ملک میں روز اول سے سیاست دان باہم دست و گریباں نظر آئے
ہیں۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ کرنا سیاست دانوں کا وطیرہ رہا
ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر سیاست دان تو ایک ہوجاتے ہیں،
لیکن سیاستدانوں کے درمیان جاری لڑئی میں ہمیشہ پستے عوام ہی ہیں۔ سیاست
دان اگرچہ عوام کو مسائل نجات دلانے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن عوام ہمیشہ
مہنگائی ، بھوک و افلاس ، تنگدستی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری، دہشت
گردی ، بجلی گیس کی بندش اور لاقانونیت کے دلدل میں دھنستے چلے آئے ہیں،
کوئی سیاست دان ان کا سہارا نہیں بنتا۔ کراچی کے عوام کے ساتھ بھی یہی ہوتا
آیا ہے۔ یہاں متعدد سیاسی جماعتیں ہیں، جو کراچی کو اپنے کنٹرول میں کرنے
کی بھرپور تگ و دو میں ہیں۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے یہ جماعتیں آپس
میں دست و گریباں رہی ہیں۔ ایک عرصے سے شہر قائد میں سیاسی چپقلش جاری ہے،
جس کے نتیجے میں اقتدار تو کوئی نہ کوئی جماعت حاصل کرلیتی ہے، لیکن کراچی
کے عوام کے حصے میں ہمیشہ سے بدامنی و بے سکونی ہی آئی ہے۔ کسی بھی دور
حکومت میں عوام کو ٹارگٹ کلنگ، بھتا خوری، دہشتگردی، اسٹریٹ کرائمز، پانی
کی کمی اور دیگر متعدد مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ سیاسی جماعتوں
کی لڑائی میں ہمیشہ عوام کو ہی پسنا پڑا ہے۔ پہلے کراچی میں آپریشن کے
معاملے پر شہر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی
چپلقش چلتی رہی۔ دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں کہ یہ آپریشن صرف
ان کے خلاف ہورہا ہے، دونوں کی دھینگا مشتی سے کراچی آپریشن کسی حد تک
متاثر بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود آپریشن کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
ان دنوں کراچی میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی دھینگا مشتی جاری ہے، جس
کے درمیان پس بے چارے عوام رہے ہیں۔ کراچی میں بلدیاتی اختیارات کا معاملہ
سنگین ہوتا جارہا ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیوا یم ایک دوسرے کے آمنے سامنے
ہیں۔ ایم کیو ایم کا میئر آنے سے پہلے ہی کراچی کی حکمرانی پر پیپلز پارٹی
اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان تنازع جنم لے رہا ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ
مستقبل میں کراچی کے میئر اور سندھ حکومت کے تعلقات کچھ اچھے نہیں رہیں گے،
لیکن دونوں کی چپقلش کے نتیجے میں کراچی کے عوام کو ہی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ ترقیاتی کاموں کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم آمنے
سامنے آگئی ہیں۔ وزیر بلدیات سندھ کی طرف سے نامزد میئر وسیم اختر پر سنگین
الزام لگایا گیا ہے کہ وسیم اختر کے ایم سی افسران کو فون کر کے ترقیاتی
کاموں سے روک رہے ہیں، جبکہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگاتی ہے
کہ وہ کراچی کے لیے کوئی کام نہیں کرتی ہے۔ کراچی پر حکمرانی کی اس لڑائی
میں سیوریج لائن کے معاملے پر بھی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ کئی دنوں قبل اچانک
کراچی کا سیوریج سسٹم خراب ہوگیا۔ اولڈ ایریا، گلبہار، نارتھ ناظم آباد،
شاہ فیصل، ملیر اور اورنگی سمیت کئی علاقوں میں گٹر ابلنا شروع ہوگئے، جس
سے مصروف ترین شاہراہوں پر سیوریج کا پانی عوام کے لیے وبال جان بن گیا۔
شہر قائد کی اہم ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ جہاں اسکوں ، مساجد اور کئی
کاروباری دفاتر بھی ہیں، لیکن اس شاہراہ پر گندے پانی اور کھلے گٹر نے عوام
کا جینا محال کردیا۔ اس دوران عالمگیر نامی ایک نوجوان نے کراچی کی سڑکوں
کی خستہ حالت زار کے پیش نظر اور اعلیٰ حکام کو پیغام دینے کے لیے ایک
انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے شہر میں بغیر ڈھکن گٹروں کے ساتھ وزیراعلیٰ
سندھ کی تصویر بناکر اس کے ساتھ :”فکس اٹ۔ اس پر ڈھکن لگاﺅ“ کے الفاظ لکھنے
کی مہم کا آغاز کردیا، نوجوان کے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی
ملی۔ اس مہم کے بعد سندھ حکومت نے بھی متعلقہ ادارے کو فوری اقدامات کرنے
کا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کے ایم سی انتظامیہ کو
شہریوں کو درپیش مشکلات کا احساس کرنے اور ان کے فوری ازالے کے لیے ہنگامی
اقدامات کی ہدایت دی کہ شہر میں کھلے مین ہولز پر فوری طور پر ڈھکن لگانے
کے انتظامات کیے جائیں۔ اس معاملے میں شہر قائد کی دو اہم سیاسی جماعتیں
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔ایم کیو ایم کا
موقف ہے کہ عوامی نمائندوں کو اختیارات کی منتقلی کے بغیر یہ مسائل حل نہیں
ہوسکتے، جبکہ پیپلزپارٹی نے گٹروں کے ابلنے کو اپنے خلاف سازش قرادے دیا،
جبکہ سیاست دانوں کی لڑائی میں عذاب عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے کہا ہے کہ ایم اے جناح روڈ پر گٹروں کو
بند کرنے کے لیے ان میں بوریاں پھنسائی گئیں، جس کا مقصد سندھ حکومت کو
بدنام کرنا ہے۔ سازشی عناصر ان کے دورے خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ایم اے جناح
روڈ پر گٹروں میں بوریاں بھرنے والوں کا پتا چلا لیا ہے،جام خان شورونے کہا
کہ کراچی کے خلاف سازش کی جا رہی ہے، ایم ڈی واٹربورڈ کو بھی تحقیقات کی
ہدایت کردی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے سوال اٹھایا
کہ شہر میں گٹروں سے ڈھکن اچانک غائب کیسے ہوگئے؟ گٹر اور سیاست ایک ساتھ
نہیں چل سکتے۔ 2 کروڑ کی آبادی کے شہر میں گٹر کے 40 ڈھکن لگانا مذاق ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میں ایک ساتھ گٹروں کا ابلنا سندھ حکومت کے
خلاف سازش ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے گٹر
ابلنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کراچی میں گٹروں کا ابلنا
سازش بھی ہوسکتی ہے۔ سکھر میں بھی سازش کے تحت گٹر بند کردیے جاتے تھے، اس
حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر
نے الزام لگایا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی میں پانی کی پائپ لائن
تڑوا رہی ہے اور سیوریج نظام بھی جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ عوامی مسائل کا انبار لگا ہوا ہے جن کے حل کی بجائے کرپشن پنپ
رہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے نامزد میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ منتخب
بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دیے گئے تو سندھ حکومت کو نہیں چلنے دیں
گے اور سندھ اسمبلی کا ایک اجلاس بھی نہیں چلنے دیں گے۔ چیف جسٹس آف
پاکستان اور آرمی چیف بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہ دینے کی غیر قانونی
سازشوں اور قانون کی دھجیاں اڑانے کا نوٹس لیں۔ پیپلز پارٹی ایک طرف تو
جمہوریت کے چیمپئن ہونے کے کھوکھلے نعرے لگاتی ہے اور اس کے بعد جو اصل
جمہوریت کے حق دار ہیں، انہیں اختیارات نہیں دے رہی ہے۔
دوسری جانب حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق شہر کے اہم مقامات کی سیوریج
لائنیں منصوبہ بندی کرکے بند کی گئیں ہیں۔ حساس اداروں کی رپورٹ میں انکشاف
ہواہے کہ نامعلوم افراد نے اتوار کی رات5 سیوریج لائنیں بند کیں۔ ان سیوریج
لائنوں میں ایم اے جناح روڈ، سولجربازار اور آئی آئی چندریگرروڈ کی لائنیں
شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نیوکراچی اور اورنگی ٹاؤن میں
بھی گٹر لائنیں ایک ہی طریقے سے بند کی گئیں۔ حساس اداروں نے دعویٰ کیا ہے
کہ ایک مقام پر لائن بند کرنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مل گئی ہے۔ دیگر 4
جگہوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی جارہی ہیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے
کہا ہے کہ پہلے کہا تھا صوبہ سندھ حالت جنگ میں ہے اور سندھ حکومت حالت
بھنگ میں ہے، لیکن اب کہتا ہوں کہ کراچی حالت گند میں ہے۔ خدارا اس مسئلے
سے عوام کی جان چھڑائی جائے اور اس معاملے پر تحقےقات کی جائیں اور اس میں
ملوث افراد کے چہرے قوم کے سامنے لائے جائیں۔ سیاسی مفادات کی خاطر شہر میں
تعفن پھلایا جارہا ہے۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ کراچی میں دانستہ طور
پر پانی کی لائنوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، جس سے بدبودار پانی کے ذریعے
تعفن پھیل رہا ہے اور کراچی میں عوام کو تکلیف پہنچائی جارہی ہے، لہٰذا اگر
کسی نے جان بوجھ کرایساکیا ہے تو اس کے خلاف تحقیقات کرکے کارروائی بھی کی
جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت ایم کیو ایم کو بلدیاتی
اختیارا منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں ان کی اہمیت
کم ہوجائے گی، جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم سندھ حکومت پر دباﺅ بڑھا کر
اختیار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے معاملات سیاسی
طریقے سے حل کریں، نہ کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے عوام کو مشکلات
کا سامنا کرنا پڑے۔ |