مفتی محمد سعید کے ساتھ کشمیر کی سیاست کا ایک
اہم باب بند ہوگیا ۔ اس میں شک نہیں کہ شیخ عبداللہ کے بعدان کا شمار وادی
کے مقبول ترین رہنماوں ہوگا۔ مفتی صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا طویل ترین
عرصہ کانگریس میں گذارہ ۔ کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر وی پی سنگھ کے ساتھ جن
مورچہ میں جانے کے فیصلے نے انہیں ملک کا پہلا مسلم وزیرداخلہ بنا یا اس کے
بعد وہ کانگریس میں لوٹے مگر پھر کنارہ کشی اختیار کرکے پی ڈی پی قائم کی۔
یہ فیصلہ بھی ان کیلئےنیک فال ثابت ہوا اوروہ تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود۲۰۰۲
میں کانگریس کی مدد سے وزیراعلیٰ کے عہدے پر متمکن ہوگئے۔۲۰۱۴ میں ان کی
جماعت کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہو گئیں اور انہوں نے بی جے پی کے ساتھ
مل کر حکومت قائم کرلی۔ اس طرح گویا ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں
رہتے ہوئےانہوں نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ اس موقع پر یہ ضرب المثل
شعر(ترمیم کے ساتھ) یاد آتا ہے؎
مفتی تار رے ساتھ عجب حادثہ ہوا
تم چلدئیے تا کرا زمانہ پچھڑ گیا
۲۰۱۴ کے انتخابی نتائج نے جہاں قومی سطح پرخود بی جے پی کو چونکا دیا وہیں
جموں کشمیر میں بھی ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔ اس مرتبہ جموں اور کشمیر
گویا زعفرانی اور سبز رنگ میں مکمل طور پر تقسیم ہوگئے تھے۔ جموں کی تین
نشستیں بی جے پی تو وادی کی تینوں نشستیں پی ڈی پی کے حصے میں چلی گئیں۔
مہاراشٹر اور ہریانہ کے صوبائی انتخاب میں بی جے پی نے خود اپنے بل بوتے
پرکامیابی کے جھنڈے گاڑ کر ساری سیای جماعتوں خوفزدہ کردیا تھا۔ اس کے بعد
جب جموں کشمیر میں ریاستی انتخابات کا اعلان ہوا تو مفتی صاحب نے کہاصرف پی
ڈی پی ہی ریاست میں بی جےپی کی پیش رفت کو روک سکتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا
تھا چونکہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی طاقت ٹوٹ چکی ہے اس لئے بی جے پی
اور پی ڈی پی کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے اور بی جے پی کا اقتدار میں آنا
ملک و صوبہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ جانے
سے صاف انکار کردیا تھا مگر پھر باپ بیٹی اور باپ بیٹے کی سرکار کے خاتمہ
کا اعلان کرنے والے وزیراعظم نے بھائی بھائی کی سرکار بنا لی جس میں ایک کے
سر پر زعفرانی پگڑی تو دوسرے کے سر پر ہری ٹوپی تھی ۔
۲۰۰۲ سے لے کر ۲۰۱۴ تک کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو نہایت دلچسپ
انکشافات ہوتے ہیں ۔ ۲۰۰۲ میں نیشنل کانفرنس نے ۲۸ نشستیں پر کامیابی حاصل
کی تھی اور پی ڈی پی ۱۶ نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی جبکہ ۲۰۱۴ کے آتے آتے
یہ ہوا کہ نیشنل کانفرنس ۱۵ پر تو پی ڈی پی ۲۸ پر پہنچ گئی ۔ اس بیچ پی ڈی
پی کی نشستوں میں برابر اضافہ دیکھنے کو ملا ۲۰۰۸ میں اسے ۲۱ نشستیں ملی
تھیں ۔ اس کے ووٹ کا تناسب بھی بتدریج ۵ء۱۴ سے ۵ء۱۸ اور پھر ۲۲ فیصد تک
جاپہنچا اس کے برعکس گوکہ نیشنل کانفرنس کی نشستیں ۲۰۰۲ اور ۲۰۰۸ میں
یکساں یعنی ۲۸ تھیں مگر اس رائے دہندگان کا تناسب ۲۸ فیصد سے گھٹ کر ۵ء۲۳
فیصد ہوچکا تھا اور اس بار تو ۲۰ فیصد پر ہے۔ کانگریس کی حالت بھی نیشنل
کانفرنس سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی نشستوں کی تعداد۲۰ سے۱۷ اور اب صرف ۱۲ہے۔
کانگریس کے ووٹ کا تناسب ۲۶ سے گھٹ کر ۲۰ سے ہوتا ہوا اب ۱۵ پر پہنچ چکا ہے
اس طرح جہاں پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس کی کمزوری نے فائدہ پہنچایا وہیں بی
جے پی نے کانگریس کی ناکامی سے استفادہ کیا۔
بی جے پی کا سیاسی سفر نہایت دلچسپ ہے ۔ ۱۹۹۶ میں کانگریس کو سب سے بڑا
جھٹکا اس وقت لگا اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد ۲۶ سے گھٹ کر ۷ پر آگئی ۔
اس وقت چونکہ پی ڈی پی موجود نہیں تھی اس لئے کانگریس کے انحطاط کابڑافائدہ
نیشنل کانفرنس کو ملا جو ۴۰ سے ۵۷ پر پہنچ گئی ۔ بی جے پی بھی ۲ سے بڑھ کر
۸ پر جا پہنچی اور کانگریس ۷ پر سمٹ گئی۔ اس طرح گویا وادی کے مسلمانوں نے
نرسمہاراو ٔ کو بابری مسجد کی شہادت کی سزا دے دی ۔ ۲۰۰۲ میں کانگریس نے
اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر سے ۲۰ پر پہنچی مگر بی جے پی کو ۱ یک پر پہنچا
دیا ۔ اس الیکشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی مخالفت میں
آرایس ایس نے بھی کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔
۲۰۰۲ میں پی ڈی پی اور کانگریس کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وزارت اعلیٰ
کی مدت کار کو تقسیم کیا جائیگا اس لئے۲۰۰۵ میں غلام نبی آزاد کو
وزیراعلیٰ بنایا گیا لیکن اس عرصے میں بی جے پی نے امرناتھ ٹرسٹ کی زمین کا
مسئلہ اٹھا کر فرقہ واریت کو خوب ہوا دی بلکہ کشمیر اور دہلی کا راستہ بند
کردیا اس طرح کشمیر سے دہلی آکر بکنے والے پھلوں کے ٹرک راستے میں روک
دئیے گئے ۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کیلئے کار آمد ثابت ہوئی اور اس نے۲۰۰۸
میں۹ فیصد ووٹ حاصل کرکے۱۱ نشستیں جیت لیں اور کانگریس سے ۶ کے فاصلے پر
آگئی حالانکہ کانگریس کے پاس اب بھی ۲۰ فیصد ووٹ تھے۔ اس بار کانگریس نے
نیشنل کانفرنس کی حمایت کا اعلان کیا ۔۲۰۱۴ میں نیشنل کانفرنس نے ۵ء۳ ووٹ
گنوائے جن میں سے ۵ء۲ تو پی ڈی پی کی جھولی میں چلے گئے اور ایک فیصد بی جے
پی کے حصے میں آگئے ۔ ادھر کانگریس کو ۵ فیصد ووٹ کا نقصان ہوا جو سب کا
سب بی جےپی کو مل گیا ۔ اس کے علاوہ تمام علاقائی جماعتوں کے بھی ووٹ
بٹورکر بی جے پی نے سب سے زیادہ ۲۳ فیصد ووٹ حاصل کرلئے مگر بدقسمتی سے اس
کی نشستوں کی تعداد ۲۲ فیصد ووٹ پانے والی پی ڈی پی سے ۳ کم تھی ۔
بی جے پی کے سر پرچونکہ مرکز ی حکومت کا آشیرواد تھا اس لئے اس کا خیال
تھا کہ وہ پی ڈی پی کو مرکز میں وزارت کا قلمدان دے کر جموں کشمیرپراپنا
وزیراعلیٰ مسلط کر نے میں کامیاب ہو جائیگی لیکن اس خام خیالی کو مفتی محمد
سعید نے خاک میں ملا دیا اور کوئی جلدبازی نہیں دکھائی ۔ جب یہ حربہ ناکام
ہو گیا تو بی جے پی والوں نے نصف مدت کیلئے وزارت اعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ
کیا ۔ مفتی صاحب اس کیلئے بھی راضی نہیں ہوئے ۔ بی جے پی والوں کا دماغ
چونکہ آسمان میں تھا اس لئے وہ گورنر راج لگا کر بلاواسطہ حکومت کرنے
لگےمگردہلی کی شکست سے عقل ٹھکانے آگئی تو وہ نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر
راضی ہوگئی لیکن یہ شرط لگا دی کہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر محبوبہ مفتی نہیں
بلکہ مفتی محمد سعید خود براجمان ہوں گے ۔
مفتی صاحب کے انتقال تک توبی جے پی نےکسی طرح اپنے آپ کو روکے رکھا لیکن
اب ان کی امنگیں پھر سے جوان ہوگئی ہیں اور وہ دوبارہ نصف مدت کیلئے وزارت
اعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کرنے لگے ہیںورنہ عام روایت تو یہ ہے کہ اگر
وزیراعلیٰ کا انتقال ہوجائے تو گورنر راج نہیں لگایا جاتا بلکہ سب سے سینئر
وزیرعارضی طور اس عہدے کو سنبھال لیتا ہے اس طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ
نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل کمار وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیتے اور
محبوبہ مفتی کی حلف برداری کے بعد ان کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ دیتے لیکن
شاید نہ پی ڈی پی کو یہ قابلِ قبول تھا اور نہ بی جے پی اس کیلئے راضی تھی
۔ بی جے پی اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی شرائط منوانے کے فراق میں ہے
لیکن ہنوز اس مقصد میں اسے کامیابی نہیں ملی اور بالآخر گورنر راج لگا دیا
گیا۔ محبوبہ سے معاملات طے کرنے کیلئے سرینگر آنے والےبی جے پیکی کشمیرشاخ
کے نگراں رام مادھو نے اپنے ارکان اسمبلی کو واپس جموں جانے کی اجازت دے دی
ہے۔
بی جے پی کے دباو کو کم کرنے کیلئے محبوبہ مفتی نے ایک چھوڑ چار شرائط
سامنے رکھ دی ہیں ۔ اول تو وہ نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کو سرے سے ختم
کرکےڈاکٹر نرمل کمار کو وزیر مملکت کی سہولیات دے کر عیش کرنے سامان فراہم
کرنا چاہتے ہیں۔اہم وزارتیں جو بی جے پی نے ہتھیا لی تھیں ان کی مساویانہ
تقسیمکا مطالبہ بھی ہے ۔ سارے متنازعہ مسائل سے بی جے پی دستبرداری کی یقین
دہانی پر محبوبہ مفتی کااصرارہے اوروہ مرکز ی امداد میں اضافہ بھی چاہتی
ہیں ۔ ایک کے جواب میں چارشرائط سے بی جے پی بوکھلا گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
بی جے پی والے زبانی حمایت کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن ابھی تکگورنر کو
باقائدہ خط نہیں لکھا۔
جموں کشمیر کے اندر پھر ایک بار غیر یقینی سیاسی صورتحال رونما ہوگئی ہے۔
اس میں اضافہ سونیا گاندھی کے سرینگر دورے نے کیا ۔ ویسے جب مفتی صاحب دہلی
میں زیر علاج تھے تو اس وقت بھی تو سونیا جی ان کی عیادت کیلئے ہسپتال گئی
تھیں لیکن اس ملاقات میں کوئی سیاسی رنگ نہیں تھا ۔ سرینگر کی ملاقات کو
اہمیت دی جارہی اور ایک نئی سیاسی صف بندی کا قیاس آرائی شروع ہوگئی ہے۔
بی جے پی کےسابق صدر اور مرکزی وزیر نتن گڈکری نے بھی اس صورتحال سے خوفزدہ
ہوکر سرینگر کا دورہ کیا ۔ کہنے کو محبوبہ مفتی اپنے والد کے سوگ میں
اقتدار کی باگ ڈور نہیں سنبھال رہی ہیں۔ سونیا اور گڈکری ان کو پرسہ دے رہے
ہیں لیکن ان سنگدل سیاسی رہنماوں کی ان باتوں پر اب کوئی یقین نہیں کرتا ۔
کشمیر میں فی الحال چار امکانات ہیں اول یہ ہے کہ بی جے پی اور پی ڈی پی
پھر سے من مٹاو ٔ کرکے ساتھ ہوجائیں ۔ بی جے پی نصف مدت کیلئے وزارت اعلیٰ
کے عہدے کا اصرار چھوڑدے اور اور محبوبہ مفتینائب وزیراعلیٰ کا عہدے پر
ڈاکٹر انل کمار کوبحال کردیں ۔ اس معاملے میں رکاوٹ یہ ہے محبوبہ مفتی ان
۱۱ ماہ میں بی جے پی کی فتنہ سازیوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو چکی ہیں۔
انہیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ مفتی صاحب کی تمام تر ذہانت و ذکاوت کے
باوجود پی ڈی پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عین ممکن ہے انتخاب سے قبل بی
جے پی ہندو ووٹرس کی خوشنودی کی خاطراپنےسخت گیررویہ میں اضافہ کرے۔ ایسے
میں وادی کے اندر پی ڈی پی کی ہوا اکھڑ جائیگی اور وہ نہ گھر کی ر ہےگی نہ
گھاٹ کی۔ اس لئے محبوبہ مفتی محتاط ہیں اور ممکن ہے یہ روٹھنے منانے کا
سلسلہ طویل ہوجائے ۔
ایک امکان یہ ہے کہ پی ڈی پی اور کانگریس ایک ساتھ ہوجائیں لیکن تب بھی
معمولی اکثریت کیلئے مزید ایک رکن اسمبلی کی ضرورت ہوگی جسے کسی آزاد
امیدوار کی مدد سے پورا کرنا پڑےگا۔ اس صورتحال کا فائدہ یہ ہے کہ بی جے پی
سے ناطہ تو ڑ کرمحبوبہ مفتی کسی نہ کسی حدتک اپنی شبیہ سدھار سکیں گی اور
کانگریس کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوگا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی
اور نیشنل کانفرنس ایک ساتھ ہوجائیں ۔ واجپئی حکومت میں عمر عبداللہ مرکزی
وزیر اور فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ رہے ہیں لیکن اس حماقت کا انہیں یہ
خمیازہ بھگتنا پڑا کہ عرصہ دراز کے بعد عبداللہ خاندان کو اقتدار سے بے دخل
کردیا گیا اور مفتی خاندان کوعروج نصیب ہوا۔ اس لئے فاروق عبداللہ دوسری
بار ماضی کی حماقت دوہرائیں اس کا امکان کم ہے ۔ مفتی محمد سعید کی مقبولیت
کا گرتا ہوا گراف بھی وہ چکے ہیں نیزانہیں پتہ ہے کہ مودی جی کی بی جے پی
سابقہ اٹل جی والی بی جے پی سے خاصی مختلف اور ناپختہ کار ہے۔
مرکزی حکومت کیلئےیہ مشکل نہیں ہے کہ اسمبلی کو تحلیل کرکےدوبارہ انتخاب
کروا دے۔ بی جے پی کو اگر یہ فیصلہ ایک سال قبل کرنا ہوتا تو نہایت سہل تھا
اس لئے کہ وزیراعظم کی مقبولیت کے طفیل وہ ارکان کی تعدادکو ۲۵ سے بڑھا
کر۳۵ تک لے جانے کا خواب دیکھ سکتے تھےلیکن دہلی اور بہار کے بعد قوی امکان
ہے کہ یہ تعداد گھٹ کر ۱۵ سے ۲۰ کے درمیان آجائے اور کانگریس کے ارکان بھی
۱۵ سے ۲۰ کے درمیان ہوجائیں ۔ اُدھر وادی میں ممکن ہے پی ڈی پی کو مفتی
صاحب کے انتقال سے کچھ ہمدردی ملے لیکن پھر بھی اس کے ارکان ۲۰ کے آس پاس
ہی ہوں گے اور نیشنل کانفرنس بھی اتنے ہی امیدواروں کو جتانے میں کامیاب
ہوجائیگی ۔ دوبارہ انتخاب کا انعقاد بی جے پی اور ٹی ڈی پی کے بجائے حزب
اختلاف کیلئے سودمند ہوں گے اور اگر مخالفین انتخاب سے قبل ا تحاد قائم
کرلیتے ہیں تب تو انہیں آرام سے اکثریت مل جائیگی اس لئےبی جے پی والوں سے
ایسی حماقت کی توقع کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔
کشمیر کے اندر وزیراعظم نریندر مودی کے سبب سے بی جے پی ایسی اچھوت جماعت
بن چکی ہے کہ کوئی اس کے قریب آنا نہیں چاہتا اس لئے کہ سارے لوگ جانتے
ہیں بی جے پی کے ساتھ ان نیاّ بھی ڈل جھیل میں ایسے ڈوبے گی کی اس کا سراغ
نہیں ملے گا ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ بی جے پی کی یہ حالت ایک ایسے وقت
میں ہوئی جبکہ اسے دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ تناسب میں ووٹ ملے ہیں اور
اس کے منتخب شدہ ارکان کی تعداد بھی تقریباً ۳۰ فیصد ہے۔ بی جے پی کے ارکان
اسمبلی سوچ رہے ہوں گے کہ کاش وہ کسی اور جماعت میں ہوتے تو بڑے اطمینان سے
اقتدار میٹھے میٹھے پھل کھاتے ۔ان سیاستدانوں کا حزن و ملال بھی بجا ہے اس
لئے تمام تر بلند بانگ نظریاتی دعووں کے باوجود ان کا مطمح نظر اقتدار کی
عیش کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیر کی سیاست ہے۔
وادی کے اندر مسلمانوں کے دو بڑے مسائل ہیں جنہیں پی ڈی پی اور نیشنل
کانفرنس اٹھاتی رہتی ہے۔ اول تو اے ایف پی ایس اے کا قانون جس کے تحت
حفاظتی دستوں کو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے اوردہشت گردی کے قلع قمع کے نام
پر آئے دن عام شہری سرکاری دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بی
جے پی کی فسطائیت کے سبب جمہوریت اور ہم آہنگی کے خاتمے کا رونا بھی رویا
جاتا ہے۔ بی جے پی کے نقطۂ نظر سے دستور کی دفع ۳۷۰ اہم ترین مسئلہ جس کے
خاتمہ کیلئے ان کے بقول جن سنگھ کے اولین صدرشیاما پرساد مکرجی نے اپنی جان
گنوائی ۔ دوسرا مسئلہ پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی شہریت کا ہے ۔ یہ
لوگ ہندو ہیں بی جے پی ان سے ہمدردی جتا کران کے ہم مذہبووٹرس کو رجھاتی ہے
اور سوچتی ہے کہ اگر انہیں شہریت مل جائے تو وہ ان کے سچے اور پکے حامی بن
جائیں گے ۔ یہ سب انتخابی مہم کی باتیں لیکن فی الحال بی جے پی اور اس کے
مخالفین اپنے اصول و نظریات کوبالائےطاق رکھکر اقتدار کی جوڑ توڑ میں مصروف
ہیں ۔اقتدار کے حصول کی خاطر اصولوں کے بجائے ابن الوقتی کی بنیاد پرسودے
بازی ہورہی ہے ۔
جموں کشمیر سے باہر کم لوگ جانتے ہیں کہ مرحوم مفتی محمد سعید کی پارٹی پی
ڈی پی کا نشان قلم دوات ہے۔ اس جماعت کے کاتب تقدیر مفتی محمد سعید خود تھے
اور اب ان کے ساتھ یہ قلم ٹوٹ گیا ہے۔ ان کے نمازِ جنازہ میں یوں تو کثیر
تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ بھی شامل
تھےلیکن شرکاء کی تعداد توقع سے کم تھی ۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ
دوات کی سیاہی بہت حدتک سوکھ چکی ہے۔ مفتی صاحب کی جانشین محبوبہ مفتی کے
سامنے سب سے بڑا چیلنج اس سیاہی کی مقدار کو بحال کرنا ہے۔ جمہوری نظام کے
اندر قلم کا استعمال رہنما کرتا ہے مگر سیاہی فراہم کرنے کی مزدوری عوام
کرتے ہیں ۔ جس رہنما کے پاس جتنی سیاہی ہوتی اس کاقلم اسی تیزی کے ساتھ
چلتا ہے اورجب سیاہی خشک ہوجاتی ہے تو قلم بیکار ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں یہ
سیاسی سیاہی ختم نہیں ہوتی بلکہ دوسری دوات میں منتقل ہوجاتی اور جس کسی کے
دوات میں قدم رنجا فرماتی ہے اس کا قلم فرفرچلنے لگتا ہے۔
قلم دوات کسی سیاسی جماعت کا نشان تو ہوسکتی ہے لیکن اس کی ضرورت اور اہمیت
تو عوام جانتے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت غالب گرو کی غیر معمولی کامیابی
ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل سے بے بہرہ یہ سیاسی جماعتیں جہاں کرسی کی جوڑ توڑ
میں لگی ہوئی ہیں وہیں ایک اچھی خبر مرحوم افضل گرو کے گھر سے آئی ۔ ان
کےچشم و چراغ غالب گرو نے دسویں جماعت کے امتحان میں ۹۵ فیصد نمبر حاصل
کرکے گریڈ اے پلس میں کامیابی درج کرائی۔ غالب نے تمام پانچ پرچوں میں اے
پلس حاصل کیا ۔ افضل گرو کی بزدلانہ پھانسی اور اہل خانہ کی غیر موجودگی
میں راتوں رات تدفین کے بعد ان کی اہلیہ تبسم گرو نے کہا تھا ۔ ہم عام لوگ
ہیں سادہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن
ان کے بیٹے نے ثابت کردیا کہ وہ بہت خاص باپ کی ہونہار اولاد ہے۔
اپنے والد کی شہادت کے بعد غالب نے کہا تھا میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں ۔
میرے والد کو اس بات کا پتہ تھا اس لئے میں جب بھی ان سے ملاقات کیلئے جیل
میں جاتا وہ ہمیشہ مجھے محنت کرنےکی تلقین کرتے ۔ اس امتحان میں غالب نے
اپنےمرحوم والد کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرکے دکھا دیا ۔ اپنے والد کی
پھانسی سے ۶ ماہ قبل جب اس کی ملاقات جیل میں افضل گرو سے ہوئی تو انہوں نے
قرآن مجید اور ایک سائنس کی کتاب اسے تحفے میں دی ۔ غالب گرو نے اپنے باپ
کے تحفہ کو نہ صرف طاق میں سجا کر رکھا بلکہ اس کے عملی تقاضوں کو بھی پورا
کردیا ۔ایک مظلوم ومشفق باپ کےسعادتمند بیٹے نے اپنی محنت اور لگن سے ثابت
کردیا کہ بقول شوکت واسطی؎
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ پہ پسپا نہیں ہوئے |