عشق کے لئے۔جنسی تبدیلی
(ajmal malik, faisalabad)
ہم آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں ۔یہاں کمپیوٹرپر بیٹھا ہر شخص ای میل کا منتظر ہے اورگلیوں میں پھرتا ہر شخص فی میل کا ۔ممکن ہے نکاح ۔ اب فیس بک اسٹیس کو سنگل سے میرڈ کرنے پر ہو جایا کریں ۔ مولوی صاحب پوچھیں۔کیا آپ کو اپنا فیس بک سٹیٹس سنگل سے مِیرڈ کرنا منظور ہے ۔ہاں کی صورت میں مبارک ہو۔مبارک ہو کی آوازیں آئیں گی۔ لیکن ٹیکنالوجی جتنی بھی تیز ہو ۔اِس کی رفتار تخیل سے کم رہے گی۔تخیل کی بات ہو تو میرا عقیدہ۔ جون ایلیا جیسا ہے وہ کہتے ہیں۔’’وجود خیال کا زوال ہے‘‘۔ |
|
|
گورو اور میرا۔لڑکی بننے کے بعد اور پہلے کی تصویر |
|
ویشنو ہندو مذہب کا سب سے
بڑادیوتا ہے۔جس کے انسانوں اور جانوروں پر مشتمل دس اوتار(دنیاوی روپ )
تھے۔نو اوتار پرتھوی پر ظاہر ہو چکے ہیں جبکہ دسویں اوتار ۔ کالکی۔کا
انتظار ہے۔کرشنا۔وشنوکا آٹھواں اوتار ہے۔ جو 3228 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔
ہندو مت کی قدیم منظوم داستان ’’مہابھارت ‘‘کے 17ابواب کو گیتا کہا جاتا
ہے۔گیتا کو ہندو مت میں مقدس ترین مانا جا تا ہے جس کے سارے شلوک کرشنا کی
بہادری سے متعلق ہیں اور کرشنا نے بانسری پکڑی ہوتی ہے۔ہندو کلینڈر کے چھٹے
مہینے بھادوں کے آٹھویں دن کرشنا کا جنم اُترپردیش میں ہوا۔
کرشنا کی بھگت میرا بائی ۔کا جنم1498 میں راجھستان کے شاہی خاندان میں
ہوا۔چار سال کی عمر میں میرا نے اپنی ماں سے پوچھا ۔ میرا دلہا کون ہو گا۔؟
تو ماں نےکرشناکی مورتی کی طرف اشارہ کیا ۔میرا تب سے ہی کرشنا کی ہو گئی۔
اسے محبوب بھی بنا لیا اور شوہر بھی۔اچانک میرا ۔ کی شادی کہیں اور ہو گئی
لیکن وہ کرشنا کے فراق میں سلگتی رہی۔ وہ مہارانی تھی لیکن عشق اسے
تھیاتھیا کرکے نچاتا رہا ۔شوہر نے گھر سےنکال دیاتو میرا ۔ کرشنا کے مندر
پہنچ گئی ۔جہاں عورتوں کے داخلے پر پابندی تھی۔ میرا گارڈز کو ناچ دکھا کر
اندر چلی گئی لیکن پنڈت نے باہر نکال دیا تو میرا نے بھاشن دیا۔’’میرے علم
کے مطابق پرتھوی پر خدا کے علاوہ ہر انسان عورت ہے۔ تم بھی اور میں بھی۔
کرشنا کی 30 سال عبادت کرکے تم خود کو مرد کیسے سمجھ سکتے ہو۔ ؟‘‘۔بھاشن سن
کر پنڈت بولا ۔’’ ہاں ایسا ہی ہے۔ اگر کوئی محبت میں اتنی انتہا تک چلا
جائے تو وہ عورت بن جاتا ہے۔‘‘
ہم آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں ۔یہاں کمپیوٹرپر بیٹھا ہر
شخص ای میل کا منتظر ہے اورگلیوں میں پھرتا ہر شخص فی میل کا ۔ لیکن مِیرا
۔کے نظرئیے کے مطابق یہاں عورتوں کوعورت کاہی انتظار ہے۔ٹیکنالوجی کی ترقی
دیکھ کرتو لگتا ہے کہ اب نکاح فیس بک اسٹیس کو سنگل سے میرڈ کرنے پر ہو
جایا کریں گے۔ مولوی صاحب پوچھیں گے۔کیا آپ کو اپنا فیس بک سٹیٹس سنگل سے
مِیرڈ کرنا منظور ہے ۔ہاں کی صورت میں مبارک ہو۔مبارک ہو کی آوازیں آئیں
گی۔ لیکن ٹیکنالوجی جتنی بھی تیز ہو ۔اِس کی رفتار تخیل سے کم رہے گی۔تخیل
کی بات ہو تو میرا عقیدہ۔ جون ایلیا جیسا ہے وہ کہتے ہیں۔’’وجود خیال کا
زوال ہے‘‘۔شادی کے بعد شنکر اور پوجا ہنی مو ن پر گئے تو شنکر بولا:پہاڑوں
میں اگر اپنا نام زور سے لیں تو پہاڑ جواب میں محبوب کا نام لیتا ہے اور وہ
زور سے بولا شنکرررر۔جواب آیا۔پوجا
دلہن نام سن کر خاصی خوش ہوئی اور زور سے بولی پوجاااا۔۔!
پہاڑ بولا:جگدیو۔پرکاش۔اجے۔۔ونود۔ وجے
کہتے ہیں کہ حماقت اور ذہانت میں بہت معمولی سا فرق ہو تا ہے۔ ذہانت کی حد
ہوتی ہے اور حماقت بے حد ہوتی ہے۔پہاڑ کا جواب سن کر شنکر کاشک ۔ وجود میں
آ چکا تھا۔جون ایلیا کا نظریہ اپنا کام دکھا چکا تھا۔ جگدیو اورپرکاش
وغیرہ وجود بن کر شنکر کے سامنے کھڑے تھے۔ ذہانت مات کھا چکی تھی۔ حماقت
اپنی آخری حدود کو چھو چکی تھی۔ہندو معاشرہ ایسی حماقتوں کی جنم بھومی ہے
۔اڑیسہ میں 30سالہ لڑکی بمبالہ نے 2006 میں کوبراسانپ سے شادی کر لی
تھی۔جھاڑکھنڈ میں 18 سالہ لڑکی منگلی منڈا نے2014 میں گلی کے آوارہ
کتے’’شیرو‘‘سےبیاہ رچا لیا۔مغربی بنگال میں ایک نواسےنا رائن نےجائیداد کے
لئےاپنی نانی سےشادی کرلی۔حتی کہ سابق مس ورلڈ ایشوریا رائےنے ابھیشک سے
پہلے ایک درخت سے شادی کی۔یہ ساری شادیاں ایسے بیمار ذہنوں کی علامت تھیں
جن کے جسم تندرست تھے۔
ڈاکٹر(مریض سے):تم پاگل تونہیں لگتے لیکن لوگ کیوں کہتے ہیں۔؟
مریض:میں نے ایک بیوہ سے شادی کی۔ اس کی ایک جوان بیٹی تھی۔ اس نے میرے باپ
سے نکاح کر لیا۔ یوں میری بیٹی میری ماں بن گئی۔ ان کے گھر بیٹی ہوئی تو وہ
میری بہن بن گئی لیکن میں اس کا نانا تھا۔ میرے ہاں بیٹا ہو ا تو وہ اپنی
دادی کا بھائی بن گیا اور میں اپنے بیٹے کا بھانجھا بن گیا۔ یوں میرا باپ
میرا دادا بن گیا۔ میرا بیٹا اپنے دادے کا سالا بن گیا اور میری بیٹی۔۔۔۔۔
ڈاکٹر چلا کر :یہ کیا حماقت ہے چپ ہو جاؤ۔ وگرنہ میں بھی پاگل ہو جاؤں گا ۔
اگلی حماقت یہ ہے کہ لکھنوکے رہائشی ایک کلاسکیکل ڈانسر گو روشرما ۔ اپنے
پاکستانی محبوب رضوان کے لئے جنس تبدیل کرا کے لڑکی بن گیا ہے۔گورو کا نیا
نام میرا ہے۔ میرا بننے سے قبل گوروکے کئی لڑکیوں سے مراسم تھے۔اس کی شادی
کے لئے دلہن کی تلاش جاری تھی کہ اچانک وہ خود دلہن بن گیا۔ گورو ۔اور
رضوان5 سال سے فیس بک پر دوست تھے او ر گورو صوفی ازم پر پی ایچ ڈی کے لئے
ریسرچ کر رہاتھا۔میرا نے بتایا کہ
’’ ایک وقت ایسا آیا جب ہم یک جان دو قالب ہو گئے۔ ہماری کبھی ملاقات نہیں
ہوئی رضوان پہلی بار مارچ میں ملنے آ رہا ہے۔رنگ و نسل ، مذہب یہاں تک کہ
جنس ۔ صوفی ازم سرحدوں کو عبور کرجاتا ہے۔رضوان کی والدہ جب اس کے لئے بیوی
تلا ش کر رہی ہے تو وہ میری زندگی کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔انٹرنیٹ پرسرچ کی
تو اس مسئلے کا حل جنسی تبدیلی کی صورت میں نکلا ۔پھر ہارمونز تھراپی شروع
ہو گئی ۔رضوان کو پانے کے لئے تین میجر آپریشن کرائے۔سرجری کیلئے رضوان نے
ہی مجھے 8 لاکھ روپےبھی دیئے مجھے یقین ہے کہ رضوان دھوکہ نہیں دے گا۔
‘‘ٹائمز آف آنڈیا نے اس جنسی تبدیلی کوکرشنا اور میرا سے منسوب کرکے بہت
ہی کمال کی ہیڈ لائن دی ہے۔He turned Meera for his ‘Krishna’ from
Pakistan.
گورو ۔ نے رضوان کوپانے کے لئے جس تبدیلی کا استعمال کیا وہ پاگل کی شادی
کے لطیفے جیسی ہے۔وہ رضوان کی دل میں تو بس جائے گی۔زندگی میں کیسے بسے گی
۔وہ صوفی ازم میں جس ڈاکٹریٹ کی متلاشی تھی۔وہ صوفی ازم توشریعت ۔طریقت ۔
حقیقت اور معرفت کی بات کرتا ہے۔محبوب کا رنگ اپنے اوپر طاری کرنے کی بات ۔
وہ ناچتا ہے تو تھیا تھیا ۔بولتا ہے تو ’’جھوک رانجھن دی جانا‘‘۔ اور گاتا
ہے تو ’’رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی‘‘۔
میرا کی ساری صوفیانہ تعلیم عشق لاحاصل جیسی ہے۔وہ تو کرشنا کی بھگت
تھی۔1498 والی میرا ۔کے نظرئیے کے مطابق وہ تو پہلے ہی عورت تھی اور یوں
رضوان بھی مرد نہیں عورت ثابت ہو ا۔ پی ایچ ڈی کی ساری ریسرچ چتا کی راکھ
بن گئی ہے۔اس نےتصور میں رضوان کو کرشنا کی طرح بانسری بجاتے دیکھا ہو گا۔
یہ کم بخت بانسری ہی ۔ رانجھے اور کرشنا میں قدر مشترک ہے۔ وگرنہ گورو۔تو
میرا بننے کی کوشش میں ہیر بھی نہ بن سکا۔البتہ یہ ممکن ہے ہندو معاشرہ اسے
وشنو کا دسواں اوتار ’’کالکی‘‘ما ن لے۔!کاش گورو نےپڑھ لیا ہوتا’’وجود خیال
کا زوال ہے۔‘‘
|
|