سکھ کا سانس
(Dr B.A Khurram, Karachi)
وطن عزیزپاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے
اڑسٹھ برس گزر گئے پاکستان کی عوام کو ہر حکمران نے سہانے خواب اور سبز باغ
دیکھائے الیکشن مہم کے دوران بلند وبانگ دعوے اور نعرے محض ’’لارا لپا‘‘ ہی
ثابت ہوتے رہے ہمارے حکمرانوں نے اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کیا
کیا جتن نہیں کئے اپنے مفادات کے لئے حکمران اور اپوزیشن والے ہمیشہ متفق
رہے ،ملک میں لاقانونیت،بے روز گاری،لسانی ،مذہبی فسادات،قتل وغارت،دہشت
گردی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے مسائل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کا
ہمیشہ سے مقدر رہے ہیں ان مسائل کے حل کے لئے حکمرانوں کے پاس وقت نہیں ہے
کیونکہ ان گھمبیرمسائل میں سیاست دانوں کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا انہیں تو
اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا ہوتا
ہے وطن عزیز کی عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے عام انتخابات میں موجودہ
حکمرانوں نے سابقہ حکومت کے ایک’’ کرتا دھرتا‘‘ کو لاہور کی سڑکوں میں
گھسیٹنے اور پھانسی پہ لٹکانے کی نوید سنائی تھی پھر پاکستان کی غیور عوام
نے دیکھا جب ’’سونامیوں‘‘ نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے شہر اقتدار پہ چڑھائی
کی126دنوں کے دھرنوں کا دور چلا اس دور میں ملک عزیز کی معیشت کو کتنا
نقصان اٹھانا پڑا یہ ایک الگ موضع ہے اور اس پہ بھی ایک مکمل کالم لکھا
جاسکتا ہے بات ہو رہی تھی اقتدار کو بچانے کی ان دنوں میں حکومت سونامیوں
کے دھرنوں سے ’’ہچکولے‘‘ کھا رہی تھی ہر طرف حکومت ٹوٹنے کی باتیں زبان زد
عام تھیں’’شریفوں‘‘ کے ہوش اڑے ہوئے تھے حکمرانوں کو وہی شخص بڑی بے تابی
سے یاد آیا جسے الیکشن مہم کے دوران صوبائی دارالحکومت لاہور کی سڑکوں پہ
گھسیٹنے کے دعوے کئے گئے تھے حکومت نے اپنے ختم ہوتے اقتدار کو بچانے کے
لئے اسے اپنے گھر بلایا وزیر اعظم نے ایئرپورٹ پہ استقبال کیا ستر سے زائد
پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا میاں صاحب خودگاڑی کو ڈرائیوکرتے ہوئے اپنے
ساتھ بیٹھا کر اپنے محل لائے اس شخص کی ’’مفاہمتی پالیسی ‘‘ رنگ لائی اور
سونامیوں کے دھرنے’’ دھرے کے دھرے‘‘ رہ گئے اور اقتدار سلامت رہا اس ساری
کشمکش اور بھاگ ڈور میں عوام کو کیا ملا یقینا کچھ نہیں کیونکہ عوام کی
سیاست دانوں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں عوام کو بکریوں کے ریوڑ کی طرح جب
چاہے ہانک کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد حاصل کر لئے جاتے ہیں عوام کو
اندھیروں میں رکھنا ہر حکمران کا مشغلہ رہا ہے اندھیروں سے یاد آیا موجودہ
حکمرانوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ملک عزیز سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی
6ماہ میں خاتمے کی نوید سنائی تھی کیا ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ
ہوا۔۔؟۔یقینا جواب نہیں میں ہے حکمرانوں کو اقتدار میں آئے ہوئے تین سال کے
قریب وقت ہوچکا ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو دور کی بات ہے ملک میں
قدرتی سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی عوام پہ مسلط کر دیا گیا ہے لوگوں
کے گھروں میں چلنے والے چولہے بھی ٹھنڈے ہو چکے ہیں اور یہ چولہے یخ بستہ
ہواؤں سے ٹھنڈے نہیں ہوئے بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملی کی بنا پر ہوئے
ہیں چوبیس گھنٹوں میں پانچ سے چھ گھنٹے گیس عوام کامقدر بنتی ہے وہ بھی
انتہائی کم پریشر کے ساتھ،بیچارے عوام کیاکر سکتے ہیں سرد موسم میں صحرائے
تھر میں غذائی قلت کے باعث دن بدن اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ
سندھ کے حکمران ’’سب اچھاہے‘‘ کی راگ الاپ رہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق
تھرپارکر میں بھوک اور بیماری رواں مہینے جاں بحق ہونے والے بچوں کی
تعداد32 ہو گئی ہے۔ تھرپارکر میں موت رقصاں ہے مختلف بیماریوں کے باعث رواں
ماہ کے 10دنوں میں اب تک 32بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن وہاں کے حکمران
صرف ایک ’’ڈاکٹر‘‘ کو بچانے کے لئے اپنی توانائی صرف کئے جا رہے ہیں واضح
رہے وہ ’’ڈاکٹر‘‘سابق صدر مملکت کے قریبی دوست ہیں اور جو صحرائے تھر میں
غذائی قلت سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بچے ہیں ان کی حکمرانوں کو
قطعی فکر نہیں ہے ۔۔آخر کیوں ۔۔۔؟ کیا ان بچوں کی زندگیاں اس ایک ڈاکٹر(جسے
حکمران بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگا رہے ہیں )کی زندگی سے کم اہمیت کی
حامل ہیں نہیں نہیں ایسا نہیں ہے غریب اور امیرکی زندگی کی اہمیت ایک جیسی
اور برابر ہے -
ادھرعالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل کی کم ترین سطح پر
آگئی ہے۔مورگن سٹینلے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدرکی
وجہ سے خام تیل کی قیمت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ منگل کے روز بھی خام تیل
کی قیمت میں ڈھائی فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے جس کے بعد قیمت 30 ڈالر فی
بیرل پر آگئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کی قدر بڑھتی رہی تو تیل کی
قیمت میں مزید کمی ہوگی اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 20 ڈالر تک گرسکتی
ہے۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں پاکستان میں پندرہ سال پہلے کی سطح پہ
پہنچ گئی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ عوام کو کسی قیمت
پہ ریلیف نہیں دینا ماہر معیشت دانوں کا کہنا ہے اگر پندرہ سال پہلے والی
سطح پہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آ جائیں تو ملک میں خوشحالی کا نیا دور
شروع ہو سکتا ہے روزگار کے مواقع میسر آسکتے ہیں مہنگائی میں مثالی کمی ہو
سکتی ہے جس سے دکھوں کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو بھی ’’سکھ کا سانس‘‘مل
سکتا ہے خدا کرے حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کی عوام کو ریلف
دینے کے لئے کوئی’’مفاہمتی پیکج ‘‘ دیں پیاری عوام نے تو اپنی زندگی کے دن
امید ہی پہ تو بسر کرنا ہوتے ہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ |
|