سال گذشتہ کے ماہ ستمبر میں فریضہ حج کی
ادائیگی کے سلسلے میں ر حمت دو عالم سرور کائنات نبی آخر کے دربار میں
حاضری کی سعادت کے لئے مدینہ کی گلیوں کا خاک نشین ہونے کا اعزاز نصیب ہوا
تو کوشش تھی کہ مدینہ میں گذرنے والا ایک ایک لمحہ جسم و جاں کا حصہ بن
جائے․ آپ کے قدموں میں حاضری اور ہم ایسے کم نصیب کہ شہنشاہ عالم کے دربار
میں بھی دنیا سے خود کو بچا نہ سکے․ حجرہ محبوب خدا کے سائے میں نماز مغرب
کی ادئیگی کے بعد ہوٹل واپسی کی بجائے عشا تک آپ کے حجرہ مبار کی دیوار کے
ساتھ بیٹھنا ایسی سعادت تھی کہ لفظ اس سعادت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں․ کم
نصیب ایسا کہ رحمت دوجہاں کے قدموں سے اٹھ کر مسجد نبوی کی چھت پر قائم
لائبریری میں آن بیٹھا لالچ یہی تھا کہ نماز عشا کے لیے پہلی صف میں جگہ
نصیب ہوسکے․مسجد نبوی کی لائبریری میں قدم رکھیں تو استقبالیہ سے کافی اندر
جا کر بائیں ہاتھ پر ایک کمرہ اردو پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے سو
اس مشت خاک کا رخ بھی اسی کمرے کی جانب ہوا․سیرت سرور عالم پر لکھی گئی ایک
کتاب لے کر کرسی پر بیٹھے کچھ منٹ ہی گذرے تھے کی پچھلی رو میں بیٹھے اشخاص
کی بلند ہوتی سرگوشیاں سماعت سے ٹکرانے لگیں․ بادشاہوں کے بادشاہ کے دربار
میں گفتگو پاکستان کے بادشاہوں کے بارے میں تھی سو ضعف ایمان کا شکار بندے
کی تمام تر توجہ سرگوشیوں کی زبان میں کی جانے والی گفتگو کی جانب مرکوز
ہوگئی․ ایک آواز آئی کہ پہلے توہم قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ نبی آخر کے
سپہ سالار سے بڑھ کر کون سپہ سالار ہو سکتا ہے جس کی تلوار نے رحمت
اللعالمین کی رحلت کے بعد بھی فتوحات کا سلسلہ تھمنے نہ دیا اور نہ صرف
ریاست مدینہ کے خلاف اٹھنے والی شورشوں کو کچلا بلکہ بازنطینی اور ساسانی
ریاستوں کو شکست دے کر نومولودریاست مدینہ کو عالمی قوت بنانے میں بھی
انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا․خالد بن ولید وہ سپہ سالارتھے جن کے ہاتھوں
میں معرکہ مؤتہ میں اسلام دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے نو(۹) تلواریں ٹوٹی
تھیں اور نبی آخر نے انہیں سیف اﷲ کے خطاب سے نواز تھا ․ نبی پاک کے سپہ
سالار نے سو سے زائد جنگوں میں حصہ لیا تھا اور کسی جنگ میں شکست نہیں
کھائی وہیں سرگوشی کچھ مدہم ہوئی جیسے خالد بن ولید کا کسی موجودہ سپہ
سالار سے موازنہ کیا رہا ہو․ میں شرمندہ ہوں اپنے رب کے حضور کہ اس کے
محبوب کے قدموں میں بیٹھ کر بھی خود کو مسجد نبوی کی لائبریری میں ہونے
والی سرگوشی سے نہ بچا سکا․ میری پچھلی نشستوں پر بیٹھے حضرات بول رہے تھے
کہ خالد بن ولید نے چودہ سو سال پیشتر جو علاقے فتح کئے تھے وہ آج بھی
عربوں ہی کے پاس ہیں جب کہ نپولین چنگیز خان، تیمور اور ہٹلر جیسے تاریخ کے
ان گنت سپہ سالاروں کی فتوحات یا ختم ہو چکی ہیں یا سمٹ چکی ہیں․ اسلامی
تاریخ کا ہر ہر ورق اس بات کا گواہ ہے کہ نبی آخر ، خلیفہ اول ،خلیفہ دوم
نے عرب کے صحرا ؤں میں بکھرے قبیلوں کو ایک جتھہ بنا کر قبائلی تنازعات میں
الجھے رہنے والوں کو ناقابل تسخیر قوت بنایا اور نہ صرف تمام مشرق وسطی کی
سرزمین پر اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے بلکہ دنیا کی عسکری تاریخ ہی بدل ڈالی
․ دین اسلام کی ان کامیابیوں کے لئے لڑی جانے والی تمام جنگوں کی کمان حضرت
خالد بن ولید کے ہاتھوں میں تھی․ مجھے سرگوشیاں کرنے والے حضرات کی گفتگو
سے ایسا لگا جیسے خالد بن ولید کا موازنہ اسلامی جمہوری پاکستان کے سپہ
سالار کے ساتھ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کے مقاصد بہرحال وطن واپسی
پر ہی سمجھ آ سکیں گے․ خالد بن ولید کی تقرری نبی آخر کے حکم پر ہوئی، خالد
بن ولید خلیفہ اول ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں بھی لشکر اسلام کے سپہ
سالار تھے․ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق نے جب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں
تب بھی حضرت خالد بن ولید اسلامی افواج کے سپہ سالار تھے اور عراق کے بیشتر
حصے فتح کر لینے کے بعد شام میں دین اسلام کی سربلندی کے لئے سر بکف تھے
حضرت خالد بن ولید کی پے در پے فتوحات کی وجہ سے بعض مسلمانوں کے اندر یہ
تصور جڑ پکڑنے لگا تھا کہ جو فتوحات ہو رہی ہیں وہ حضرت خالد بن ولیدکی
موجودگی کی وجہ سے ہیں اس طرح سے مسلمانوں میں شخصیت پرستی پیدا ہو رہی تھی
مسلمان تو مسلمان دشمن افواج کو بھی جب یہ خبر ملتی تھی کہ مد مقابل لشکر
اسلام کی قیادت خالد بن ولید کے ہاتھوں میں ہے تو وہ جم کر مقابلہ کرنے سے
پیشتر ہی حوصلے ہار جاتے تھے اور میدان جنگ سے فرار کو ترجیح دیتے تھے․ شام
میں دشمنان اسلام کے ساتھ نبردآزما امین الامت حضرت خالد بن ولید سیف اﷲ کو
خلیفہ وقت مراد رسول حضرت عمر کا حکم موصول ہوا کہ آپ کی جگہ ابو عبیدہ کو
لشکر اسلامی کا امیر مقر کیا جاتا اور آپ آئندہ انہی کی ماتحتی میں فرائض
منصبی ادا کریں گے․ تاریخ اسلام کے سب سے بڑے جرنیل رسول خدا کے مقرر کردہ
حضرت خالد بن ولید نے خلیفہ وقت کا حکم بلا کسی حیل وحجت تسلیم کیا اور چار
سال تک حضرت ابو عبیدہ کی کمان میں جنگی جوہر دکھاتے رہے جب خلیفہ نبی صلی
اﷲ و علیہ و صلعم حضرت عمرنے انہیں جنگی خدمات چھوڑ کر مدینہ پہنچنے کا حکم
دیا․ حضرت خالد بن ولید مدینہ پہنچتے ہیں خلیفہ رسول کے سامنے پیش ہوتے ہیں
اور معاملات کی تفصیل جان لینے کے بعد تاریخ کے بہترین مسلمانوں میں سے ایک
مسلمان خلیفہ وقت عمر بن خطاب اہل مدینہ کو خالد بن ولید کی بابت لکھتے ہیں
کہ " میں نے خالد کو ناراضگی یا بد دیانتی کی وجہ سے معزول نہیں کیا بلکہ
اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ان سے بہت محبت کرنے لگے ہیں اس لئے مجھے
اندیشہ ہوا کہ وہ ان پر بے حد بھروسہ اور اعتماد نہ کریں اور کسی دھوکے میں
مبتلا نہ ہو جائیں اس لئے میں نے چاہا کہ انہیں حقیقت معلوم ہوجائے کہ در
حقیقت اﷲ تعالی ہی کارساز ہے اس لئے انہیں کسی فتنے میں مبتلا نہیں ہونا
چاہیے"․ ایسا لگا جیسے وطن عزیز میں مبینہ طور پر اکتوبر1999 کی تاریخ
دہرانے کی تیاری کی جا رہی ہیں․ بارگاہ مالک کون و مکان کی چوکھٹ پر سجدے
کی خواہش کے ساتھ جب وطن سے روانہ ہوا تھا تو تب پاکستان کی صورتحال کچھ
ویسی ہی تھی جو میرے عقب میں بیٹھے ہوئے اشخاص کی گفتگوکو موضوع تھی ․ ذہن
نہ چاہتے ہوئے بھی وطن عزیز کی سیاسی شطرنج کی بساط کے مہروں کی جانب چل
نکلا․ سپہ سالار پاکستان نے سال گذشتہ میں سری لنکا کے دورے سے واپسی کے
بعد ایک بیان دیا تھاکہ ملک میں غیر تسلی بخش طرز حکمرانی( Lack of Good
Governance) ا نہیں Soldier Statesman کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر رہی
ہے․ اس سے پیشتر دنیا بھر میں جنرل راحیل شریف کے لئے جس طرح ہر مملکت اور
مملکتی اداروں نے دیدہ و دل فرش راہ کئے شاہراہ دستور کے مکین اس کا جائزہ
بھی تشویش کے جذبات کے ساتھ لے رہے ہیں․ خلیفہ وقت کے سپہ سالار کی
کامیابیوں کے گن ہر طرف گائے جا رہے ہیں کہیں ضرب عضب ہے تو کہیں بلوچستان
کا امن ۔ کہیں کراچی کی سڑکوں پر معصوم شہریوں کا بہتا خون ہے تو کہیں شہر
قائد کی مصرف شاہراہوں پر راہزنوں کے ہاتھوں لٹتے بے بس و نہتے لوگ، کہیں
نامعلوم ہاتھوں سے چلائی جانے والی نامعلوم گولیوں کا نشانہ بننے والے عدیل
ارتضی کے تین معصوم بچے جنرل راحیل کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں
تو کہیں شہید عدیل کی قوت گویائی سے محروم بیو ہ اقتدار میں ہمیشہ رہنے کے
دعوے داروں سے انصاف کی منتظر ! سب ہی منتظر ہیں جنرل راحیل شریف کے اگلے
قدم کے !سب دعاگو ہیں راحیل شریف کے لئے ! سب کی زبان پر کراچی کے تاجر
رہنما عتیق میر کا کہا ہوا ایک ہی جملہ ہے کہ " آسمان پر خدا اور زمین پر
راحیل شریف"․
گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں جنرل راحیل شریف اٹھارہ کروڑ سے زائد
پاکستانیوں کے لئے ہیرو بن کر ابھرے ہیں پاکستان کا ہر شہری جنرل راحیل
شریف کی صورت میں ایک نجات دہندہ کو دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ ، روس
، فرانس ، جرمنی سے لیکر دنیا بھرکی حکومتیں علاقائی اور عالمی مسائل کے حل
کے لئے جنرل راحیل شریف پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں․ پاکستان کی اشرافیہ سے
لیکر کراچی کے اخبار فروش سمیع تک سب کا ایک ہی نعرہ ہے کہ قدم بڑھاؤ راحیل
شریف قوم تمہارے ساتھ ہے بقول وال اسٹریٹ جنرل پاکستان کے چیف آف آرمی
اسٹاف کی مقبولیت نے جمہوریت بچانے والوں کی سیاست کو گہنا کر رکھ دیا ہے․
لیکن جمہوریت کے محافظ بضد ہیں کہ تمہیں تین سال بعد چلے جانا ہے ہم نے
ہمیشہ رہنا ہے ․ مسجد نبوی کی لائبریری میں سرگوشیوں کا کا سلسلہ اذان عشا
کی مترنم اور دلوں کو چیرتی ہوئی روح تک پہنچنے والی آواز میں دب گیا․ اپنی
نشست سے اٹھا سیرت نبوی پر لکھی گئی کتاب شیلف میں رکھی اور نماز عشا کے
لئے محراب بنوی کی طرف بڑھتے ہوئے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا خلیفہ
وقت کا فرمان ویسا ہی ہوگا جیسا کہ حضرت خالد بن ولید کے لئے تھا یا اکتوبر
1999 سے بہتر منصوبہ بندی کی جا چکی ہے․ |