سعودی ایران تنازع اور پاکستان کی حکمت عملی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازع اس
وقت شدت اختیار کر گیا جب سعودی عرب کے 12شہروں میں 47دہشت گردوں کے سر قلم
کر دیئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ افراد 2003ء سے2006ء کی درمیانی مدت میں
ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے، سعودی ایجنسی کا کہنا ہے کہ
زیادہ تر کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔ ان 47افراد میں شیعہ مبلغ شیخ نمر
الباقر النمر اور فارس الشویل بھی شامل تھے۔ ان میں سے تمام کا تعلق سعودی
عرب ہی سے تھا ماسوائے دو کے جو مصر اور چاڈکے شہری تھے۔شیخ نمر الباقر
النمر جو سعودی عرب کے معروف عالم تھے اور شیعہ عقائد رکھتے تھے کو سزائے
موت دیے جانے کے خلاف ایران نے سخت موقف اختیار کیا، ایران میں مشتعل
مظاہرین نے سعودی مشن پر دھاوا بول دیا پیٹرول بموں سے حملے کیے اور فرنیچر
و عمارت کو آگ لگا دی۔ ایران کے صدر روحانی نے گو ان حملوں کی مذمت کی لیکن
ساتھ ہی سعودی عرب کے اس عمل پر احتجاج بھی کیا۔ ایران میں ہونے والے ان
واقعات کا رد عمل یہ ہوا کہ سعودی عرب نے ایرانی سفارتی اہل کاروں کو ملک
چھوڑنے کا فوری حکم دیدیا۔ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے، تمام
پروازیں اور تجارت بھی معطل کردی گئی، دونوں ممالک کے درمیان سخت کشید
اختیار کر گئی۔جلد بازی سے کام لیتے ہوئے دونوں اسلامی ملکوں کے درمیان
ہونے والے اس تنازع میں بعض اسلامی ممالک بھی فریق بن گئے۔ کسی ملک میں
ایران کے خلاف احتجاج ہوا تو کسی ملک میں سعودی عرب کے خلاف ۔ بغدادمیں
ریاض کے سفارتی مشن پر راکٹ حملہ ہوا، بحرین میں بھی مظاہرین نے خوب احتجاج
کیا اور سفارت خانے کو جلانے کے عمل کو بزدلانہ اقدام قرار دیا۔متحدہ عرب
امارات نے واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات محدود
کرنے کا اعلان کر دیا۔ بحرین ، سوڈان اور کویت نے بھی ایران سے سفارتی
تعلقات منقطع کرلیے۔دوسری جانب ایران کی حمایت میں عراق کے کئی شہروں میں
مظاہرے کیے گئے۔ تاہم سعودی عرب نے ایران سے تمام طرح کے تعلقات منقطع کر
لیے لیکن ایرانی زائرین پر سعودی عرب آنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔تنازع
شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ باوجود اس کے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں امریکہ،چین
، جرمنی ، فرانس ، یورپی یونین کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل
بانکی مون نے بھی دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والی کشیدگی پرتشو یش کا
اظہار کیا اوردیگر اسلامی ممالک کودونوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے
اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی۔ عرب لیگ کا اجلاس بھی طلب کر لیا
گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان دنیا کی ایک اہم اسلامی مملکت ہے۔ دنیائے اسلام کی دو اہم ریاستوں
سعودی عرب اور ایران کے مابین ہونے والی کشیدگی اور سفارتی بحران میں
پاکستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اس کے حوالے سے مختلف آرا ، تجاویز،
مشورے منظر عام پر آرہے ہیں۔ سعودی عرب سے پاکستان کی قربت کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ سعودی سرزمین سے پاکستان کے تعلقات سات
سمندروں سے بھی بڑھ کر ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ سعودی عرب پاکستانی مسلمانوں
کا روحانی مرکز و منبع ہے۔درحقیقت پاکستانی مسلمانوں کا جسم پاکستان میں
ضرور ہے لیکن یہاں کے ایک ایک مسلمان کی روح تو مکہ اور مدینہ میں ہے۔
پاکستانی عوام کسی بھی اعتبار سے ، کسی بھی مرحلے پر سعودی عرب پر اٹھنے
والی انگلی کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔دوسری جانب ایران پاکستان کا اہم
اسلامی پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خصوصی عقائد
کا رشتہ نازک صورت حال لیے ہوئے ہے۔فقہی و مسلکی اختلاف ضرور پایا جاتا ہے
لیکن دونوں ممالک کے مسلمانوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ پاکستان دونوں کے لیے
اہم ہے اور دونوں پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک سے روح کا رشتہ ہے
تو دوسرے سے جسمانی تعلق ہے۔ پاکستان نہ تو سعودی عرب کو چھوڑ سکتا ہے
اورنہ ہی ایران سے تعلق ختم کرسکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو
انتہائی محتاط اور دانائی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی پوزیشن
کو بین بین رکھنا ہوگا۔ اس صورت حال میں پاکستان کا کردار ایک ثالث کاہونا
چاہیے ، پاکستان اس پوزیشن میں نظر آتا ہے کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں کو ،
ہمدردوں کو، سرپرستوں کو، اپنے چاہنے والوں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے۔
دنیا کے بعض ممالک نے پاکستان کو اشاروں کناروں میں اس کردار کو ادا کرنے
کی جانب اشارہ بھی کیا ،کیوں کہ وہ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان ایسا
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، تجزیہ کاروں، کالم نگاروں کی اکثریت کی بھی یہی
رائے ہے کہ پاکستان ہی دونوں فریقین کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرسکتا
ہے۔ابتداء کس طرح ہو؟ کیا دونوں فریق از خود اس خواہش کا اظہار کریں گے ،
ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا بلکہ پاکستان کو از خود اس کا اعلان کردینا چاہیے
تھا کہ وہ اپنے ان دونوں عزیز ترین مسلمان ملکوں اور دوستوں کے درمیان پیدا
ہوجانے والی غلط فہمی کو دور کرانے کے لیے اپنا کردار اداکرنے کوتیا رہے۔
اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی پاکستان کی اس پیش کش کو ٹھکرادیتا یا انکار
کردیتا تو پھر کوئی اور صورت ہوتی۔ یہ تجویز مناسب نہیں کہ پاکستان دونوں
میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کا اعلان کردے اور اگر ایسا ہوگا،جو کہ نہیں
ہوگا وہ ملک سعودی عرب ہی ہو سکتا ہے، یہ بھی مناسب نہیں اور نہ ہی عقلمندی
کا تقاضہ ہے کہ پاکستان خامو ش تماشائی بن جائے ، جو چاہیں دونوں کریں ۔
ایسا بھی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی حیثیت خطہ میں ایسی نہیں کہ وہ یہ صورت
اختیارکرے۔ اب صرف اور صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے
حکمراں تدبر کے ساتھ، حکمت کے ساتھ، دانائی کے ساتھ دونوں دوست ممالک کو اس
صورت حال سے باہر نکالنے کی حکمت عملی اپنائیں ، وزرائے خارجہ کی سطح پریا
اس سے نیچے کی سطح پر وفد بھیجنے، پیغامات بھیجنے کا وقت نہیں اولین فرصت
میں وزیراعظم پاکستان پہلے سعودی عرب کا ہنگامی دورہ کریں ، سعودی حکمراں
پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے قدر داں بھی ہیں، میاں صاحب کے ذاتی مراسم
بھی سعودی حکمرانوں سے ہیں امید ہے کہ سعودی فرمارواں، میاں صاحب کو مایوس
نہیں کریں گے، مثبت جواب کی صورت میں وہ تہران تشریف لے جائیں اور اپنے
ایرانی دوست ملک کے سربراہان کو بھی افہام و تفہیم کے ساتھ اس اہم اور نازک
مسئلہ کو کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں۔ کوشش کرنے میں کوئی قباحت
نہیں، کامیابی کی صورت میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ سب کے سامنے ہے۔ ناکامی کی
صورت میں بھی آپ کے بلند کردار کی تعریف و توسیف ہوگی۔
پاکستان کی تاریخ اتحاد و اتفاق ، دوستی اور صلاح جوئی کی رہی ہے۔ بانی ٔ
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق
کا درس دیا، شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری سے ہیں یہی پیغام ملتا ہے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ اسلامی
ممالک کی تنظیم بھی اس تنازع میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ پاکستان کا
کردار ہر اعتبار سے مثبت نظر آرہا ہے۔ کامیابی کے قوی امکانات موجود ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ فوری پاکستان تشریف لائے ۔ ان کا یہ عمل کیا اشارہ دیتا
ہے۔ چار شعبوں میں 34ملکی اتحاد سے تعاون کی یقین دہانی وزیر خارجہ کو
کرائی گئی۔ گویا پاکستان بالواسطہ اس اتحاد کا حصہ تو بن ہی گیا۔ ایران اور
سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو اگر جلد از جلد ختم کرنے کا سلسلہ شروع نہ
ہوا تو یہ تنازع ایک ایسی آگ کی شکل اختیار کر لے گا جسے بجھانا شاید کسی
کے اختیار میں بھی نہ رہے اور یہ بھی کہ اس آگ میں صرف یہ دو ممالک ہی نہیں
جلیں گے بلکہ یہ آگ کئی اسلامی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ مسلمان تو
پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہیں، مغرب انہیں دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی
پوری کوشش میں ہے۔ اسلامی ملکوں کی اقوام متحدہ کا خواب تو شاید کبھی
شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ مسلمان ساری دنیا میں اور زیادہ رسوا ہوں گے۔
جگ ہنسائی ہوگی، مسلم قوت کا شیرازہ بکھرجائے گا، کمزور سے کمزور ملک مسلم
ممالک کو زیر کرنے کی سوچیں گے۔ بڑی طاقتیں تو پہلے ہی سے تیار بیٹھی ہیں
کہ انہیں جوں ہی موقع ملے مسلمانوں کو رسوا کرنے کا، ان کا شیرازہ بکھیرنے
کا وہ اپنی اولین فرصت میں اپنا مقصد پورا کر یں۔ ان ممالک کو بھی سوچنا
چاہیے جنہوں نے دونوں فریقین میں سے کسی ایک کی حمایت میں ا س کا ساتھ دینے
کا اعلان کردیا ، ایسا کر کے انہوں نے کسی ایک فریق کی آشیر باد تو حاصل کر
لی لیکن مسلمانوں کے بڑے نقصان کی فکر نہیں کی۔اس زمانے میں جنگ کسی بھی
مسئلہ کا حل نہیں، ایسی بے شمار مثالیں دنیا میں موجود ہیں ۔ جنگ کی تباہ
کاریوں کے بعد مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکالا گیا۔ پاکستان اور
بھارت کی مثال موجود ہے دونوں کو جنگوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سعودی عرب
اور ایران بھی تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے تمام تنازعات کو گفت وشنید سے حل
کرنے کی کوشش کریں اسی میں دونوں ممالک کے عوام کی بھلائی ہے۔ |
|