پاکستان قومی اوربین الاقوامی حالات کے آئینے میں
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
اس تحریر میں ہم اس سوال کاجواب تلاش کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محض اتفا ق ہے یا کسی سوچے سمجھے منصوبے کاتسلسل کہ
جب بھی پاکستان کے مجموعی عوامی مفادکا کوئی بھی منصوبہ روبہ عمل ہونے لگتا
ہے تواس کے خلاف سازشیں شروع ہوجاتی ہیں۔جب سے پاکستان معرض وجودمیں آیا ہے
اس وقت سے اب تک مجموعی عوامی مفادکاکوئی بھی ایسا منصوبہ دکھائی نہیں دیتا
جس کے خلاف سازشیں نہ کی گئی ہوں۔ جس کو اختلافات کی سولی پرنہ چڑھایا گیا
ہو۔اس تحریر میں اس موضوع پرزیادہ تفصیل تونہیں لکھی جاسکتی۔ تاہم کالاباغ
ڈیم کے ساتھ جوسلوک روارکھا گیا ہے اس سے کون واقف نہیں۔سیلاب کاپانی ضائع
ہوجائے، سمندر میں چلاجائے، لاکھوں ایکڑتیارفصلیں تباہ کردے، لوگوں کے
مکانات،مویشی اوردیگر قیمتی سامان بہا لے جائے،دوسری جانب پانی کی کمی کی
وجہ سے وارہ بندی کرنی پڑے، کاشتکاروں کوآبپاشی کے لیے پانی کے حصول کے لیے
ٹیوب ویلوں اورڈیزل پربھاری سرمایہ خرچ کرناپڑے،ہماری فصلات کوخشک سالی
کاسامنا کرناپڑے یہ سب توہمارے بعض سیاستدانوں کومنظورہے مگر کالاباغ ڈیم
بن جائے یہ کسی صورت بھی گوارانہیں۔اخبارات کے ذریعے یہ رپورٹس بھی منظرعام
پرآچکی ہیں کہ بھارت اس ڈیم کی تعمیرروکنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرچکا
ہے۔
سابق صدرآصف علی زرداری نے اپنے دورحکومت کے آخری ایام میں ایران کے ساتھ
گیس پائپ لائن کے منصوبے کامعاہدہ کیا۔ ایران سے گیس خریدنے کامعاہدہ
پاکستان میں تیل پر چلنے والے بجلی کے منصوبوں کوگیس پرمنتقل کرکے صارفین
کے لیے سستی بجلی پیداکرنا تھا۔اب تک پاکستان کواس منصوبے پرکام نہیں کرنے
دیاجارہا۔جوہری تنازعہ پر ایران اورعالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ ہوجانے
کے باوجودپر ایران پرپابندیاں برقراررکھی جارہی ہیں ۔ جس کی سزا پاکستان
ایران گیس پائپ لائن منصوبے پرعمل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کی عوام
کوبھی مل رہی ہے۔جب تک ایران پرپابندیاں برقرارہیں تب تک پاکستان ایران گیس
پائپ لائن منصوبے پرعمل نہیں ہوسکتا۔
سعودی عرب کی سربراہی میں ۴۳ اسلامی ملکوں کاجواتحادبنایا گیا ہے اس کااصل
مقصد کیا ہے؟ یہ اسلامی ملکوں میں پھیلائی جانے والی دہشت گردی کے خلاف ہے
یا یہ اتحاد مسلمانوں کے خلاف آئے روزسازشوں کوختم کرنے کے لیے ہے کیا یہ
اتحاد داعش اوراس طرح کی دیگرتنظیموں کے خلاف ہے یا ۴۳ اسلامی ملکوں
کااتحاد ایران سمیت ان مسلمان ملکوں کے خلاف جن مسلمان ملکوں کواس اتحادمیں
شامل نہیں کیاگیا۔ہمارے لیے تویہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہورہا ہے کہ یہ
اسلامی اتحادہے یامسلکی اتحاد۔اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں ایرانی عالم
دین سمیت متعدد افرادکوسزائے موت دیے جانے سے سعودی عرب اورایران کے درمیان
تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ایران کے دارالحکومت تہران میں سعودی سفارت
خانے پرمظاہرین نے دھاوابول دیا، توڑپھوڑ کے بعد عمارت کوآگ لگادی۔سعودی
عرب نے ایرانی سفیر کوطلب کرکے شدیداحتجا ج کیااوراسے ملک چھوڑنے کاحکم دے
دیا۔سعودی عرب کے بعد بحرین اورسوڈان نے بھی ایران سے سفارتی تعلقات منقطع
کرلیے۔پاکستان کوسعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اتحادمیں شامل
توکرلیاگیا ہے تاہم اس میں اس کاکیا کردارہوگا ابھی تک واضح نہیں
ہوسکا۔وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے سعودی عرب کے
وزیرخارجہ اوروزیردفاع ملاقاتیں کرکے ۴۳ اسلامی ملکوں کے اتحاد کے حوالے سے
اعتمادمیں لے چکے ہیں۔پاکستان کواس اتحادمیں شامل ہوناچاہیے یانہیں اس بارے
قومی اتفاق رائے نہیں پایاجاتا۔اس اتحادمیں شمولیت پاکستان کے لیے کسی
امتحان سے کم نہیں ۔پاکستان نہ توسعودی عرب کوچھوڑ سکتا ہے اورنہ ہی ایران
کے خلاف کسی اتحادمیں شامل ہوسکتا ہے۔مشرقی سرحدبھارت کی آئے روزکی شرارتوں
اورسازشوں کی وجہ سے پاکستان ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے توجہ نہیں ہٹاسکتا،
پاکستان افغانستان سرحدبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد سے بھی زیادہ توجہ
چاہتی ہے اس سے بھی پاکستان توجہ نہیں ہٹاسکتا، ایک پاکستان ایران سرحدتھی
جس کے بارے میں کہاجاسکتا تھا کہ اس طرف سے ملک کوکوئی خطرہ نہیں ہے،۴۳
اسلامی ملکوں کے اسلامی اتحادمیں شامل ہونے کے بعد پاکستان کواس سرحدپربھی
خصوصی توجہ مرکوزکرناپڑے گی۔یوں توملک کادفاع ہماری حکومتوں اورمسلح افواج
کی پہلی ترجیح ہی ہے تاہم موجودہ حالات میں ملکی دفاع پراوربھی زیادہ توجہ
دیناپڑے گی اورملک کی تمام سرحدوں کی بہ یک وقت حفاظت کرناہوگی۔عوامی رائے
معلوم کی جائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ چونتیس اسلامی ملکوں
کااتحادپاکستان کوہی مشکل میں ڈالنے اورآپریشن ضرب عضب اورنیشنل ایکشن پلان
سے حکومت اورسیاستدانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ہی بنوایاگیا ہے کہ پاکستان
کو اس طرح الجھادیا جائے کہ وہ اپنے ملک میں امن قائم کرنے کے لیے جوکچھ
کررہا ہے وہ نہ کرسکے۔پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی
کاکردارضروراداکرسکتا ہے۔پاکستان بیک ڈورڈپلومیسی کے ذریعے دونوں ملکوں کے
اختلافات کسی حدتک کم کرکے موجودہ کشیدگی کوختم کراسکتا ہے۔بصورت دیگر کسی
ایک ملک کی طرف داری بھی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگی۔جبکہ ہمارے قومی
حالات اس کی ہرگزاجازت نہیں دیتے۔نوازشریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب، ایران
کشیدگی کاخاتمہ وقت کی ضرورت ہے ۔ سرتاج عزیزکہتے ہیں کہ سعودی عرب، ایران
اختلافات ختم کرانے میں پاکستان مثبت ومتوازن کرداراداکرے گا۔
پاکستان اورچین کے درمیان طے پانے والا اقتصادی راہداری منصوبہ کے ساتھ بھی
کالاباغ ڈیم جیسا سلوک روارکھاجارہا ہے۔چاہیے تویہ تھا کہ قومی اہمیت کے اس
منصوبے پر پاکستان کے چاروں صوبوں اورتما م سیاستدانوں میں اتفاق رائے پایا
جاتا۔اس کے برعکس قومی اہمیت کے اس منصوبے کواختلافات کی بھینٹ چڑھانے کی
کوشش ہورہی ہے۔اس کی ذمہ دارحکومت ہے یادیگرسیاستدان۔ اس سے قوم کاہی نقصان
کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔شہبازشریف کہہ توچکے ہیں کہ وہ اقتصادی راہداری
منصوبے کوکالاباغ ڈیم نہیں بننے دیں گے وہ اس سلسلہ میں کیااقدامات کرچکے
ہیںیاکررہے ہیں یہ ابھی رازہی ہے۔پشاورمیں منعقدہ آل پارٹیزکانفرنس میں
مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے پرتحفظات ختم کیے جائیں۔اس اے
پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ وزیراعظم کی اے پی سی کے
اعلامیے سے مطابقت نہیں رکھتا،خیبرپختونخوا، بلوچستان کی حق تلفی ہورہی
ہے،نقشوں میں صنعتوں کے لیے گیس پائپ، بجلی ٹرانسمیشن لائن اورتجارتی زون
کاذکرنہیں۔وزیراعلی کے پی کے نے کہا ہے کہ مغربی روٹ پرآج تک ایک اینٹ بھی
نہیں لگائی گئی ،بلوچستان میں جس سڑک کاافتتاح کیا وہ بھی منصوبے کاحصہ
نہیں،جبکہ پنجاب سے گزرنے والے مشرقی روٹ پرزورشورسے کام جاری ہے۔ برطانوی
نشریاتی ادارے کوانٹرویودیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اقتصادی
راہداری کامغربی روٹ پہلے بنانے کاوعدہ کیااب مکررہے ہیں،وزیراعظم نے گزشتہ
برس ۸۲ مئی کوکل جماعتی اجلاس میں چھوٹے صوبوں سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے
توجلدایک اوراے پی سی بلائیں گے،وعدوں کے برعکس ۶۴ ارب ڈالرسڑکوں، توانائی
کے منصوبوں کے لیے مختص کردیے گئے یہ سب کچھ پنجاب میں ہے۔پشاورمیں منعقدہ
اے پی سی میں وزیراعظم سے ملاقات کے لیے سات رکنی کمیٹی بھی بنائی
گئی۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی واصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ
پرویزخٹک کے اعتراضات کاتسلی بخش جواب دیں گے،اقتصادی راہداری منصوبے
کومتنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔پاک چین اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے
نہیں بلکہ پورے خطے کامنصوبہ ہے۔جس سے تین ارب کی آبادی کوفائدہ ملے
گا۔اقتصادی راہداری پرپاکستان کے سیاستدانوں کے منفی بیانات پرچین نے بھی
تشویش کااظہارکیا ہے چینی سفارتخانے کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا
گیا ہے کہ منصوبہ پورے پاکستان کے لیے ہے۔ سفارتخانے نے امیدظاہر کی ہے کہ
فریقین اختلافات اتفاق رائے سے حل کرلیں گے۔صدرممنون حسین کاکہنا ہے کہ
اقتصادی راہداری کے روٹ میں تبدیلی کاپروپیگنڈہ بے بنیاد ہے،ملک میں
خوشحالی کے کئی منصوبوں پرکام ہورہا ہے میڈیا انہیں اجاگر کرے۔ اقتصادی
راہداری کے روٹ میں ایک انچ بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔کالاباغ ڈیم کی طرح ایک
دن یہ رپورٹ بھی منظرعام پرآجائیگی کہ بھارت نے اقتصادی راہداری روکنے
اورپاکستانی سیاستدانوں میں اختلافات پیداکرنے کے لیے کتنا سرمایہ خرچ کیا
ہے۔
یہ تمام مسائل کیا کم پریشان کن تھے کہ بھارت کے ایئرپورٹ پٹھان کوٹ پرہونے
والے حملوں کا ذمہ داربھی بڑے چالبازانہ اندازمیں پاکستان کوٹھہرایاجارہا
ہے۔پاکستان ان حملوں کی مذمت کرچکا ہے جبکہ اخباری خبروں کے مطابق ان حملوں
کی ذمہ داری کشمیری علیحدگی گروپ یونائیٹڈ جہادکونسل نے قبول کی ہے۔
صدرممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان پٹھان کوٹ سمیت ہرقسم کی دہشت گردی کی
مذمت کرتا ہے۔ نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوفون کرکے کہا ہے
کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے۔ امریکی وزیرخارجہ
کوفون کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا ہے کہ پٹھان کوٹ واقعہ کے حقائق سامنے
لائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت سیاسی وعسکری قیادت کے اجلاس میں
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھارت سے تعاون کافیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں
فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قیادت اوراداروں میں ہم
آہنگی ہے۔معلومات میں پیش رفت کے لیے بھارتی حکومت کیساتھ رابطہ رکھا جائے
گا۔اجلاس میں بھارت کی طرف سے دی گئی معلومات کاجائزہ بھی لیاگیا۔بھارت کے
قومی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ شردکمارنے کہا کہ پ ٹھانکوٹ ایئربیس پرحملے
میں ملوث دہشت گردوں کے فون کالزکاریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کاتعلق
پاکستان سے تھا۔ وزیراعظم نے پٹھان کوٹ حملہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی
بنانے کاحکم دیا ۔ذرائع وزیراعظم ہاؤس کے مطابق جے آئی ٹی میں آئی بی، آئی
ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے شامل ہوں گے۔پاکستان نے پٹھان کوٹ حملہ کی
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھارت کوفراہم کردی ہے ۔ جس کے مطابق بھارت کے دیے
گئے نمبرزپاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ایئربیس پر حملے کے بعددہلی نے جومعلومات
فراہم کیں پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے ان پرفوری تحقیقات کاآغازکردیا تھا
۔انڈین میڈیا کے مطابق بھارت نے پاکستان سے مذاکرات پٹھان کوٹ حملہ کیس میں
اپنے شواہد کے مطابق پیش رفت سے مشروط کردیے ہیں۔جبکہ بھارتی قومی سلامتی
مشیر اجیت دودل نے بھارتی میڈیا کی خبروں کوبے بنیادقراردیتے ہوئے پاکستان
، بھارت مذاکرات کی منسوخی کی تردید کی ہے۔امریکہ نے بھارت کی ہاں میں ہاں
ملاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کرنے والوں کے
خلاف کارروائی کرے۔دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کیے جائیں۔بھارت میں
صنعتی نمائش پر شیوسینا نے حملہ کرکے پاکستانی سٹالز اکھاڑ دیے گیٹ بندکرکے
تاجروں کویرغمال بنالیا نمائش کانام بھی تبدیل کردیا۔
موجودہ قومی اوربین الاقوامی حالات کودیکھا جائے توہمارے فہم وادراک کے
مطابق یوںیقین ہوتا ہے کہ یہ سب حالات پاکستان کوامتحان میں ڈالنے، اس کی
ترقی کاسفرروکنے اوراسے نئی راہوں پرگامزن ہونے سے روکنے کے لیے ہی پیداکیے
جارہے ہیں۔پاکسان کے امن دشمنوں کوپاکستان میں بدستورقائم ہوتا ہوا امن
اورترقی کاسفر کسی صورت بھی پسند نہیں ۔اس لیے وہ پاکستانی حکومت اورعوام
کواس طرح کے حالات میں الجھاکر اس کی کامیابیوں کوناکامیوں میں بدلنا چاہتے
ہیں جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔حکومت پاکستان ان تمام مسائل سے
موثرحکمت عملی کے تحت نمٹ سکتی ہے۔سعودی عرب، ایران تنازعہ اوآئی سی کے
پلیٹ فارم پر لے جایا جائے اوریہی فورم اس کا متفقہ حل نکالے۔اقتصادی
راہداری معاملہ میں روٹ کی تبدیلی اورترجیح کاتنازعہ ہے۔اس معاملہ کومشترکہ
مفادات کونسل میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں تمام جماعتوں اورصوبوں کی
نمائندگی ہے۔حکومت نے اس معاملہ میں واقعی کوئی تبدیلی کی ہے تووہ اسے ختم
کرکے تنازعہ ختم کرسکتی ہے۔ویسے جوروٹ بھی پہلے تعمیر کیاجائے اس میں کونسا
مضائقہ ہے۔جو روٹ بھی پہلے تعمیر ہوگا ،ہوگا تووہ پاکستان میں ہی کسی
اورملک میں تونہیں تعمیرکیاجائے گا۔اس معمولی سی بات کو وجہ نزاع کیوں
بنالیا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے درست ہی کہا
ہے کہ نوازشریف پٹھان کوٹ حملہ ایران سعودی عرب کشیدگی پرپارلیمنٹ
کواعتمادمیں لیں۔پٹھان کوٹ حملہ کے معاملہ میں حکومت نے ضرورت سے بہت زیادہ
جی حضوری کامظاہرہ کیا ہے۔اسے کہنا چاہیے تھا کہ ٹھوس شواہد کے بغیرپاکستان
کانام نہ لے۔اب بھی اسے کہہ دے کہ آئندہ کسی بھی معاملہ میں ٹھوس شواہد کے
بغیر پاکستان کانام لینے کی کوشش نہ کرے۔ |
|