مضایا: ۔۔۔۔ کیا آپ کھانا لائے ہیں ؟

مضایامیں بھوک بطور ہتھیار

مظفریات
کیا آپ کھانا لائے ہیں؟
مضایا(مدایا) یہ شام کے دارالحکومت دمشق سے لبنانی سرحد پر برفیلے پہاڑوں میں ایک چھوٹاسا لیکن انتہائی خوبصورت شہر ہے،اس کے لوگ شام کے تمام لوگوں کو گرمیوں کے موسم میں دریا دلی سے خوش آمدید کہتے ہیں،گرمیوں کی تپش دور کرنے کے لئے یہ علاقہ شامیوں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے یہاں مقیم افراد کو اپنے خنک موسم سے سکون فراہم کرتاہے،عرب لیگ کی مہمان نوازی میں ایک بار ہم بھی بیروت سے اس سرحد پر جاکر ایک دن ٹہرے تھے،یہاں ہر شے میں حسن وجمال ہے،کشش اوربلا کی جاذبیت ہے،گفتگو میں مٹھاس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ یہ لوگ کسی بات کے جواب میں‘‘ہاں’’ کے بجائے ‘‘حِلو’’یعنی میٹھا کہتے ہیں،اللہ گواہ ہے کہ یہاں کے بچے حقیقت میں پھول جیسے ہیں،لوگ ان کےکھانوں اور مشروبات پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں،غضب کا ذائقہ اورچاشنی ہے،پر آج یہاں موت رقص کررہی ہے،ایسے دل خراش مناظرہیں کہ الامان الحفیظ، یہاں کے بچے بھوک اور پیاس سے بھوتوں کی طرح لگتے ہیں،اہرامِ مصر میں پڑے فراعنہ کے ڈھانچوں اور یہاں کی زندہ لاشوں میں کوئی فرق نہیں ہے،سرد ترین علاقے میں بجلی کا نام ونشان عرصے سے مفقود ہے،ہرے بھرے درختوں کےپتے خوراک بن جانے کے بعد یہاں کے درخت اب بالکل ننگے ہیں،انسانوں سے مانوس جانوروں میں سےیہاں کے کتے اور بلیاں حالتِ جنگ میں ہیں ،کہیں اضطرار میں حلال ہونے کی وجہ سے وہ انسانوں کا لقمہ بنتے ہیں،کہیں انسان ان کا لقمہ بن جاتےہیں،بشار الاسد،حزب اللہ اور پوٹن یہ سب تماشادیکھ رہے ہیں،ان کے سوشل میڈیا کےکچھ بدبخت ان لوگوں کا ٹھٹھہ بھی اڑارہے ہیں،یہ کیوں، یہ صرف اس لئے کہ شام میں حکومت مخالف نعرہ لگانے والوں میں اس علاقے کے لوگ بھی شامل تھے،لیکن بچوں کا کیا گناہ ہے،خواتین اور غیر لڑاکا افراد نے کونسا جرم کیا ہے،عام آدمی نے توآزاد میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق آخری انتخابات میں بشار کو بھی ووٹ دیئے ہیں،پھر یہ انسانیت سوز مظالم کیوں؟

اخبار ’دی میٹرو‘ کے مطابق مدایا شہر کا شامی فوج اور حامیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے ۔ شہر کے چاروں طرف ہزاروں بارودی سرنگیں اور دیگر گولہ بارود پھیلاہوا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے اس شہر کے رہنے والے اپنے گھروں میں قید وبند میں ہیں۔ یہاں اشیائے خورد و نوش کب کی ختم ہوچکی ہیں، اور اب حالات یہ ہیں کہ لوگ درختوں کے پتے ابال کر کھاتے ہیں، یا پانی میں نمک مرچ گھول کر پینے پر مجبور ہیں،مٹی تک کھانے کی نوبت آچکی ہے ۔

شہر کی میڈیکل کونسل کے منیجر ڈاکٹر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ ہر روز لوگ بھوک کی وجہ سے مررہے ہیں، جبکہ جو زندہ ہیں وہ متنوع بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔ مدایا کے شہریوں کا کہنا ہے کہ درجنوں ممالک شام پر بم گرارہے ہیں، لیکن کوئی ایک بھی ایسانہیں کہ جو مدایا پر کھانے پینے کی اشیاءگرائے۔
ڈاکٹر یوسف کا کہنا ہے کہ مدایا کی آبادی تقریباً 40 ہزار رہ گئی ہے، جن میں سے اکثر بیماریوں کے شکار ہوچکے ہیں اور ان کے کھانے پینے کے لئے کوئی شے دستیاب نہیں ہے، اگر دنیا نے اب بھی کچھ نہ کیا تو پورے کا پورا شہر فاقوں سے مر جائے گا، کیونکہ شہر کے مسلح گھیراﺅ اور چاروں طرف بارودی سرنگوں کی وجہ سے کسی کے لئے شہر سے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں،گویا اندر کچھ کھانے پینے کو نہیں اور باہر کے راستے بھی مسدود ہیں۔

اقوام متحدہ کے زیر انتظام، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی)، شامی ریڈ کریسنٹ اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے منتظمین کے ترجمان پاول کریشیک کے مطابق یہاں لوگوں کی صورتحال دیکھنا بہت اذیت ناک ہے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی میرے پاس آئی اور اس نے سب سے پہلا سوال یہ کیا، ‘کیا آپ کھانا لائے ہیں’؟

دوسری جانب یعقوب ال ہلو کے مطابق اقوام متحدہ کے عملے نے قصبے میں بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کو دیکھا ہے۔ گذشتہ ہفتے مدایا سے سامنے آنی والی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ یہاں چاول ‘گرام’ کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں، کیوںکہ ایک کلو گرام چاول کی قیمت 250 ڈالرز (تقریباً 25 ہزار پاکستانی روپے) تک جا پہنچی ہے۔

قصبے میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن لوئے نے برطانوی اخبار گارجین کو ٹیلی فون پر بتایا:” یہاں لوگ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہے ہیں”. اخبار کے مطابق لوئے کی آواز بھی کئی مہینوں کے فاقوں اور خوراک کی کمی کے باعث انتہائی نحیف تھی.

لوئے کے مطابق لوگ بھوک مٹانے کے لیے پانی کے ساتھ پتے اور گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں، بہت سے افراد نے تو اپنے پالتو جانوروں کو ہی ذبح کرکے کھا لیا ہے.لوئے نے بتایا،” ہم کہتے تھے کہ کوئی بھی بھوک سے نہیں مر سکتا، لیکن ہم نے حقیقت میں لوگوں کو بھوک کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھا ہے”.

مقامی افراد کے مطابق مضایا کے لوگ ایک پیچیدہ پاور پلے کے دوران پس رہے ہیں اور ہزاروں میل دور موجود دو گاؤں میں حکومت مخالف فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے یہاں انھیں مشکلات جھیلنی پڑ رہی ہیں۔ ادلب صوبے کے دوعلاقوں فوعہ اور کفرایہ کا محاصرہ بھی کرلیا گیاہے، جہاں کے رہائشی بھی اُس وقت محصور ہیں۔

جبکہ مدایا دمشق کے شمال مغرب میں تقریباً 25 کلومیٹر دور واقع ہے۔ گذشتہ جولائی سے شامی فوج اور اُس کی لبنانی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ نے اِس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔

شام میں پچھلے چار پانچ سال سے یہ خطرناک کھیل جاری ہے،ابھی کل ہی روسی طیاروں نے شام کےسب سے بڑے شہر حلب میں ایک سکول پر تعلیمی اوقات میں بمباری کرکے بے شمار بچوں کو موت کی آغوش میں بڑی بے دردی سے سلادیا،اقوام متحدہ،او آئی سی اور عرب لیگ کسی میں اتنی سکت نہیں ہے کہ پوٹن اور بشار کے مظالم کےسامنے اگر بند نہیں باندھ سکتے تو کم از کم ہاتھ ہی جوڑدیں۔ پہلے بارودی ڈرم گرائے جاتے تھے،پھر کیمیائی ہتھیار بھی استعمال ہوئے،جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جوناروا سلک ہوا وہ ناقابلِ بیان اور ناقابل تصور ہے،ایسی ایسی ظالمانہ حرکتیں شام میں ہوئیں کہ انسان کو اپنی انسانیت پے شرم آجاتی ہے،لیکن افسوس ہے اتنی ترقی یافتہ دنیا میں کوئی نہیں، جو ان ظالموں کو کسی طرح بھی روک سکے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818568 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More