آج کل اشعار ہیں کہ رکتے ہی نہیں
سیدھے سادے لکھتے لکھتے کبھی کبھار موسم کی تبدیلی سے ماحول کی نزاکت کا
خیال بھاری ہونے پر نیا انداز بیان ظاہر ہو جاتا ہے۔ جو کہ میرا اپنا نہیں
ہے۔ علامہ محمد اقبال قائداعظم محمد علی جناح کی طرح ہمارے بھی مرشد ہیں۔
ان کے ایک شعر کو آج کے دور پہ بٹھانے کی جسارت کی ہے۔ جس کے لئے پیشگی
معذرت چاہتے ہیں ۔
علم سے زندگی چلتی ہے قناعت بھی رسم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ حضوری ہے نہ درباری ہے
یہ بھی ممکن ہے آپ کہیں کہ بات بنی نہیں۔ لیکن آج بات اپنی نہیں کہیں گے۔
صرف بیان تو صرف علامہ صاحب کا ہی کریں گے کہ انہوں نے کیا خوب کہا ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علامہ صاحب نے جس دور میں فلسفہ پڑھا اس وقت تعلیمی شعور کی تحریک کا آغاز
تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے سے پیغام دیا کہ مسلمان اپنی ذات
کو پہچانےاور اپنے عمل سے منزل تک کی رسائی حاصل کرے۔ غلام ملک کی غلام قوم
کو وہ جو پیغام دیتے رہے اس کا مقصد تھا کہ وہ اپنے رویوں کو مقاصد کے حصول
کے رخ پر چلائیں۔ قوم کی روح کو بیدار کرنے کے لئے ان کا پیغام فلسفہ کی
چند کتابوں کی بنیاد پہ نہیں تھا۔ بلکہ پچھلے دو سو سال سے سماجی، معاشرتی،
معاشی اور مذہبی انحطاط پزیر مسلم معاشرہ جس زوال کا شکار تھا۔ وہاں سے
نکالنے کے لئے انہوں نے اپنے کلام سے ایک نئی روح پھونکی۔
وہی ديرينہ بيماری، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگيز ہے ساقی
نہيں ہے نااميد اقبال اپنی کشت ويراں سے
ذرا نم ہو تو يہ مٹی بہت زرخيز ہے ساقی
ہندوستان کے تمام مکاتب فکر سے لے کر ایرانی مفکرین تک ان کا حوالہ دینے
میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان کی فکر کا تعلق عام آدمی کی سوچ سے تھا۔ جسے
انہوں نے تبدیلی کا بنیادی ماخذ قرار دیا۔ انہوں نے اپنے لکھے گئے شکوہ کی
بنا پر بعض فتوؤں کا سامنا بھی کیا۔ وہ ایسی سوچ کے حامل مسلمانوں کی آئینہ
دار تھی۔ جو ایک مایوس اور انحطاط پزیر معاشرہ کی عکاس تھی۔
علامہ صاحب کے کلام میں الفاظ علمیت کا بوجھ نہیں رکھتے۔ بلکہ ذہن پر چھائی
آلودہ معاشرتی گرد کے لئے لطیف ہوا کے جھونکے کا احساس رکھتے۔
خودی کی شوخی و تندی ميں کبر و ناز نہيں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نياز نہيں
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قوم کے اندر کون سی سوچ پنپتی ہے جب وہ غلامی کی
زنجیروں سے جکڑی جاتی ہے۔ اسی لئے خودداری پیدا کرنے کے لئے خودی کا تصور
وسعت بیان یوں کرتے ہیں۔
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہيں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہيں
میرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پيرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہيں
کہنے والے تو یہ بھی کہہ دیتے کہ وارث شاہ کی ہیر رانجھا سے بڑھ کر آج کی
دنیا میں مثالیں موجود ہیں۔ اگر آج عشقیہ داستانیں بہت زیادہ ہیں تو یہ
معاشرے کے رویے کی وجہ سے ہیں۔ ہوا کا رخ انہیں اس طرف لے کر چلا گیا۔ لیکن
وارث شاہ نے جب لکھا وہ کہانی بھی نئی تھی۔ موضوع بھی نیا تھا۔ وہ معاشرہ
قبولیت و جذبیت کے فقدان کا دور تھا۔ آج قبولیت کی انتہا ہے۔ اس لئے عشق کی
انتہا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
علامہ صاحب قوم میں جو عشق دیکھنا چاہتے تھے اسے انہوں نے یوں بیان کیا۔
کيا عشق ايک زندگی مستعار کا
کيا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کي شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس ميں مزا نہيں تپش و انتظار کا
علامہ اقبال ایک قومی شاعر اور تصور پاکستان کے خالق کا عظیم اعزاز رکھتے
ہیں۔ لیکن آج الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی ترقی سے علامہ صاحب کے افکار ایک
بار پھر موضوع بحث ہیں۔ اور اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ نئی نسل میں
وہ روح بیدار ہو جس کا علامہ صاحب بار بار اظہار کرتے تھے۔
دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہيں ہے
پھر اس ميں عجب کيا کہ تو بے باک نہيں ہے
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک ميں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہيں ہے
کسی بیمار کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر ہسپتال پہنچانا ہو تو دو مزید
ہاتھوں کی ضرورت رہتی ہے۔ جو اس کے لئے ہسپتال کے دروازہ کھولتے چلے جاتے
ہیں۔ یہی یہ دو دو ہاتھ قائداعظم اور علامہ اقبال کے تھے۔ ایک نے غلام قوم
کو دونوں ہاتھوں میں لیا اور دوسرے نے آزادی کا دروازہ کھلا دکھایا۔ صرف
بیماری کی تشخیص کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ دوا کی ضرورت اور افادیت سے آگاہی کا
ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکيمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حديث رندانہ
نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دور پيمانہ
فقط نگاہ سے رنگيں ہے بزم جانانہ
مری نوائے پريشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ ميں ہوں محرم راز درون ميخانہ
آج کے دور میں کتنے لوگ ہیں جو اس نقطہ کو سمجھتے ہیں کہ لکھنے کا تعلق صرف
زور قلم سے نہیں بلکہ جذب مفہوم سے ہوتا ہے۔ ایسی سوچ تحریر کو قدامت پسندی
قرار دے کر پیپر ویٹ کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے۔ معاشرہ اپنا عکس آئینہ جہاں
ملے پزیرائی دیتا ہے۔
اور جو آنکھ میں غرور اور سوچ میں تکبر کی نشاندہی کرتا ہے وہ ہرجائی
کہلاتا ہے۔ پھل پک جائیں تو اُتار کر بانٹے نہیں بیچے جاتے ہیں۔ روشنیاں
پانی میں اپنا عکس تو دیتی ہیں مگر پانی میں روشنی نہیں کرتیں۔ ریت پر پتھر
کی چٹانیں نہیں کھڑی کی جاتی بلکہ ریت کے ہی گھروندے بنائے جاتے ہیں۔ |