مزدوروں کی تنخواہ میں بس
ایک ہزار روپے کا اضافہ .....؟حکومت نے بڑا تیر مارا ہے بھئی....
جب یکم مئی 2010 کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے مزدور اپنا 124 واں عالمی یوم
مزدور روائتی انداز سے منا رہے تھے تو عین اِسی روز پاکستانی عوام کو ایک
ساتھ دو انتہائی مضحکہ خیز خبریں پڑھنے اور سُننے کو ملیں ایک یہ کہ ہمارے
ملک کی ظالم اور غریب دشمن آئل اینڈ گیس ریگولیڑی اتھاڑتی (اوگرا) نے آئی
ایم ایف کے دباؤ میں آتے ہوئے حکمرانوں کی مرضی اور مشوروں سے ملک میں
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اندھا دھند اضافے کا اعلان کر
کے پاکستانی عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے زندہ درگور کرنے کا سامان پیدا
کیا تو وہیں دوسری خبر یہ تھی کہ ہمارے ملک کے جمہوری وزیر اعظم سید یوسف
رضا گیلانی نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ملک بھر سے آئے ہوئے مزدورں کے
ایک بڑے نمائندہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نئی قومی لیبر پالیسی2010 کا
اعلان کیا جس کے تحت اُنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ہماری اِس
جمہوری حکومت نے اپنی نئی قومی لیبر پالیسی میں ملک میں بڑھتی ہوئی بے
تحاشہ مہنگائی کے پیشِ نظر مزدورں کی کم ازکم ماہانہ اُجرت 6ہزار سے یکمشت
بڑھا کر اِسے 7ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا( جس سے ایسا لگا کہ جیسے وزیر
اعظم نے یہ اعلان کر کے ملک کے غریب مزدوروں پر کوئی احسان کردیا)اور اِس
موقع پر اُنہوں نے کہا کہ مزدوروں کی ماہانہ اُجرت میں ایک ہزار روپے کا
اضافہ اِس جمہوری حکومت کا ملک بھر کے مزدوروں کے لئے کیا جانے والا ایک
احسن اقدام ہے اور اِس حکومتی اقدام سے مزدوروں میں خوشحالی آئے گی اور
ہمارے مزدور مہنگائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں گے۔
اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے حسب ِ عادت اپنی آنکھیں کنونشن میں موجود
حاضرین و سامعین اور وہاں پر نصب کیمروں کی جانب پھاڑتے ہوئے باآواز بلند
کہا کہ یہ حکومت چاہتی ہے کہ اِس عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنے ملک کے
مزدورں کے لئے کوئی ایسا تاریخی کارنامہ انجام دے جائے کہ ہمارے ملک کے
مزدور بھی اپنے ملک میں منائے جائے والے اِس 124ویں یوم مزدور کو ہمیشہ یاد
رکھیں اور اِس مناسبت سے ہماری حکومت نے خاص طور پر یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ
مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی قائد متحرمہ بے نظیر بھٹو کے منصوبوں
کو عملی طور پر حقیقت کا رنگ بھرے اور اِس حوالے سے ہماری حکومت نے ترجیحی
بنیادوں پر جو قدم اٹھایاہے وہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نے آج کے دن ملک بھر
کے مزدوروں کی ماہانہ اُجرت جو پہلے چھ ہزار تھی اَب اِسے بڑھا کر یکدم سے
سات ہزار روپے کردی ہے۔
اور پھر اِس کے بعد ہمارے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملک کے مزدوروں
کے مفادات کا خاص خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ کے
تحت پنشن کی عمر کی حد 55سال سے کم کر کے50سال کردی گئی ہے اور ملک میں جلد
زرعی مزدوروں کو اُجرت کی ادائیگی کا نیا قانون بھی متعارف کرایا
جائیگا(یہاں راقم الحرف کا یہ خیال ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم
زرعی مزدوروں کی اُجرت کی ادائیگی کے قانون کا کوئی مناسب ٹائم فریم بھی دے
دیتے .....؟اُنہوں نے اِس حوالے سے کوئی ٹائم فریم کیوں نہیں دیا .....؟اور
خالی خولی اپنا ایک سیاسی بیان دے کر کنی کٹا کر آگے بڑھ گئے ....؟
اور اِس ساری بحث و تکرار کے بعد مجھ حقیر فقیر بے توقیر کی ایک رائے تو یہ
بھی ہے کہ یہ کیا......؟ ایک مزدور تو اِس لیبر پالیسی کا فائدہ اٹھائے جس
کا وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے اور اِسی ملک کا دوسرا مزدور اِس انتظار میں
مہنگائی کے ہاتھوں جل بھن کر بھسم ہوتا رہے کہ اِس کی اُجرت کا نیا قانون
جب آئے گا تو اِس کے گھر میں بھی خوشحالی آئے گی ورنہ یہ یوں ہی مہنگائی کے
ہاتھوں جب تک پستا رہے گا....؟اور وہ حکومت کو دہائیاں دیت ارہے گا ) اور
اِس کے علاوہ یہ بھی کہ اپنی حکومت کی مرتب کردہ اِس نئی قومی لیبر پالیسی
میں اُنہوں نے مزید کہا کہ برطرف کارکنوں کو قانونی چارہ جوئی کے لئے بھی
پندرہ ہزار روپے دیئے جائیں گے اور اِس نئی قومی پالیسی 2010میں وزیر اعظم
نے بہت سے ایسے نکات کا بھی ذکر کیا جو یقیناً مزدوروں سے متعلق تھے۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے مکمل طور پر ایک جمہوری وزیر
اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یکم مئی 2010کو کنونشن سینٹر اسلام آباد میں
منعقدہ مزدور کنونشن سے اپنے خطاب کے دوران جس نئی قومی لیبر پالیسی 2010کا
اعلان کیا تھا اِس کے پہلے پوائنٹ کے علاوہ جو نکات ہیں وہ ممکن ہے کہ
مزدوروں کے حقوق اور اِن کے مفادات کے تحفظات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ
کارآمد ضرور ہوں مگر اِس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حکومت اپنی اِس نئی
قومی لیبر پالیسی پر پوری طرح سے عمل بھی کروا پائے گی کہ نہیں ......؟
کیونکہ اِس سے قبل جب اِسی حکومت نے گزشتہ برسوں میں قومی لیبر پالیسی میں
ملک بھر کے غریب مزدوروں کی ماہانہ اُجرت 6ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا
تو آج بھی ملک کے ہزاروں صنعتوں اور کارخانوں میں اِس ملک اور قوم کی ترقی
و خوشحالی کے خاطر اپنے کام کے دوران اپنا خون پسینہ بہانے والے لاکھوں اور
کروڑوں مزدور ایسے ہی جو اِن سطور کے رقم کرنے تک اپنے مالکان سے اپنی چھ
ہزار روپے ماہانہ اُجرت کے حصول سے بھی محروم ہیں اور آج بھی بہت سے ایسے
سفید پوش مزدور ہمارے یہاں موجود ہیں جن کی ماہانہ اُجرت چھ ہزارروپے ہونے
کے باوجود بھی اِن کے ملِ مالکان اِنہیں ماہانہ اِس سے بھی کم دیتے ہیں اور
اِن محنت کشوں سے دن رات کولھو کے بیل کی طرح اِن کام لیتے ہیں اور اپنے
کاروبار کو چمکا رہے ہیں اور یہ بیچارے محنت کش اپنا خون پسینہ بہاکر بھی
اِس کے برابر اپنی اُجرت کے حصول سے محروم رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ
سفید پوش لوگ اپنی اور اپنے اہل ِ خانہ کی خواہشات کو مار کر اپنی سفید
پوشی کے سہارے زندگی کی گاڑی کھینچنے پر مجبور ہیں اور یہ بھی اکثر دیکھنے
میں آیا ہے کہ یہی سفید پوش طبقہ عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے مواقع پر
معاشرے میں موجود مخیر حضرات سے زکوة و فطرے اور امداد کی مدد میں رقم وصول
کرتے ہیں اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اِن مذہبی تہواروں
میں شامل ہوکر اپنی بچوں کی خوشیاں سمیٹنے کا سامان پیدا کرتے ہیں۔
مگر بہرکیف! اِس نئی قومی لیبر پالیسی 2010 کے پہلے ہی نکتے جس میں اِس منہ
توڑ اور سینہ زور مہنگائی کے دور میں وزیر اعظم نے ملک بھر کے مزدوروں کی
ماہانہ اُجرت چھ ہزار سے بڑھا کر صرف سات ہزار روپے کرنے کا کوئی انوکھا
اعلان کیا ہے اِس پر مجھ سمیت ملک کے اپوزیشن وسیاسی، سماجی اور مذہبی
حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اِس مہنگائی کے عالم میں ملک کے مزدوروں
کی تنخواہوں میں ماہانہ صرف ایک ہزار روپے کا اضافہ اُونٹ کے منہ میں زیرہ
جتنا بھی نہیں ہے۔
جبکہ اُدھر دوسری طرف اِس مضحکہ خیز اعلان سے ملک بھر کے مزدوروں میں بھی
مایوسی پھیل گئی ہے اور آج ملک کے ہر کونے میں بسنے والا مزدور حکومت سے
سخت خائف اور نالاں ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہمارے حکمرانوں
کو ذرا بھی یہ احساس نہیں کہ اِس ایک ہزار روپے کے اضافے میں آج اِس
مہنگائی کے دور میں چولہا جلانے کے لئے پورے مہینے کا 68روپے 89پیسے کے
حساب سے مٹی کا تیل بھی نہیں آپائے گا تو بھلا ایک ہزار روپے ماہانہ ہونے
والے اضافے سے ایک مزدور جس کا کنبہ سات بچے اور دو میاں بیوی سمیت نو
افراد پر مشتمل ہو اُس کے گھرانے کا گزر بسر کیسے ہوپائے گا .....؟
اور کیا اِس بات کا احساس ہمارے ارباب اقتدار کو ہے یا یہ یوں ہی ملک کے
مزدوروں کی ماہانہ اُجرت میں ایک ہزار روپے اضافہ کر کے سُکھ کی بانسری بجا
رہے ہیں کہ اُنہوں نے مزدوروں کی تنخواہ میں ماہانہ صرف ایک ہزار روپے کا
اضافہ کر کے کوئی بڑا تیر مارا ہے جس سے غریبوں کے حالتِ زندگی سُدھر جائیں
گے اور ملک میں خوشحالی آجائے گی۔
جبکہ آج ایک پاگل بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ اِس مہنگائی کے دور
میں اگر ایک عام غریب مزدور کی ماہانہ اُجرت ایک تولہ سونے کی قیمت جتنی
بھی ہو تو بھی وہ غریب مزدور اپنے کنبے کی کفالت نہیں کرسکے گا۔ جبکہ اِس
کشمکش کے عالم میں ایک انتہائی حوصلہ شکن صورتِ حال یہ بھی ہے کہ صدر مملکت
سید آصف علی زرداری، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور حکومتی وزرا عوامی
اجتماعات اور مباحثوں اور مزاکروں میں یہ کیا کہتے پھرتے ہیں ......؟کہ
ہماری یہ حکومت غریبوں اور مزدوروں کی نمائندہ حکومت ہے ہم ملک کے غریبوں
کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لئے کئی ایک منصوبوں پر تیزی سے عمل پیرا ہیں
اور جب یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے.....؟(کب ایسا ہوگا جس کے بارے
میں یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے اِن حکمرانوں کو بھی کچھ نہیں
پتہ کہ یہ غریبوں کی بہتری کے منصوبے کب مکمل ہوں گے اور کب اِن کے ثمرات
ملک کے غریبوں تک پہنچیں گے) تو ملک کے غریبوں کے حالتِ زندگی بدل جائیں
گے.... ؟
یہاں میرا یہ کہنا ہے کہ ارے! حکومتی اراکین بشمول صدر اور وزیر اعظم
صاحبان !آپ لوگ کیا.......؟ ملک کے غریبوں کی حالتِ زار پر رحم کریں گے
.....؟جو اِس مہنگائی کے دور میں ملک کے مزدوروں کی ماہانہ اُجرت صرف ایک
ہزار بڑھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اور آپ کی حکومت نے اِس ملک کے غریب
محنت کش طبقے کے لئے کوئی بڑا کام کر دیا ہے اور آپ لوگ دن رات اِس کے گن
گاتے نہیں تھک رہے ہیں جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ دنوں اِس ہی
مہنگائی کے دور میں ججز صاحباں اور حکومتی اراکین کی ماہانہ تنخواہوں میں
آپ (صدر اور وزیر اعظم )نے یک جنبشِ قلم دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے کا
اضافہ آنکھ بند کر کے کر دیا اور اِس کی یہ وجہ بتائی کہ اِس مہنگائی کے
دور میں اِن حضرات کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا تھا سو
اِس لئے حکومت کو یہ قدم اٹھانا پڑا اور واہ ....واہ!کیا کہنے صدر مملکت
آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی آپ کی دانش کا ملک کے
غریب مزدوروں کی ماہانہ اُجرت میں مہنگائی کے تناسب سے صرف ایک ہزار روپے
کا اضافہ جو نہ ہونے کے برابر ہے اِس سے تو اچھا تھا کہ آپ یہ احسان بھی نہ
کرتے .....اور یوں ہی مہنگائی کے ہاتھوں ملک کے غریب محنت کش طبقے کو مرنے
دیتے تو اچھا تھا اور ویسے بھی اِس بھیک مانگتی حکومت کے دور میں مزدوروں
کی ماہانہ اُجرت میں ایک ہزار روپے کے اضافے سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ
پڑے گا جس سے قومی خزانہ خالی ہوجائے گا جبکہ وزرا اور ججز کی تنخواہوں میں
لاکھوں میں ہونے والے اضافے سے قومی خزانے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور
ہاں! اِس سے بھی جو ایک حکومتی وزیر کا یومیہ خرچہ ایک لاکھ روپے ہے اِس سے
بھی ملک غریب نہیں ہوگا۔ جبکہ ملک کے مزدور کی ماہانہ اُجرت کم از کم 20سے
25ہزار روپے کرنے سے ملک کا قومی خزانہ خالی ہوجائے گا اور ملک کے صنعتیں
اور کارخانے بند ہوجائیں گے۔ اور آخر میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یہ اچھی
حکومت ہے کہ حکمران تو لڈو کھائیں اور ملک کا غریب اور محنت کش لوگ مٹی
پھانکیں۔ |