"سیب" ایک لذیذ پھل ہے۔جو مختلف رنگوں اور
ذائقوں میں ہوتا ہے اور اسکو کھانے سے صحت پر مفید اثرات ہوتے ہیں۔ مفرح دل
و دماغ ہے۔دل کو طاقت دیتا ہے ۔اس میں فولاد ،وٹامن اے،کیلشیم،فاسفورس پائے
جاتے ہیں۔جو انسانی صحت کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ وٹامن بی اور سی
بھی ہوتے ہیں۔ کمزور مریضوں کیلئے بے حد مفید ہے۔
تاریخی طور پر اسکا درخت مغربی ایشیامیں کاشت ہونا شروع ہوا ۔جبکہ ایک
اندازے کے مطابق اسکی ابتداء کا مرکز مشرقی ترکی ہے اور 328قبلِ مسیح میں
سکندرِ اعظم کے قازقستان کے سفر میں سیب کا ذکر ملتاہے۔ تاریخی کتابوں میں
دیومالائی قوتوں کے ساتھ بھی سیب کا ذکر ہے۔جبکہ تاریخِ طبری میں لکھا ہوا
ہے کہ یہ اُن پھلوں میں شامل ہے جو حضرت آدم کو زمین پر بھیجنے کے ساتھ
عنایت کیئے گئے تھے۔
سیب کو انگریزی میں ا"یپل" کہتے ہیں۔دلچسب بات یہ ہے کہ "ایپل" کالفظ دُنیا
عالم میں تین دفعہ اہم اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔
حضرت آدم ؑ و اماں حوا :
پہلی دفعہ" سیب یا اپیل" کاتعلق حضرت آدم و اماں حو ا سے ہے۔جب اُنھیں جنت
میں رہنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ بفراغت جو چاہو کھاؤ،مگراُس
درخت کا رُخ نہ کرنا ۔ورنہ ظالموں میں شمار ہو جاؤ گے۔اُنھوں نے حکم مان
لیا۔ ابلیس (معنی انتہائی مایوس) انسانی پیدائش سے پہلے آسمان اور زمین کے
درمیانی علاقے کا نگران تھا ،لیکن جب اُس نے حضرت کو آدم کو سجدہ نہ کرنے
کی نافرمانی کی تو اُس کو دھتکارا ہوا شیطان بنا دیا گیا جس پر جنت میں
داخل ہونے کی ممانت بھی تھی۔ ابلیس ملعون سے نہ رہا گیا اور جنت میں جانے
کی کوشش کی۔روایت ہے کہ جب اُ س نے اُن دونوں کے پاس جانے کی کوشش کی تو
محافظ فرشتوں نے اُس کو روک لیا۔تب ابلیس شیطان" سانپ" کی شکل میں جنت میں
داخل ہو گیا اور حضرت آدم اور اماں حوا کو درختِ ممنوع کا پھل کھانے کی
ترغیب دی۔ وہ دونوں وسوسہ شیطانی سے پھل کھا گئے اور کھاتے ہی اُنھیں احساسِ
گناہ بھی ہو گیا۔لیکن اُن سب کو حکم ہوا کہ تم سب جنت سے زمین پر اُتر جاؤ
اور جہاں ایک مدت تک تمھارا ٹھرنا مقرر کر دیا گیا ہے۔گو کہ کسی بھی آسمانی
کُتب سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے کو نسا پھل کھایا ۔ لیکن تاریخِ
طبری میں "گندم کا دانہ" لکھا گیا ہے اور عیسائیوں کی روایت کے مطابق سیب "ایپل
"ہے۔جبکہ لاطینی زبان کے جس لفظ(malum) سے اس پھل کا نام منسلک کیا گیا ہے
اُس لفظ کا مطلب بُرائی بھی ہے۔ |