سر آئزک نیوٹن :
دوسری دفعہ" ایپل "کی اہمیت کا تعلق 17ویں صدی کے سر آئزک نیوٹن سے ہے ،
جسکو سکول میں کمزور اور بُدھو طالب علم سمجھا جاتا تھا۔بعدازاں 14 برس کی
عمر میں کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوا اور دُنیا عالم کا مشہور ریاضی
دان،سائنس دان اور ماہرفلکیات کہلایا۔لیکن وہ اپنے "قانونِ تجاذب یا عالمی
ثقالت" کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہوا۔ نیوٹن سے پہلے اجرامِ فلکی اور
اجسامِ ارضی کی حرکت ٹھیک طور پر معلوم ہو چکی تھی ،مگر اجسام کے زمین پر
گرنے اور سیاروں کے سورج کے گرد گھومنے میں کوئی باہمی تعلق معلوم نہ تھا۔
یہ اُلجھن نیوٹن کے قانون نے دُور کر دی۔
واقعہ کچھ اسطرح تھا ہے کہ نیوٹن کششِ ثقل کے اصول کو واضح کرنے والا کلیہ
نہ جان پا رہاتھا۔ اس ہی سوچ و فکر میں ایک شام وہ باغ میں جا کر ایک درخت
کے نیچے بیٹھ گیا۔ اُس وقت چاند ہلال کی شکل میں آسمان پر موجود تھا۔اتنے
میں ایک سیب درخت سے زمین پر آ گرا۔ نیوٹن نے چند لمحے اُس کی طرف دیکھ کر
سوچا کہ سیب کے گرنے میں جو قوت لگی ہے کیا وہی قوت چاند پر بھی اثر انداز
ہو رہی ہو گی۔ پھر وہ اُس کو اُٹھا کر خوشی سے چیختا ہوا گاؤ ں کی طرف بھاگ
پڑا۔ اُس دن قدرت نے سیب "ایپل" کی مدد سے ایک سائنس دان کیلئے کائنات کا
ایک راز آشکارہ کر دیا تھا۔ جس کے بعد اُس نے کششِ ثقل کا جو تاریخی قانون
بیان کیا وہ یہ تھا کہ" : کائنات میں ہر نقطہ ء کمیت دوسرے نقطہء کمیت کو
ایک قوت سے کھینچتا ہے۔یہ قوت دونوں اجسام کے درمیان سیدھے خط میں عمل کرتی
ہے اور دونوں کمیتوں کے حاصل ضرب کے راست متناسب اور ان کے مراکز کے
درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے"۔ یا آسان الفاظ میں ایسے
کہہ سکتے ہیں کہ مادے کا ہر ذرہ دوسرے ذروں کو ایسی قوت سے کھینچتا ہے جو
اُن کی کمیتوں کے حاصل ضرب کے متناسب اور بُعد کے مربع کے بلعکس متناسب
ہوتی ہے۔مثلاًاگر دو اجسام کا درمیانی فاصلہ دُگنا کیا جائے تو قوتِ جاذبہ
چوتھائی رہ جائے گی۔ |