غزہ: دنیا کا سب سے بڑاغیرقانونی قید خانہ
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, New Delhi)
آج کی تاریخ میں دنیا کا اگر کوئی سب
سے بڑا غیر قانونی قید خانہ ہے؛ تو وہ فلسطین کا مشہور خطہ"غزہ کی پٹی" ہے۔
اسرائیل کی دہشت گردی اور پڑوسی ملک مصر کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی کے
سبب، غزہ دنیا کے سب سے بڑے غیر قانونی قید خانے اور آہنی پنجرے میں تبدیل
کردیا گیاہے۔ غزہ پٹی 365 کیلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل بچے کھچے فلسطین کا
ایک اہم خطہ ہے۔ غزہ پٹی کی آبادی تقریبا دو ملین لوگوں پر مشتمل ہے۔ یاسر
عرفات کی وفات کے بعد، منعقد ہونے والے الیکشن میں "حماس" (اسلامی تحریکِ
مزاحمت) کی کام یابی کے بعد، اسماعیل ہنیہ کو فلسطین کا وزیر اعظم منتخب
کیا؛ لیکن صدر محمود عباس نے ان کو 2007 میں معزول کردیا، جس کے بعد مسٹر
ہنیہ "غزہ" میں اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح غزہ کی
حکومت جون 2014 تک "حماس" کے کنٹرول میں رہی۔ پھر2/ جون کو آپسی اتحاد و
اتفاق کے بعد، مشترکہ حکومت بنانے کی بات طے ہوئی، مگر اس کا کوئی فائدہ
حماس اور اہالیان غزہ کو حاصل نہیں ہوا۔
جہاں ایک طرف اسرائیل نے سن 2007 سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے؛ وہیں
دوسری طرف مصر نے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ"رفح " کی ناکہ بندی کیے ہوا ہے۔
غزہ کے محاصرہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیلی حفاظتی دستے صرف غزہ کے
باشندوں کی قدم قدم پر جامہ تلاشی لیتے ہیں؛ بل کہ غزہ کی پٹی میں، ہر طرح
کی در آمدات پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر کوئی بیمار ہے؛ تو دوسرے
ملک علاج کے لیے بھی نہیں جاسکتا ہے۔ اگر کوئی کہیں تعلیم حاصل کررہا ہے
اور گھر والوں سے ملنے کے لیے کسی طرح غزہ میں داخل ہوجاتا ہے؛ تو دوبارہ
اس کا نکلنا مشکل ہے۔ اسرائیل کے اس ظالمانہ محاصرے اور مصر کی ناکہ بندی
کے نتیجے میں، کتنے لوگ علاج و معالجے سے محروم ہوکر، موت کی آغوش میں
جاچکے ہیں اور کتنے پڑھنے لکھنے والے تعلیم سے محروم ہوکرغزہ میں قید ہو کر
رہ گئے ہیں۔
اسرائیل کے غرور کو اگر کوئی جماعت خاک میں ملا سکتی ہے؛ تو آج کی تاریخ
میں وہ واحد جماعت "حماس"ہے اور حماس کی اصل روح غزہ کے باشندگان ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2005 میں ہی ایریل شیرون کی حکومت نے غزہ کے باشندگان
کو حماس سے متنفر کرنے کےلیےغزہ سے بجلی سپلائی ختم کرنے کی تجویز پیش کی
تھی۔ مگر اس تجویز کو اس لیے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا کہ اوّلا تو یہ
عمل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور پوری دنیا اس پر اسرائیل کو
تھوتھو کرے گی اور دوسرے یہ کہ اسرائیل کی اس حرکت کا سیدھا نقصان محمود
عباس کی "فتح پارٹی" کو الیکشن میں اٹھانا پڑے گا اور حماس حکومت بنانے میں
کام یاب ہوجائےگی۔ جب 2006 کے الیکشن میں، حماس نےجمہوری طریقے سے واضح
اکثریت کے ساتھ، الیکشن جیت لیا؛ تو اسی وقت سے غزہ کو ملنے والی امداد کو
روکنے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ پھر ہوتے ہوتے 2007 سے اسرائیل نے پورے
غزہ کا محاصرہ کرکے اسے دنیا کے سب سے بڑے غیر قانونی قید خانے میں تبدیل
کردیا۔
غزہ کی پٹی کے محاصرے کا مقصد یہ ہے کہ جب غزہ کے باشندگان ہر طرف سے
پریشانی کا سامنا کریں گے؛ تو وہ حماس کی حکمت عملی اور سرگرمیوں سے ناراض
ہوکر، حماس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیں گے اور پھر محمود عباس یا اس جیسے
کسی نام نہاد معتدل سیاسی رہنماکی قیادت تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے، جو
واضح طور پر اسرائیل کو تسلیم کرے اور اسرائیل کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹ
پیدا نہ کرے۔ آج اسرائیل جو کھیل غزہ میں کھیل رہا ہے، وہ باشندگان غزہ کا
گلا گھوٹنے کے مترادف ہے اور اسرائیل جہاں اس کا بلا واسطہ مجرم ہے، وہیں
بین الاقوامی سماج اس جرم میں بالواسطہ شریک ہے۔
جب ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے اقتدار میں آئے؛ تو انھوں پہلا کام یہ کیا
کہ"رفح"گزرگاہ کی ناکہ بندی ختم کی۔ اس سے غزہ والے نے راحت کی سانس لی
تھی۔ مگر3/جولائی 2013 کو،محمد مرسی کی ناجائز گرفتاری کے بعد ، پھر سے رفح
گزرگاہ کی ناکہ بندی کردی گئی اور قاہرہ عدالت نے "حماس" کو ایک دہشت پسند
تنظیم قرار دے کر، اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔
غزہ کی پٹی کے محاصرے کا اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون، اقوام
متحدہ کی حقوق انسانی کونسل اور حقوق انسانی سے متعلق بہت سے دوسرے اداروں
نے "اقوام متحدہ" کے پلیٹ فارم سے، اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا
ہے؛ مگر اسرائیل ہے کہ اس کو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ وہ جانتا
ہے کہ اقوام متحدہ میں "ویٹو پاور" سے مسلح ایک ایسا ملک بھی موجود ہے جو
کبھی اسرائیل کے مفاد کے خلاف کچھ ہونے نہیں دے گا؛ جہاں تک مذمتی قرارداد
کی بات ہے؛ تو اس سے اسرائیل کا کیا بنتا اور بگڑتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے حقائق شناسی مشن نے سن 2009 میں
اپنی چھان بین کے بعد، یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ اس محاصرہ نے غزہ کو ایک
"اجتماعی قید خانے" میں تبدیل کردیا ہےجو ناروا اور خلاف قانون ہے۔ اسے
فورا ختم کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ مشن "بین الاقوامی کریمنل کورٹ"
(International Criminal Court) کے سابق جج مسٹر رچارڈ اور اقوام متحدہ کے
پانچ ماہرین حقوق انسانی کے گروپ کی نگرانی میں تحقیق کررہا تھا۔
ناجائز ریاست اسرائیل اپنے وجود کی بقا کے لیے جو ظلم کررہی ہے، اس کی سزا
اسے ایک دن ضرور مل کر رہے گی۔ مگر اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے جب ایک مسلمان
پڑوسی ملک بھی غیروں جیسی حرکت کرنے سے باز نہیں آتا۔ ابھی چند دنوں قبل
ترکی کے مرد آہن، رجب طیب اردگان نے اسرائیل اور ترکی تعلقات کی استواری کے
حوالے سے اسرائیل کے سامنے تین شرطیں پیش کی تھیں۔ ایک یہ کہ اسرائیل نے سن
2010 میں غزہ کے لیے راحت رسانی کا سامان لے کر جانے والے بحری بیڑے پر
حملہ کرکے جو ترکی شہریوں کا قتل کیا تھا، باضابطہ طور پر ترکی سے اس کی
معافی مانگے۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں کا قتل ہوا تھا، ان کے اہل خانہ کو
معاوضہ دے اور تیسرے یہ کہ "غزہ کی پٹی" کا محاصرہ ختم کرے۔ جوں ہی ترکی کی
ان شرائط کا علم مصری انتظامیہ کو ہوا؛ تو اس نے پہلے دو شرائط کے حوالے سے
تو خاموشی اختیار کی؛ مگر تیسری شرط پر آگ بگولہ ہو کر، اسرائیل سے اپنی اس
فکرمندی کا اظہار کیا کہ اس طرح ترکی حماس کے تسلط والے خطے غزہ میں اپنا
ایک کردار ادا کرنا چاہتا ہے، جو مصر کے مفاد کے خلاف ہے اور مصری انتظامیہ
اس حوالے سے فکرمند ہے۔ مصر کی اس حرکت سے کسی بھی اہل ایمان کا سر شرم سے
جھک جاتا ہے کہ ایک مسلمان پڑوسی ملک بھی اس طرح کی باتیں کرسکتا ہے!
جب ایک مصری ارض فلسطین پر قدم رکھتا ہے؛ تو فلسطین کے بھوک پیاس سے
بلبلاتے اور بیماریوں میں مبتلا بچے بوڑھے سب یہ کہتے ہوئے ملتےہیں کہ
مصریوں کو ہم بھائی سمجھتے ہیں۔ ہم مصر کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہیں
اٹھاتے۔ پھر مصر ہمیں کس غلطی کی سزا دے رہا ہے؟ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ مصری
انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ رفح گزرگاہ کی ناکہ بندی کوختم کرکے، ان
کو چین و سکون سے جینے کا موقع فراہم کریں؛ لیکن مصری انتظامیہ سننے کو
تیار نہیں۔ یہ وہی مصری انتظامیہ ہے جو پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی
مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو خصوصی لکچرز دلواتی ہے کہ اسرائیل ہمارا
پڑوسی ملک ہے اور اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کی تاکید کی ہے۔ مگر
جب فلسطینوں اور خاص طور غزہ کے باشندگان کی بات آتی ہے، تو وہ پڑوسی کے
حقوق سے لاعلم ہوجاتی ہے۔
"مرکز اطلاعات فلسطین" کی رپورٹ کے مطابق ابھی6/جنوری 2016 کوفلسطینی
اتھارٹی کے سربراہ ابوالمازن محمود عباس نے بیت لحم شہر میں واقع صدارتی
دفتر میں، ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصر کی جانب سے غزہ بین الاقوامی
گزرگاہ "رفح" کی ناکہ بندی کو حق بجانب قرار دیا اور اس کی ذمہ داری حماس
جیسی مخلص جماعت کےسر ڈال دیا۔ محمود عباس نے کہا کہ مصر کو رفح کی گزرگاہ
بندکرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عباس نے حماس پر الزام عاید کرتے ہوئے کہا کہ
رفح گزرگاہ کی بندش کی ذمہ دار حماس ہے؛کیوں کہ حماس کی جانب سے رفح گزرگاہ
کی مانیٹرنگ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے نہیں کی گئی، جس پرمصر کے ساتھ بحران
پیدا ہوا۔ ان کے اس بیان پر فلسطین میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے
سخت غم وغصے کا اظہار کیا گيا۔ حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عباس کے
الزام میں کوئی حقانیت نہیں ہے اوروہ فلسطین دشمنی پر مبنی بیانات جاری
کررہے ہیں۔
مرحوم یاسر عرفات (2004-1929) کی وفات کے بعد، جب محمود عباس فلسطین
اتھارٹی کا صدر منتخب ہوا؛ تو کچھ لوگوں کی یہ رائے تھی کہ عباس ایک معتدل
شخص ہے۔ اب فلسطین کا مسئلہ بہت جلد حل ہوجائے گا۔ شاید ان لوگوں کو یہ
معلوم نہیں کہ عباس کو صہیونی میڈیا نےاسرائیل کے مفاد میں "معتدل" ہونے کی
سند تفویض کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شخص کو فلسطین، قدس اور اقصی کے مسائل
سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ یہ شخص خود کو ایک قد آور اور اعتدال پسند
لیڈر ثابت کرنے کی دھن میں کسی حد تک جاسکتاہے۔ جن حضرات کواس میں کچھ شک
ہو، انہیں چاہیے کہ ابولمازن محمود عباس کے حوالے سےعربی زبان و ادب کے
مشہور ادیب، مجلّہ الدّاعي کے چیف ایڈیٹر مولانا نور عالم خلیل امینی اور
مشہور مصری داعی و ادیب ڈاکٹر صلاح الدین سلطان وغیرہ کی تحریروں کا مطالعہ
کریں۔ ان شاء اللہ ان کا شک دور ہوجائے گا۔
بہ ہرحال، غزہ پٹی کے باشندگان کےحوالے سے اسرائیلی انتظامیہ اور اسرائیل
کے صہیونیت زدہ باشندے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ کوئی بھی
"انسانیت نواز"شخص اور جس کے سینے میں ایک دھڑکتا دل ہو، خاموش نہیں رہ
سکتا۔ غزہ کی پٹی کے محاصرے سے انسانی حقوق کی بہت بڑی پامالی ہورہی ہے؛
لہذا عالمی طاقتوں کوہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کرنا چاہیے
کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے اور وہاں رہنے والے انسانوں کو سکون سے جینے
کا موقع فراہم کرے۔ جہاں تک مصری انتظامیہ کا تعلق ہے؛ تو اسلامی اخوت، عرب
رواداری اور پڑوسی کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اسے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ
رفح کی ناکہ بندی ختم کرنی چاہیےاور اللہ کے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ
وسلم کے فرمان کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ لینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم
کرے نہ اسے (مدد چھوڑ کر دشمنوں کے) حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت
پوری کرتا ہے، اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔" (صحیح مسلم ، حدیث: 2580)
ٹیچر: مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ |
|