نور خان میرا بچپن کا دوست ہے ،ہم نے زندگی
کا ایک طویل عرصہ ایک ساتھ گزاراہے ،ایام زیست کی بے شمار سماعتیں ایک ہی
شہر ایک ہی گاؤ ں میں بسر کیں ،خوشی کی گھڑی ہو یا پریشانی کامرحلہ، ہم
باہم شریک رہے ہیں ، ہمارے لیے چھٹی کادن تو عید سے کم نہیں ہوتااور عیدین
کے موقع پر ہماری خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ یہاں ایک یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
ہمارے درمیان ایک چیز بالکل متضاد ہونے کے باوجود ہماری دوستی میں کوئی فرق
نہیں آیا ،نور خان ایک کاروباری آدمی ہے ، کلین شیو ، پینٹ شرٹ میں ملبوس ،
سر پر ٹوپی کے بغیر ،جبکہ ہم مدرسے کے فاضل ، سرپہ ٹوپی، ایک مخصوص چال
ڈھال ……
یہ گرشتہ عید الاضحی کی بات ہے، ہم لوگ جیسے عید کی نماز پڑہ کر فارغ ہوئے
اور کپڑے تبدیل کر کے قربانی کے جانور کے پاس جا پہنچے ،اسے ذبح کیا ،گوشت
کی بوٹیا ں بنائیں ،قربانی کے شرکاء میں تقسیم کے بعد اپنے حصے کا گوشت لے
کر گھر آگئے ،جب ہم اس کام سے فارغ ہوئے تو دن کے 12بج رہے تھے ،نور خان نے
کہا چلیں،کپڑے تبدیل کر کے قریب قریب کے رشتہ دارو ں کے ہاں چلتے ہیں عید
ملنے کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں کہ اب تک ہمارے پاس کیوں نہیں آئے ،میں نے
اس تجویز سے اتفاق کیا اور اور ہم لوگ نکل گئے ،گھر سے نکلتے ہوئے نور خان
کا چھ سالہ بچہ بھی بضد ہوا کہ میں بھی ساتھ چلوں گا ،ہمیں اس کی ضد کے
سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے،نور خان کے بیٹے نے جناح کیپ پہنی ہوئی تھی ،کئی
رشتہ داروں سے ملنے کے بعد ہمارا یہ تین رکنی کارواں رواں دواں تھا کہ ظہر
کی اذان ہوگئی ،میں نے کہا جناب قریبی مسجد میں نماز پڑھ لیتے ہیں پھر یہ
سفر مزید جاری رکھیں گے ،ہم مسجد میں پہنچے ، اپنے اپنے جوتے ریک میں رکھے
تو نور خان کے چھ سالہ بیٹے فراز نے سر سے ٹوپی اتاری اور کہا ابو یہ بھی
ریک میں رکھنی ہے ؟۔
قارئین کرام!بظاہریہ ایک چھوٹاساواقعہ ہے مگرغور فکر کریں تو اس میں ایک
بہت بڑا سبق ہے ہمارے لیے کہ ہم نسل نو کی تربیت میں غفلت کا شکار تو نہیں
ہورہے ؟کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ہمارے بچے ہماری باتوں سے نہیں ہمارے
کردار سے متاثر ہوتے ہیں ،ہماری نصیحتوں سے ذیادہ ہمارے طرز عمل کو اپناتے
ہیں ،فراز نے یہی سمجھا ہوگاکہ ٹوپی تو ملوی پہنتے ہیں ،ہمیں وہی کرنا ہے
جو ابو جی کرتے ہیں ،اس معصوم ذہن نے یہی نتیجہ نکالا ہوگا کہ جس طرح مسجد
میں جوتے اتار کے جاتے ہیں اسی طرح ٹوپی بھی اتار کے جانا ہوتاہے ۔
آج ہم اولاد کی تربیت سے غافل ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایک گھنٹہ مدرسے
میں پڑھانے سے بچوں کی تربیت ہوجائے گی تو یہ ہماری بھول ہوگی ،ہمارے بچے
چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہم سے تربیت حاصل کررہے ہوتے ہیں ،اگر ہم خود ہی
اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے تو کسی اور سے امید رکھنا حماقت کے سوا
کچھ نہیں ،یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہمارااپنامن پاپی ہو ،جب ہم خود برسوں میں
نمازی نہ بن سکے تب کوئی ــــــــ’’فراز‘‘کردارکا غازی کیسے بنے گا۔وہ تو
ہم سے یہی پوچھے گا کہ ’’ابوجی! ٹوپی کہاں رکھنی ہے؟‘‘۔ |