ ملک کے قانون میں نفرت آمیزی کوئی نئی بات نہیں ہے 1927سے ہی ملک میں ایسے قوانین نافذ ہیں جو ایسی حرکت کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن ان قوانین پر عمل درآمد بہت کم ہوا ہے۔ قانون کی دفعہ 19-Aواضح طور پر اظہار رائے کی آزادی دینے کے ساتھ یہ شرط بھی لگا تی ہے کہ ایسا اظہار رائے جو نقص امن پیدا کرے یا مذہبی ،لسانی، علاقائی ،نسلی، رنگ کی بنیاد پر کوئی امتیاز پیدا کرکے معاشرے میں بدامنی پیداکرنے کی موجب ہو اسے قابل تعزیر قرار دیا ہے۔

1927میں برٹش سرکارنے قانون میں 295Aکا اضافہ کیا تھا یہ قانون بدنام زمانہ کتاب ’’رنگیلارسول‘‘ کی اشاعت کے بعد بنا یا گیا تھا۔ اس کتاب میں بنی کریم ؐ کی شان گستاخی کی گئی تھی اور شکایت کرنے پر اس کے ناشر کو گرفتار تو کرلیا گیا تھا لیکن اپریل 1929میں کوئی واضح قانون نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا تھا جورہا ئی کے بعد قتل کردیا گیا۔ان حالات میں ہندوستانی مسلمانوں نے مذہبی عقائدکے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں سے نمٹنے کے ایک موثر قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا جس کے نتیجے 295Aبنایا گیا ۔اس قانون کے علاوہ دیگر بہت سے قوانین کے تحت نفرت انگیزی کرنے والوں کو سزا دی جاسکتی ہے۔ مثلاً سیکشن153Aاور B،سیکشن 292اورسیشکن 293اور 124A۔

153Aکے تحت کوئی بھی شخص جو اپنے کہے ہوئے الفاظ یا تحریر یا علامتی طور پر کوئی ایسی حرکت کرے جس کا عوامی طور پر اظہار ہوتا ہو اور اس سے کسی مذہب ،خطے، زبان، ذات ونسل یا کسی بھی دیگر حیثیت میں کسی کی دل آزاری ہوتی ہو یا عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہوں یا نفرت پھیلانے کی غرض سے یہ حرکتیں کی جائیں تو وہ ہندوستانی قانون کے مطابق نقص امن پیدا کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا جس میں زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔اسی طرح 295Aکے تحت بھی یہی انتظام ہے۔ان قوانین کے تحت 1957میں سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز کارٹون شائع کرنے کے لئے رام جی لال مودی کو بارہ مہینے قید کی سزا دی تھی۔1961ء میں ہنری روڈریکس کو رومن کیتھولک کے عقائد کے خلاف کروسیڈر نامی جریدے میں مضمون شائع کرنے کی جرم میں سزا دی گئی۔ 1960ء اترپردیش ہائی کورٹ میں بابا خلیل احمد کو سنّی مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی ۔انہی دفعات کے تحت کچھ کتابوں اور رسالوں پر پابندیاں لگائی گئیں جن میں 1932ء میں شائع کی گئی رشید جہاں کی کتاب ’انگارے‘کہ جسمیں مسلم خواتین کے سلسلے میں اسلامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا تھا۔26ستمبر 1988ء میں بدنام زمانہ مصنف سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیا ت پر پابندی لگا ئی گئی۔ 1990 میں رام سوروپ کی کتاب ’’حدیث کے ذریعہ اسلام کی تفہیم‘‘ پر بھی پابندی لگائی گئی۔لیکن 2005ء میں سپریم کورٹ نے تسلمیہ نسرین کی لکھی گئی کتاب ’’دو ئی کھنڈیتا‘ پر لگائی مغربی بنگال ہائی کورٹ کی پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔دراصل 1988ء میں سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی کے بعد سے ہی ملک بھر میں اظہار رائے کی آزادی کو لے کر ایک طویل بحث شروع ہوگئی اور اظہار رائے کو ایک اوزار مان لیا گیا کہ جس سے نقص امن پیدا کرنے والوں کو اظہار رائے کی آزادی کا گلہ گھونٹنے والا مانا جانے لگا اور اس پروپیگنڈہ نے ہر اس شخص کو بے لگام کردیا جوکسی بھی دوسرے عقیدے سے اتفاق نہیں رکھتا۔چنانچہ اسلام پر ہمیشہ حملہ کرنے والے لوگوں کی اس بہانے خوب پذیرائی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ کوئی کارروائی ہو یا نہ ہو لیکن جب بھی اہانت اور دل آزاری کا کوئی واقعہ پیش آئے ان قوانین کے تحت مقدمہ ضرور دائر کریں۔30ستمبر2005ء کو ڈنمارک کے اخبار ’’جیلانڈ اوسٹنگ‘‘ نے نبی کریمؐ کے بارہ تصوراتی خاکے شائع کرکے اہانت رسول کا ارتکاب کیا دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا لیکن یہ تمام صدابصحراثابت ہوئے ۔ جنوری 2015 میں پیرس کے ایک مذاحیہ رسالے شارلی ہیپڈو نے بھی اسی قسم کے اہانت آمیز کارٹون شائع کرکیاہل اسلام کی دل آزادی کی مگر ساری دنیا نے اسے اظہار رائے کی آزادی مان کر ایک سو سات کروڑ مسلمانوں کی دل آزادی کو نظر انداز کردیا۔

اب حال ہی میں ذاکر نائک اور پروین توگڑیا کی کرناٹک میں داخلے پر پابندی کو لے کر یہ بحث ایک بار پھر گرم ہوگئی ہے کہ نفرت انگیز تقریریں کیا ہیں ان کے مرتکب کون ہیں اور ان کو کیا سزائیں مل رہی ہیں۔ اور ان کو روکنے کی کیا تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان میں اہانت رسولؐ اور اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف لن ترانیوں کے واقعات تو پیش آتے ہی رہتے ہیں اب انتخابات کے موقع پر خود مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈہ میں بھی انتہائی شدت واقع ہوئی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ شکایت کئے جانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ ان مجرمین کے خلاف کوئی قرارداد واقعی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی خوب تشہیربھی کی گئی۔ ان پر مباحثے بھی ہوئے اور اس طرح ہندوستان کے کسی ایک کونے میں کہی جانے والی ایک بات کو پورے ملک میں نشر کرکے میڈیا نے بھی اس نفر ت انگیزی کی فروغ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔قابل غور ہے کہ پچھلی دودہائی میں نفرت انگیزتقریروں کا یہ سلسلہ بابری مسجد واقعہ میں لال کرشن ایڈوانی کی رتھ یاتر سے شروع ہوتا ہے اور آج تک جاری ہے۔اس قسم کے بیانات دینے والوں میں لال کرشن ایڈوانی اور بال ٹھاکرے جیسے قدآور لیڈروں سے لے کر کملیش تیواری جیسے ہندو مہاسبھا کے ضلعی صدر تک ہرسطح کے ہندو سخت گیر عناصر ملک بھر میں سرگرم ہیں اور وقفے وقفے سے اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں ان لوگوں میں زیادہ معروف نام پروین توگڑیا ،اشوک سنگھل، اوما بھارتی، شاکچھی مہاراج، گریجراج کشور، سادھوی رتھمبرا، سادھوی نرنجنا اور حالیہ ایام میں توکچھ مرکزی وزراء مثلاً مہیش شرما، جے پی نڈھا، گریراج سنگھ، سنگیت سوم اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر، آسام کے گورنر اے بی آچاریہ، تریپورہ کے گورنر کے این ترپاٹھی جیسے لوگ بھی شریک ہیں جو کبھی مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیتے ہیں ، کبھی گائے کھانے والوں کو قتل کا مشورہ دیتے ہیں اور کبھی گجرات اور مظفر نگر کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کا جشن مناتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کے خلاف تھانوں میں ایف آئی آر موجود ہے مگران میں سے کسی کو بھی آج تک جیل نہیں بھیجا گیا۔ نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی چارہ جوئی ہوئی ۔مسلمانوں میں اس قسم کی نفرت انگیزی کرنے والوں کی تعداد ناہو نے کے برابر ہے۔ ہندوستان کی معلوم تاریخ میں ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس سے کسی بھی مذہی فرقے کی دل آزادی ہوتی ہو اور نا ہی کوئی ایسا مضمون اور جریدہ سامنے موجود ہے جو مذہبی منافرت کی بنیاد پر چھپتا ہو ،نا ہی ایسا مبلغ سامنے ہے جس نے کسی حیثیت سے بھی ہندوسمیت کسی دیگر مذہب یا اس کے رہنما یا اس کے دیوی دیوتاؤں کی اہانت کا ارتکاب کیا ہو مگر یہ کہ ایک معملے میں نبی ؐکی اہانت کرنے والوں کو از خود سزا دے دی گئی۔اس صورتحال کے پیش نظر جب یہ محسوس کیا گیا کہ صرف ہند سخت گیر عناصر ہی گذشتہ ایک صدی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز حرکتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کے مابین ایسی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی تو پہلے تواترپردیش کے ایک ریاستی وزیر اعظم خاں کے سیاسی بیانات کو ملک دشمن اور ہندو مخالف قرار دے کر ان کی تشہیر کی گی اور ان سے کام نہ چلا تو حیدرآباد کے ایک غیر معروف لیڈر اکبرالدین اویسی کو سامنے لایا گیاجن کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اہانت آمیز تقریریں کی ہیں مثلاً 7جنوری 2013کو عادل آباد کے شہر نرمل میں ایک عوامی جلسے میں رام چندر جی کی والدہ کی شان میں گستاخی کی اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی تقریروں میں انہوں نے ہندوؤں اور حکومت وقت کے خلاف انتہائی شدید لہجہ اختیار کیا جسے مسلمانوں کے اجماع عام نے خارج کردیا اور اس پر سخت تنقید بھی کی۔ ان تقریروں کی پاداش میں اکبرالدین اویسی کو جیل رسید بھی کیا گیا، کئی شہروں میں ان کے داخلے پر پابندی بھی لگا ئی گئی۔ حال ہی میں بہار انتخابات کے موقع پر بھی کشن گنج میں ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے وہاں ان کے داخلے پر پابندی لگائی گئی۔اس ایک نام کے سوا پچھلی ایک صدی میں کوئی دوسرا نام پیش نہیں کیا جاسکتا جو ہندوؤں سمیت کسی بھی عقیدے کے خلاف نفرت آمیز ی کاارتکاب کرتا ہو۔اب آکے تیسرا نام ذاکر نائک صاحب کا سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا ہے ان پر یہ الزام ہے کہ وہ القاعدہ کے حمایتی ہیں منافرت آمیز تقریریں کرتے ہیں جس سے سماج میں نقص امن کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ذاکر نائک مسلمانوں کے مابین مسلکی تفریق بپا کرنے والی تقریریں تو کرتے ہیں سلفیت اور وہابیت کا پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں،بریلویت اور شیعت کے خلاف تقریریں بھی کرتے ہیں لیکن ان کی کسی تقریر یا یوٹیوب پر موجود ان کے کسی پروگرام میں کسی دیگر مذہب کے ماننے والوں پر تنقید یا بد تمیزی کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔اس کے برعکس ان کے پروگراموں میں بڑی تعداد میں غیر مسلمین شرکت کرتے ہیں اور ان سے سوال جواب کرتے ہیں۔ ان حالات میں جب کہ ایک طرف بڑی تعداد میں سخت گیر ہند وعناصراپنی نفرت آمیز تقریروں کے لئے مشہور ہوں اور ان کی ریشہ دوانیوں پر کسی قسم کاکوئی قدغن نہ ہو،سینکڑوں ایف آئی آر کے باوجود کانگریس کا زمانہ ہویا بی جے پی کا ان میں سے کسی کو بھی آج تک اکبرالدین اویسی کی طرح جیل نہ جانا پڑا ہو ، نہ ہی ملک میں کسی مقام پر ان کے داخلے پر پابندی لگی ہو یہ سوال بجا طور پر پوچھا جاسکتا ہے کہ نفرت انگیزی سے متعلق قوانین پر عمل آوری سے کیا ہندو مذہب کے ماننے والے مستثنیٰ ہیں یا پھر اس دل آزادی اور اہانت کو ہندو راشٹریہ کے قیام کے لئے ایک ہتھیار بنالیا گیا ہے اور اس بدزبانی اور بد تمیزی کے ذریعے ہندوووٹ کی لہلہاتی فصل کاٹی جاتی ہے اور جواب آں غزل کے طورپر یا تو کسی اکاّ دکاّ مسلمان کے ضمیر کو خرید کر میڈیا کے ذریعے اسے مشتہر کیا جاتا ہے یا پھر کسی بے ضرر مذہبی مبلغ کی زبان سے آرٹیکل 25کے تحت دی گئی اظہار عقیدہ کی ترویح کا حق چھینا جاتا ہے۔ملک کی سیاسی ،سماجی، اور مذہبی تنظیموں، عدلیہ اور حکومت ہند کو یہ جواب دینا چاہیے کہ کیا ہم واقعی ایک ایسے ہندو راشٹریہ میں رہتے ہیں جہاں ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیزی تو واقعی نفرت ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز رویہ عین کارثواب ۔

Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 27669 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More