عالمی میڈیا کی گمراہی یاپروپیگنڈا

میڈیاکو اس وقت ریاست کاچوتھا ستون قرار دیا جاتاہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ میڈیا عامۃ الناس کی رائے ہموار کرنے میں اہم کردارادا کرتاہے۔ آج کے جدید دور میں کہ جب ہر شخص میڈیا کی گرفت میں ہے تو کسی بھی نظریے یافرد کی مقبولیت یارد کا فیصلہ میڈیا کے ذریعے باآسانی کروایاجاسکتاہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک عزیز میں ہی بہت سی جماعتیں اورگروہ ایسے ہیں جو محض میڈیا ٹرائل کے نام پر شدید خوفزدہ ہیں بلکہ محدود میڈیا ٹرائل کی بنیاد پر بہت سے افراد و گروہ زوال پذیر بھی ہوچکے ہیں۔چنانچہ میڈیا آج کے دور میں بہت اہمیت کاحامل ہے۔

ملکی معاملات میں میڈیاکو جس قدر دخل حاصل ہے ،عالمی معاملات میں یہ دخل کہیں بڑھ کر ہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر صرف مسائل وہی حل طلب نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا ہمیں دکھاتاہے ۔وگرنہ بہت سے ایسے عالمی معاملات ہیں کہ جن کوحل کرناانتہائی ضروری ہے لیکن ان کی میڈیا میں کوریج نہیں ہے۔ چنانچہ وہ ہمیں سرے سے پتہ ہی نہیں ہیں کجا کہ ان کے حل کے لیے کوئی کوشش کرتا۔

اس کی مثال آپ یو ںسمجھ لیں کہ اس وقت عالمی میڈیاپر نظردوڑاتے ہی اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ داعش نامی تنظیم اس وقت دنیاکاسب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ فلسطین جوکہ عرصہ دراز سے حل طلب مسئلہ ہے ،اس کے لیے نہ تو کوئی آواز نظر آئے گی اور نہ ہی کوئی خبر۔ چنانچہ غیرمسلم توکجاہم مسلمان بھی مسئلہ فلسطین کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔ اسی طرح دیگر عالمی مسائل جن میںا فریقہ کی بھوک اور قحط، افغانستان میں ڈھائے جانے والے مظالم ،عراق میں تباہ ہونے والی بستیاں یہ سب ہماری نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ میڈیااس کو دکھا نہیں رہا اور ہم اس وقت صرف وہی دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ جو ہمیں میڈیا دکھاتاہے۔

جبکہ اگر میڈیاکی حقیقت پرنظر دوڑائیں تو چشم کشا انکشافات ملتے ہیں۔اس وقت عالمی میڈیا کا 97 فیصد حصہ صرف تین کمپنیوں کے زیرملکیت ہے۔ یہ تین کمپنیاں یہودی ہیں جبکہ باقی تین فیصد میڈیا بھی اسی 97 فیصد میڈیا کی طرح مین سٹریم کاساتھ دینے پرمجبور ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے نیوزچینلز اورخبرایجنسیاں اس وقت انہی تین کمپنیوں کے زیرتسلط ہیں ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ ترخبریں مخصوص انداز سے پیش کی جاتی ہیں۔ ہم زیادہ ترخبریں آنکھیں بند کرکے سن لیتے ہیں اور غور نہیں کرتے ۔اگر تھوڑا کبھی غور وفکر کریں تویہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے کہ مسلمانوں کے مفاد کی بہت سی خبریں ہمیں کیوں نظر نہیں آتیں۔ سوڈان میں عیسائی اقلیت کامعمولی مسئلہ ہویا انڈونیشیا میں توعالمی میڈیا فوراً اس خبر کو نمایاں کرتاہے جبکہ بھارت وبرما میں مسلمان اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑدیے جائیں لیکن ہمیں عالمی میڈیا اس سے آگاہ نہیں کرے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اور ثبوت یہ ہے کہ عالمی میڈیامیں اگرکوئی بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف بات کرنے کی جرأت کرے تو اسے فوراً یہود دشمن کاخطاب ملتاہے اور زبردستی روک دیا جاتاہے۔

جبکہ فلسطینیوں کی طرف سے اپنے دفاع میں اسرائیل پر کیے جانے والے معمولی حملے بھی عالمی میڈیا یوں دکھاتاہے کہ گویا اسرائیل پرایٹمی حملہ کردیاگیاہے۔ الغرض معمولی توجہ سے ہم میڈیا اوربالخصوص عالمی میڈیا کی جانبداری کابغور مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔حالانکہ دنیا بھر کے ابلاغیات کے اداروں میں صحافت کابنیادی اصول یہی پڑھایاجاتاہے کہ صحافی غیرجانبدار ہوتاہے۔

اس سب کے علاوہ غیرذمہ دارانہ رویہ بھی عالمی میڈیا کی ایک شناخت بنتاجارہاہے۔ اگرچہ خبر کی تحقیق اور جانچ پرکھ کے معیاری ذرائع موجودہیں لیکن اس کے باوجود عالمی میڈیامیںہمیں ایسی بہت سی خبریں ملتی ہیں کہ جن کی بنیادسرے سے مختلف ہوتی ہے جبکہ اس کو عالمی میڈیا ایک دوسرے رخ سے دکھا رہاہوتاہے۔ یہ جان بوجھ کر بھی کیاجاتاہے اور اس میں غیرذمہ داری کاعنصر بھی ہوتاہے۔ اس کی مثال کچھ یوں سمجھ لیں کہ گزشتہ دنوں افغانستان میں ڈرون حملے میں داعش کے خراسان کے گورنر کے مارے جانے کی اطلاع آئی۔اس گورنرکانام حافظ سعیدتھا۔ یہ خبرجیسے ہی منظرعام پرآئی توعالمی میڈیا کے ایک مؤقر جریدے نے اس خبر کو شائع کیااور اس خبر کے تحت تصویر امیرجماعۃ الدعوۃ پروفیسرحافظ محمدسعید کی شائع کی ۔داعش کے گورنرکانام حافظ سعید تھا اور پاکستان میں جماعۃ الدعوۃ کے امیرکانام بھی پروفیسر حافظ محمدسعید ہے۔اب ان دونوں شخصیات میں فرق ہے۔ ایک شخصیت افغانستان میں روپو ش ہے جبکہ دوسری پاکستان میں منظرعام پر موجودہے۔ اب ایک برطانوی جریدے کی جانب سے اس قسم کاابہام پیداکرنا اوریوں غلط تصویرشائع کرنایقینا غیرذمہ دارانہ رویہ کے تحت آتا ہے۔

امیرجماعۃ الدعوۃ پروفیسرحافظ محمدسعید پاکستان میں ایک مقبول شخصیت ہیں۔لہٰذا ان کی موت کی خبر وہ بھی ایک ڈرون حملے میں پاکستانیوں کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا لیکن معمولی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ اس خبرایجنسی کاغیرذمہ دارانہ رپورٹنگ کامظہرہے کہ انہوں نے خبرکی تحقیق کیے بغیر ہی اس کولگادیاہے۔

بالفرض اگرایساہے کہ اس خبرایجنسی نے جان بوجھ کر ایساکیاہے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میڈیا کس قسم کے غلط رجحانات پیداکرتاہے اور خبر میں کس حد تک تروڑ مروڑ کیاجاتاہے۔ یہ خبر اس جریدے کی ہمارے ملک کے بارے میں تھی۔ چنانچہ ہمیں جلد معلوم ہوگیا کہ یہ خبراس طرح نہیں ہے لیکن ایسی بہت سی خبریں جو ہمیں عالمی میڈیا کے ذریعہ موصول ہوتی ہیں اور ہم ان کو بالکل سچ تسلیم کرتے ہیں ۔ان کے بارے میں بھی ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ان خبروں کے محل اورپس منظر سے واقف نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان میں کس قدر عالمی میڈیا ہمیں گمراہ کرتاہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے۔
اسلام نے خبر کی تحقیق کے لیے اصول مزین کیے ہیں۔سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
إِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا۔(6)
''یعنی اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبرلے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیاکرو۔''

اس اصول کو ہمارے اسلاف نے بخوبی اپنایاہے اور روایت ودرایت میں علم اسماء الرجال اس کو بہترین مثال ہے۔ آج کے دور میں بھی عالمی میڈیا کو ان اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اورہمیں عالمی میڈیاکی تمام خبروں کو سچ جاننے کی بجائے ان کے پروپیگنڈے اور جانبداریوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 21880 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More