میرا جی اپنی ذات اور کائنات کے رمز عظمیٰ
کی تلاش میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس سلسلے میں اُن کا سفر مُدام سفر زندگی بھر
جاری رہا۔ ڈاکٹر وزیر آغا اُردو ادب میں سب سے بڑے میرا جی شناس اور میرا
جی ا ؔ فہم ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شہرۂ آفاق آرٹکل ــــ ’’میرا جی‘‘ ؔؔؔؔؔؔؔمیں
میرا جی کے مسلسل ذہنی سفر کی بابت انکشاف کیا ہے:
’’سفرانقطاع کی ایک صورت ہے۔ جب کوئی خُدا کا بندہ سفر اختیار کرتا ہے تو
عارضی طور پر سہی،اُس خول کو ضرور توڑتا ہے جس میں گھر،محلہ ،شہریا وطن کی
صورت میں اُسے اپنی مُٹھی میں لیا ہوتا ہے۔ ‘‘
’’میرا جی ؔنے محض جسمانی سطح پر سفر کرکے خود کو بار بار مختلف جگہوں ہی
سے مُنقطع نہ کیا بلکہ زمانے کی مروجہ رسوم،اخلاقی تقاضوں اور معیاروں کو
بھی توڑا۔‘‘
’’میرا اندازہ ہے کہ سماجی سطح پر میرا جی کی یہ بغاوت ایک سوچے سمجھے ہوئے
منصوبے کے مطابق تھی مگر اُس کے پیچھے جو جذبہ کار فرما تھا وہ میرا جی ؔکے
غیر شعوری مگر تیز رفتار میلانِ سفر ہی سے منسلک تھا۔‘‘
’’یہ تو ہوئی میرا جیؔ کے اُفقی سفر(horizontal travelling) کی رُوِداد !
اب اُس کے عمودی سفر(vertical travelling) کا حال سُنئے۔ میرا جی ؔنے اپنا
عمودی سفر اُس دیار میں کیا جسے انسان کے خواب ناک ماضی کا دیار کہنا
چاہئے۔ اس سفر کی ایک صورت تو یہ تھی کہ میرا جیؔ ایک جہاں گرد کی طرح
گیتوں کی تلاش میں روانہ ہوا اور اُس نے دیس دیس کی شاعری سے انمول موتی
اکٹھا کیے۔ بعد ازاں مولانا صلاح الدین مُدیر ’’ادبی دُنیا‘‘ لاہور نے میرا
جی ؔکے اس عمودی سفر کو ’’مشرق اور مغرب کے نغمے‘‘ میں محفوظ کر دیا۔
میراجی ؔکے ان مضامین کو پڑھیں تو اس بات کا کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی
نوع کے انسانوں سے کس قدر وابستہ تھا اور جہاں کہیں اُسے کوئی نازک دل،شعر
کی تال پر دھڑکتا ہوا ملتا تھا تووہ کس والہانہ پن سے آگے بڑھ کر اُس کا ہم
رقص بن جاتا تھا۔ دراصل مشرق اور مغرب کے نغمے بجائے خود ماضی کی لطیف اور
مترنّم آوازوں کا ایک جھُرمُٹ ہے۔ جس میں میرا جیؔ نے اپنی آواز شامل کرکے
اُسے مکمّل کر دیا ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میرا جیؔ نے اس کتاب میں
زیادہ تر اُنھیں شعرا کے نغمے سُنائے ہیں جن سے وہ خود جذباتی طور پر منسلک
تھا اور جو اُسی کی طرح جہاں گرد، حسّاس اورباغی تھے۔شارل بودلیئر،استفاں
مالارمے،پُشکن،والٹ وِہٹ مین،ڈی ایچ لارنس،چنڈی داس،ودیاپتی، تُکارام
،رویندر ناتھ ٹیگور اور بارہویں صدی کے لاطینی گیت گانے والے جہاں گرد اور
خانہ بدوش یوروپی طلبہ۔اِن سب کی آوارہ خرامی میں میرا جی کو خود اپنی
آوارہ خرامی کا عکس دکھائی دیا اور وہ اُن کی معیّت میں تا دیر سفر کرتا
چلا گیا۔‘‘
میرا جیؔ نہ صرف نئی نظم کے اولین اوریجنل شاعر، نئی عملی تنقید کے اولین
ناقد اور اولین نو گیت کار ہی نہیں بلکہ عالمی اور قومی نغماتی ادب کے سب
سے بڑے مُترجم اور مفسّر بھی تھے۔ اُن کی معرکہ آرأ عملی تنقید کی کتابــ ـ
ـ ’’اس نظم میں ‘‘تحلیلی اور تجزیاتی تنقید کی نئی سَمت نُماکتاب ہے۔ یہ
کتاب کلیم الدین احمد کی عملی تنقید سے پہلے ہی شائع ہوئی تھی اور صحیح
معنوں میں عملی تنقید کی بائبل ہے۔
میرا جی سے بڑا ذہنی جہاں گرد اور خانہ بدوش اُردو ادب میں کوئی دوسرا پیدا
ہی نہیں ہوا۔ وہ اپنی ذہنی جہانیانِ جہاں گشتی کے باعث ویدک تہذیب و کلچر
کی روح میں داخل ہو گئے۔ جو صحیح معنوں میں لفظ "اُردو ــــ'' ۱ کا بھی
اولین سر چشمۂ تخلیق ہے۔ یہ ویدک تہذیب و ثقافت کی روح جو غیر منقسم ہندو
پاک کی دس ہزار برس پر پھیلی ہوئی تہذیب و کلچر کی صحیح معنوں میں آئینہ
دار تھی۔ میرا جیؔ نے نہ صرف اپنی نئی نظم بلکہ نئے گیت کی تخلیق کے لیے
بھی ہندوستانی دیومالا اور ہندوستانی اساطیر سے بھرپور مدد لی ہے۔ جس کو وہ
اپنی زبردست تخلیقی قوت اور بے پناہ زرخیز ذہن کا زندہ اور دھڑکتا ہوا حصّہ
بنا چکے تھے۔ میرا جی ؔجب آریائی نسل کے خواب ناک ماضی سے آشنا ہوئے تو اُن
کی فنکارانہ اُنگلیوں کے جادوئی لمس نے ہر مُردہ شئے میں گویا جان سی ڈال
دی اور اُن کے رو برو سارے کا سارا آریائی ماضی اُن کے شاعرانہ وژن میں
زندہ ہو کر سامنے آ گیا۔ ویدک تہذیب و کلچر کے آئینہ خانہ میں یہ ازلی اور
ابدی صداقت بھرپور طور پر منکشف ہوئی ہے کہ جسم اور روح کے ہزاروں حجابوں
کے اند ـر "آتما " ہے۔ جس تک پہنچنا "پُرُش" کا اولین نصب العین ہے اور
جہاں پہنچ کر اُس کو "نورِ اکبر" نصیب ہوتا ہے۔ باقی ماندہ زندگی تو "آس"
کا دھوکا ہے۔ میرا جیؔ کے گیت بلا کی غنائیت اور موشیقیت سے لبریز ہیں:
جیون آس کا دھوکا گیانی
ہر شئے جگ میں آنی جانی امر آس کی اٹل کہانی کب سے کتھا یہ چھڑی ہوئی ہے اب
تک کِس نے ٹوکا گیانی جیون آس کا دھوکا
دھارا ساگر میں مل جائے سورج دھارا کوکلپائے
بادل بن کر پھر سے اُبھرے اُنچے پربت سے ٹکرائے
من کی آس بدلتی دھارا اُس کو کِس نے روکاگیانی جیون آس کا دھوکا
آنکھیں دیکھیں محل سُہانہ ہنسنا رونا کھونا پانا
اُس کے سامنے ایک فسانہ
لہر لہر کا بھید اچھوتا کبھی بھید ہے کبھی بہانہ
پل پل سیر نئی ہے اُس میں بیٹھو کھول جھروکاگیانی جیون آس کا دھوکا
(گیت ہی گیت )
اِس گیت میں ـ 'جھروکا' سے مُراد شاہدانہ شعور و آگہی کا روزنِ در ہے۔ جو
شاعر یا راوی کو سجھا رہا ہے کہ زندگی ایک مداری ہے۔اس ضمن میں گیت ملاحظہ
فرمائیں:
(۱)
جیون ایک مداری پیارے کھول رکھی ہے پٹاری
کبھی تو دکھ کا ناگ نکالے بِل میں اُسے چھِپائے
کبھی ہنسائے کبھی رُلائے بین بجا کر سب کو رجھائے
اُس کی ریت انوکھی نیاری جیون ایک مداری
(۲)
کبھی نراشا کبھی ہے آشا پل پل نیا تماشا
کبھی کہے ہر کام بنے گا جگ میں تیرا نام بنے گا
بنے دیالو ہتیاچاری، جیون ایک مداری
(۳)
جب چاہے دے جائے دھوکا اس کو کس نے روکا
تو بھی بیٹھ کے دیکھ تماشا کبھی نراشا کبھی ہے آشا
پت جھڑ میں بھی کھلی پھلواری ، جیون ایک مداری
(۴)
آئے ہنسی مٹ جائیں آنسو اس میں ایسا جادو
بندر ناچے،قلندر ناچے،سب کے من کامندرناچے
جھوم کے ناچے ہر سنساری، جیون ایک مداری
(میرا جی کے گیت)
’’میرا جی کے گیت‘‘ میرا جیؔ کی اولین غنائی کتاب ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں
ایک’’ پیش لفظ‘‘ اور’’ گیت کیسے بنتے ہیں ‘‘کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی
شامل ہے۔ جو میرا جیؔ کی غنائی شعریات (lyrical poetics) ہے۔ اس کتاب میں
شامل گیتوں میں فکری عناصر بھی کار فرما ہیں۔ اُن کے مختلف گیتوں میں
زندگی،کائنات، فطرت اور خُدا کے سازینہ(symphony) پر بھرپور روشنی مرکوز
ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک فکر انگیز گیت ملاحظہ فرمائیں:
اندھی دُنیا آدھی ، سادھو، اندھی دُنیا آدھی
سوچ سمجھ کر جان لے مورکھ !بیٹھ لگا کے سمادھی
ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھے کسی کا، چھایا گھور اندھیرا
گُپت بھون میں بیٹھے روئیں مل کر سب اپرادھی
پوری بات سنی نہ کسی نے،دل کی دل سے دپوری
گیان گیت کی تان منوہر ،کیا پوری کیا آدھی
دھرتی چاند ستاروں سمان،سبھی انجان پڑوسی
اپنے پرائے اور جگت کے ہم نے بھی چُپ سادھی
(میرا جی کے گیت)
میرا جیؔ نے بھی آخیر میں "چُپ کی بن باس" میں پناہ لی اور خاموشی کی زبان
(language of silence)کو اپنا لیا۔میرا جیؔ کے گیتوں کا ایک اہم موضوع جنس
بھی ہے۔ جو مسلسل ارتفاع پذیر ہوتی ہے۔جناب نظام صدیقی کے بصیرت افروز رائے
کے مطابق"وہ جنس سے ارفع شعور تک کے ترجمان ہیں۔ ‘‘ اس ضمن میں بھی میرا
جیؔ کی نغماتی شاعری کی معنویت اور قدر و قیمت معتبر اور مستند ہے۔
میرا جیؔ بُنیادی طور پر ایک گیت نگار ہیں۔ وہ گیتوں میں جنس سے رفیع ترین
شعور تک شعودی سفر کرتے ہوئے ایک خاکستری انسان(gray character) کی شکل میں
نُمایاں ہوئے ہیں۔ اُن کے گیتوں میں جنس کے پاتال کی ہیجانیت نہیں بلکہ
ارتفاع پذیر محبّت اور روحانیت کے سوز و ساز کی جنّتِ بازیافتہ بھی طلوع
ہوتی ہے جو نور آگیں ہے۔ میرا جیؔ کا یہ ارتفاع پذیر گیت ملاحظہ کیجئے :
بات نئی، بات نئی
اب تو ہے ہر بات نئی
رات گئی ،رات گئی
کالی کالی رات گئی
رات اب نئی آئے گی
چندرما ں کو لائے گی
ـ "نو ر کی ندّی ''بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی
(میرا جی کے گیت)
میرا جیؔ کے گیت جنس سے عرفان تک کے اسرار کُشا ہیں اور قاری یا سامع کو
نور کی ندّی میں روحانی غُسل کراکر نئی جمالیاتی مسرّت اور نئی انسانیاتی
بصیرت عطا کرتے ہیں۔ میرا جیؔ کا اولین مجموعہ ’’میرا جی کے گیت‘‘ ۱۹۴۳ء
میں اور چند ماہ کے بعد ہی اُن کے گیتوں کا دوسرا مجموعہ’’ گیت ہی گیت‘‘
۱۹۴۴ ء میں شائع ہو تا ہے۔ ۱۹۴۴ء میں ہی اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’میرا جی
کی نظمیں ‘‘شائع ہوئی۔میرا جی کی نظمیں بھی اُن کی گیتوں سے لگائی ہوئی نئی
قلمیں ہیں۔ اُن کی بُنت (texture) بھی بُنیادی دور پر غنائی ہے۔ اُن کی
حقیقی معنویت اور اہمیت کی مکمّل بصیرت کے لیے اُن کے گیتوں کی داخلی فضا
کو سامنے رکھنا لازمی ہے۔
اس ضمن میں میری کتاب ’ویدک ادب اور اردو‘کا مطالعہ کریں۔
ترانۂ امن
تخلیق کار : سوامی وِویکا نند
ترجمہ کار: ڈاکٹر اجے مالوی
دیکھو جو بلا آتی ہے
وہ شکتی، شکتی نہیں ہے
وہ روشنی، روشنی نہیں ہے
جو اندھیرے کے قلب میں ہے
اور نہ وہ سایہ، سایہ ہی ہے
جو خیرہ کرنے والی روشنی کے ساتھ ہے
وہ نشاط جو کبھی عیاں نہیں ہوتا
اور جو نا تجربہ شدہ گہرا کرب ہے
اگر وہ زندگی جو گزاری نہیں گئی
اور وہ موت جس پر کسی نے ماتم نہیں کیا
نہ الم ہے اور نہ انبساط
صداقت وہ ہے جو اـن کو ہم آہنگ کرتی ہے
نہ شب، نہ سحر
صداقت وہ ہے جو ان کو ہم کنار کرتی ہے
وہ موسیقی میں شیریں قیام
مقدس بحر میں وسطی سکتہ ہے
اظہار کے درمیان سکوت
ہوا و ہوس کے درمیان وہ قلب کا بے کراں سکون ہے
حقیقی حسن وہ ہے جو نا قابلِ تاب ہو
عشق وہ ہے جوتنِ تنہا ہو
نغمۂ سرمدی وہ ہے جو بغیر گائے بھی زندہ رہے
حقیقی علم و عرفان وہ ہے
جس کی کبھی قلّی طور پر معرفت حاصل نہ ہو
جو دو طوفانوں کے درمیان موت کا وقفہ ہے
وہ شونیہ (خلا) جہاں تخلیقِ کائنات ہوتی ہے
اور جہاں وہ لوٹ جاتی ہے
وہیں قطرۂ اشک کا خاتمۂ با لخیر ہوتا ہے
شاداں حسن کی پوری کھلاوٹ ہی زندگی کی عین معراج ہے
اور ابدی سکون ہی واحد پناہ گاہ ہے |