گٹر اور سیاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے

بلدیاتی انتخابات کے بعد یکایک جیسے کراچی شہر میں گندگی غلاظت کا سیلاب امڈ آیا اور پورے شہر کراچی کا کوئی ایسا علاقہ نہ رہا کہ جہاں گٹر نہ ابل ہوں اور سیوریج کا گندہ پانی سڑکوں اور گلیوں میں تعفن نہ پھیلا رہا ہو۔ سوچنے کا مقام یہ نہیں ہے کہ ایسا کراچی میں ہوا ۔ بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی سیاست اتنی گندی ہوچکی ہے کہ اب کسی سیاسی جماعت کیلئے اپنے لئے ہمدردی حاصل کرنے کیلئے کسی بے گناہ انسان کی لاش یا گٹر کے ڈھکن اور سیوریج کا گندا پانی بہانا ضروری ہوگیا ہے۔کراچی کی سیاست اتنی گندی ہوجائے گی یقینی طور پر کراچی کی عوام نے بھی کبھی نہیں سوچا ہوگا ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر سید مشاہد اﷲ کے نوکیلے جملے کہ سندھ حکومت ،حالت جنگ میں ہے پھرحالت بھنگ میں ہے اور اب کراچی حالت گند میں ہے ۔کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ لائنوں میں بوریاں ڈال کر کراچی کا سیوریج نظام تباہ کیا جارہا ہے۔وزیر بلدیات جام خان شورو نے یہ انکشاف کیا کہ ایم اے جناح روڈ پر سیوریج لائن سے بوریاں ملی ہیں ، انھوں نے واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو تحقیقات کی ہدایت کی ہے جبکہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سکھر میں سازش کے تحت گٹر بند کردیئے جاتے تھے اور سینئر وزیر تعلیم نثار کھوڑو سیاسی نئی اصطلاح سامنے لائے کہ گٹر اور سیاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

یہی تو کراچی کی عوام بھی کہہ رہی ہے کہ سیاست کرنے کیلئے انھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے عوام پہلے ٹارگٹ کلنگ سے تنگ تھے ، پھر بھتہ خوروں نے انھیں چین کا سانس نہیں لینے دیا تو اسٹریٹ کرائمز نے تو اکیلے جانے اور رات گئے روشنیوں کے شہر میں گھومنے کا تصور کو ہی ختم کردیا تھا لیکن سندھ رینجرز کو 30سال بعد دو سال قبل جب اختیارات اصل معنوں میں ملے تو آہستہ آہستہ شہر امن کی وادی کی طرف لوٹنا شروع ہوا۔ٹارگٹ کلرز کی بڑی تعداد روپوش اور گرفتار ہونا شروع ہوئی ، عوام میں جینے کیلئے اعتماد بحال ہونا شروع ہوا اور پھر رینجرز کے آپریشن کے دوسرے مرحلے میں انتہا پسندوں کو فنڈنگ کرنے والوں کے خلاف اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوا تو قربانی کی کھال دو یا پانی کھال ، لینے والے غائب ہونا شروع ہوگئے ، عوام نے کئی عشروں بعد مذہبی فریضہ اپنی مرضی سے ادا کیا ، زبردستی زکوۃ فطرے سے نجات ملی تو شہر میں روشنی واپس آنا شروع ہوئی ۔ رینجرز کا شروع دن سے یہی ماننا رہا ہے کہ دہشت گردوں کو کراچی سے بھاری فنڈنگ کی جاتی ہے جس میں انھوں نے واٹر مافیا کا زکر بھی کیا کہ غیر قانونی ہائی ڈرینڈرنٹ کی وجہ سے اربوں روپیہ دہشت گردوں کو فنڈنگ کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ بھی کرپشن کی ایک شکل ہے ، لہذا رینجرز نے واٹر بورڈ کا کام بھی اپنے ذمے لیا اور شہر کراچی میں غیر قانونی ہائی ڈرینڈرینس اور پانی لائنوں کے جالوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی لیکن مقام افسوس یہ بھی تھا کہ عسکری اداروں کو اب بلدیاتی نظام بھی چلانا ہوگا ۔ گو کہ اس سے قبل پانی کے ٹینکرز کی فراہمی رینجرز کے سپرد تھی لیکن دوران آپریشن کراچی کی عوام ورطہ حیرت میں تھی کہ ان گنت غیر قانونی ہائی ڈرینٹ کھل کیسے گئے اور کراچی میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوا کہ ایک ٹینکر پانچ سے دس ہزار روپے میں فروخت کئے جانے لگا ، متحدہ قومی موومنٹ تو پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ اگر یہ صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو کراچی میں پانی کے مسئلے پر خانہ جنگیاں بھی ہوسکتی ہیں، رینجرز نے تیز ترین آپریشن کرکے اس’ خانہ جنگی‘ کو روکا لیکن واٹر بورڈ کی اپنی بھی کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں لیکن بد قسمتی سے واٹر بورڈ میں سوائے خلاف ضابطہ بھرتیوں اور غیر قانونی ہائی ڈرینڈرنس کی سرپرستی کے دوسرا کوئی کام عوام کو نظر نہیں آیا۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد عوام کو یہ امید ہوچلی تھی کہ ان کے مسائل اب علاقے کے سطح پر حل ہونا شروع ہوجائیں گے کہ یکدم کراچی کی مرکزی شاہراہوں سے گٹر کے ڈھکن چوری ہونا شروع ہوگئے ، ہاں ایک وقت تھا کہ کراچی کے مین ہولز پر لوہے کے ڈھکن لگائے جاتے تھے لیکن قومی خزانوں کے چوروں کی طرح کچھ نشہ کرنے والوں نے ان کا استعمال چوری کرکے اپنے نشے کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کیا۔لیکن ایسا نہیں ہوا کہ یکدم ایک ایسی مہم شروع ہوئی کہ گٹر کے ڈھکن لگانا بھی وزیر اعلی کا کام ہو۔

یہ اس کھیل کا حصہ ضرور ہوسکتی ہے جو آج کل سوشل میڈیا میں بڑے دھوم سے مچائی جا رہی ہے کہ گٹر کے ڈھکن کے پاس وزیر اعلی کی تصویر بنا دی جائے ۔ اور بچارے وزیر اعلی ایک بے بسی کی تصویر نظر آئیں اور بے چارگی سے کہیں کہ کیا اب وزیر اعلی کا کام گٹر کے ڈھکن لگانا رہ گیا ہے۔ میڈیا نے اس انوکھے لاڈلے کو بھرپور کوریج دی کیونکہ یہ سب کچھ نیا تھا ۔بلدیاتی ادارے متحرک ہوئے تو اچانک گٹر ابلنے لگے اور سابقا بلدیاتی حکومت کے اس دور کی دوبارہ یاد تازہ کردی جب کراچی کی دو بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے پر یہ الزام لگا یا کہ وہ سیوریج لائنوں میں بوریاں ڈال کر سیوریج کا نظام خراب کر رہے ہیں۔ابھی بلدیاتی نمائندوں نے حلف اٹھایا بھی نہیں کہ کراچی میں جا بجا گندگی اور غلاظت بھیلنا شروع ہوگئیں ، بلدیاتی ملازمین نے کام کرنا یکد م چھوڑ دیا یہاں تک کہ ضلعی ایڈمنسٹریٹرز دفاتر سے غیر حاضر رہنے لگے ۔ ضلع غربی کے ایڈمنسٹریٹر گذشتہ دو ماہ سے دفتر نہیں آ رہے تو باقی ماندہ اضلاع کے ایڈمنسٹریٹرز دفتر میں چند منٹوں کے لئے آتے اور باقی ان پر نظر رکھنے والا کوئی تھا ہی نہیں کیونکہ سندھ حکومت بار بار بلدیات کے وزیر کو تبدیل کرنیکے شوق میں مبتلا نظر آئی تو کراچی کے منتظم کے فیصلے کیلئے سندھ حکومت کبھی کسی کو چارج دیتی تو کبھی کسی اور کو چارج دیتی مشغول نظر آئی۔
کراچی کی عوام بس اتنی گزارش کرتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح انھیں بھی جینے کا حق دیا جائے اگر انھیں سہولیات مہیا نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان کی مشکلات میں اضافہ تو نہیں کیا جائے۔کراچی کی عوام گٹر کی اس سیاست سے نالاں ہیں اور کراچی کی ہر سیاست کو تعفن زدہ بد بودار نہیں سمجھتے کہ جہاں کسی کو قائل کرنے کیلئے بات چیت کا کوئی راستہ اپنایا جائے وہاں خون کی ندیاں بہانے شروع کردی جاتی ہے۔ نہ جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے منظم سازش کے تحت کیا جارہا ہے کہ جس طرح رینجرز کو اختیارات دینے کے معاملے میں غیر ضروری کچھاؤ پیدا کیا گیا ۔ کیونکہ کراچی کی عوام ہر مسئلے کے حل کیلئے رینجرز پر اعتماد کرتی ہے اس لئے کہ الیکشن ہوں تو سب کا مطالبہ ہوتا ہے کہ رینجرز کو تعینات کیا جائے ، امن ہو تو رینجرز کو تعینات کیا جائے ، پانی کا بحران ہو تو رینجرز کو تعینات کیا جائے ، بجلی کا بحران ہو تو رینجرز کو تعینات کیا جائے ۔ کئی اب ایسا نہ ہوجائے کہ واٹر بورڈ کے اس حصے میں سیوریج کے نظام کیلئے رینجرز کو کہا جائے کہ دیکھیں کہ یہ کون سے شر پسند ہیں جو ڈھکن چوری کرکے خصوصی مہم چلا رہے ہیں ، رینجرز کو یہ ذمہ داری نہ دے دیں کہ گٹر کی لائنوں میں بوری بند لاشوں کے ساتھ ساتھ مٹی کی بوریاں کون ڈال رہا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ رینجرز کا مورال گرانے کیلئے ہمارے سیاست دان یہ مطالبے بھی کرگذریں۔خدارا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں آپ اپنی گندی سیاست کو اپنی حد تک محدود رکھیں۔ بلدیاتی نظام میں بلدیاتی نمائندوں کو ان کے اختیارات بغیر کسی لیل و حجت کے دے دیں تو یہی بہتر ہوگا ۔ دنیا بھر میں ہماری گٹر کی یہ سیاست جگ ہنسائی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ کل کو ایسا نہ ہو کہ گٹر میں جان بوجھ کر بوریاں ڈال کر سیوریج لائن بند کرنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی نوے دن کے ریمانڈ بھی دینے لگیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.