رواں ماہ تھر میں بھوک سے مرنے
والے بچوں کی تعداد 60 ہو گئی ہیں سب سے زیادہ ہلاکتیں مٹھی میں واقع ہوئی
ہیںایسا پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں
بچے مر چکے ہیں یہ وہ علاقہ ہے جہاں پانی و خوراک کی قلت ہے میڈیا تو
برسراقتدار لوگو تک تھر کے مظلوم لوگو کی آواز پہنچا رہا ہے مگر حکمرانوں
کے کانوںمیں جوں تک نہیں رینگ رہی۔اس سے پہلے کراچی میں بھی ناقص انتظامات
اور ہسپتالوں کی قلت کی وجہ سے 1500 سے زائد افراد لقمہ اجل ہوچکے ہیں مگر
انھوں نے اس سے بھی سبق نہیں سیکھا تھا۔
مجھے حیرانگی ہوتی ہے ایسی جماعت پر جو کراچی سے خیبر تک پاکستان بند کرنے
کی دھمکی دے سکتی ہے، بلاول کی آمد پر کراچی کی شاہراہیں بند ہو سکتی
ہیں،رینٹل پاور پروجیکٹ اور حاجیوں کو ایسی بھُرتی کے ساتھ لُوٹ سکتی ہے کہ
نیب کو بھی نہ پتا چلے تو کیا یہ تھر کے متاثرہ علاقوں کے حالت زار کے بارے
میں نہیں سوچ سکتی۔ حکمران لوگ کسی بھی ریاست کے رکھوالے ہوتے ہیں اور عوام
کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا انکی ذمہ داری ہوتی ہے، ہمارے حکمرانوں کو ان
باتوں کو سمجھنا چاہیے اور عیش وعشرت کو چھوڑ کر عوام کے مسائل پر توجہ
دینی چاہیے بے یارومددگار معصوم شہریوں کو دیکھ کر مجھے کہنا پڑھ رہا ہے
کہاں ہے ارض وسماں کا مالک
کہ چاہتوں کی رنگیں گُریدے
ہوس کی سرخی رُخ بشر کا
حسیں غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا اِدھر تو دیکھے
کوئی تو چارہ گری کو اُترے
اُفق کا چہرہ لہوسے تر ہے
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے
|