مسلم بلاک میں خلفشارکابنیادی سبب
ابھی چندہفتے قبل ہارٹ آف ایشیاکانفرنس میں دنیاکے اہم ممالک کے نمائندے
سرجوڑکربیٹھے کہ کس طرح اس خطے میں امن کوواپس لایا جائے اورافغانستان میں
جاری تین دہائیوں سے زائد آگ وخون کے طوفان کوسردکیاجائے۔اس کیلئے فوری طور
پر پاکستان سے باقاعدہ عملی طورپرکوششوں کے آغازکیلئے جنرل راحیل نے دورۂ
کابل میں افغان حکومت کے اکابرین سے ملاقات کرکے امن مذاکرات کی طرف پیش
قدمی کاآغازبھی کیا۔ابھی اس کے مثبت نتائج آنے کاانتظارتھاکہ اچانک ایران
اورسعودی عرب کے تنازعے نے امن عالم کے امن کوبری طرح جھنجھوڑکررکھ دیاہے
اور پاکستان ایک مرتبہ پھرآزمائش کے دہانے پرکھڑاہوگیاہے۔ داعش کے بڑھتے
ہوئے اثرورسوخ کوروکنے کیلئے شام اوریمن میں جاری کشمکش کوختم کرنے کیلئے
دونوں ممالک مذاکرات کیلئے راضی ہوگئے تھے لیکن اچانک سعودی عرب کی طرف سے
اپنے ۴۷شہریوں کودہشتگردی کے الزام میں سزائے موت پانے والوں میں ایک شیعہ
سعودی شیعہ شہری باقر نمرکے مسئلے پرایران نے شدیدردّعمل کامظاہرہ کیاجس کے
نتیجے میں مشتعل ایرانی مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ
کرکے اسے نذرِآتش کردیا جس کی بناء پر سعودی عرب اوردیگرکئی ممالک نے ایران
سے فوری طور اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں۔
شایداس کشیدگی کاسب سے بڑااورفوری نتیجہ یہ نکلے کہ شام اوریمن میں سفارت
کاری کے ذریعے کسی تصفیے کے امکانات معدوم ہوجائیں۔ خاص طور پربین الاقوامی
سطح پرجاری مذاکرات سے یہ امیدپیدا ہوگئی تھی کہ شام اوریمن میں مسلح
کارروائیاں ختم ہونے جا رہی ہیں اوروہاں امن کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں،
ایران اورسعودی عرب کی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ان امیدوں پر اوس پڑ گئی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ خطرناک کشیدگی کودیکھ کر۱۹۸۰ء کی دہائی
یادہوگئی ہے جس کے نتیجے میں ١٩٨٨ء اور پھر١٩٩١ء میں دونوں ممالک کے سفارتی
تعلقات معطل ہو گئے تھے۔ ایران اورعراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ میں خلیج
تعاون کونسل کے تمام ممالک عراق کے سابق صدر صدام حسین کی حمایت میں کھڑے
تھے اورایران بھی اِن ممالک کے بحری جہازوں کونشانہ بنارہاتھاجبکہ انہی
دنوں میں سعودی عرب نے بھی بقول اس کے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے
پرایک ایرانی جنگی جہازمارگرایاتھا۔ سعودی عرب اورخلیجی ریاستوں کی حکومتیں
مسلسل الزام لگارہی ہیں کہ ایران خطے میں شیعہ عسکریت پسندی کوہوادے رہاہے
اوراس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ١٩٨١ء میں بحرین میں حکومت کا تختہ الٹنے
کی ناکام کوشش اورچار سال بعد کویت کے امیر کے قتل کی سازش کے پیچھے ایران
کا ہی ہاتھ تھا۔
ایران کی پشت پناہی سے لبنان کی حزب اللہ کی طرزپرمئی۱۹۸۷ء میں ملاؤں کی
زیر قیادت دہشتگرد گروہ حزب اللہ الحجاز کی بنیاد رکھی گئی جس کامقصد سعودی
عرب کے اندردہشتگردی کی کارروائیاں کرناتھا۔حزب اللہ الحجاز نے آغاز سے ہی
کئی اشتعال انگیز بیانات میں نہ صرف سعودی شاہی خاندان کو دھمکیاں دیں گئیں
بلکہ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سعودی عرب میں کئی مہلک حملے کیے گئے جس کے بعد
ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگیا۔اگرچہ
فی الحال دونوں ملکوں میں براہ راست عسکری ٹکراؤنہیں ہواہے لیکن اس کشیدگی
کی وجہ سے براہِ راست پاکستان متاثرہو رہا ہے۔یمن کے مسئلے پرسعودی عرب
اوردیگرخلیجی ممالک مشترکہ عسکری کمان کے تحت ایران اوراس کے اتحادیوںکے
خلاف نبردآزماہیں جبکہ شام میں توعالمی طاقتیں بھی اپنے مخصوص ایجنڈے کے
تحت شریک ہیں۔
بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے جاری فرقہ وارانہ سیاست کے نتیجے میں مشرق
وسطیٰ شیعہ سنی خطوط پر تقسیم ہو چکا ہے اور ایران اور خلیج فارس کے دوسرے
کنارے پرواقع اس کے پڑوسیوں کے درمیان بد اعتمادی اپنے عروج پر پہنچ چکی
ہے۔اس فرقہ واریت سے بھرپورفضا میں دونوں انتہاؤں کے درمیان کھڑی ہوئی
اعتدال پسندی کی قوتیں بہت کمزورہوچکی ہیں اوراب خطے کے معاملات ان لوگوں
کے ہاتھوں میں آچکے ہیں جومخالف فریق کی ایک بھی سننے کوتیارنہیں ہیں۔
دوسری توجیح یہ ہے کہ ایران کے انقلاب کے بعدخلیجی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ
ایران علاقائی تنازعوں میں مسلسل اپنی ٹانگ اڑارہا ہے اوراب تومشرقِ وسطیٰ
کے معاملے میں مغربی استعماراوراوبامابھی افغانستان اورعراق میں ذلت
ورسوائی کے بعدفیصلہ کرچکے ہیں کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی
جنگ خاآغازکروایاجائے تاکہ یہ خودآپس میں لڑکرایک دوسرے کا صفایا کریں۔یہی
وجہ ہے کہ اب جس کی وجہ سے خلیجی ریاستیں مسلسل ایک ایسی خارجہ پالیسی پر
کاربند ہیں جس میں اب خاصی سختی بھی آ چکی ہے۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں اکثریت بنیادی طور پر تہران کے جوہری
پروگرام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتی بلکہ ان کے لیے بڑا خطرہ ایران کی
جانب سے حزب اللہ جیسے شدت پسند گروہوں کی حمایت ہے۔ حالیہ عرصے میں یمن
میں حوثی باغیوں کی ایرانی حمایت کو بھی یہ ریاستیں ایک خطرے سے تعبیر کرتی
ہیں۔گزشتہ ماہ یمن کے خلاف سعودی قیادت میں حملے کرنے والے اتحاد اور
دہشتگردی کے خلاف قائم ہونے والے کثیر الملکی اتحاد، دونوں نے جو اعلانات
کیے تھے ان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ خطے کی سلامتی کے معاملے میں
سعودی حکومت کسی قسم کی مفاہمت کو خاطر میں نہیں لانا چاہتا۔تیسری اورآخری
وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات منقطع ہو
نے سے واضح اشارہ یہی ملتا ہے کہ وہ علاقائی طاقتیں جوشام اوریمن میں جاری
جنگوں کوختم کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں،وہ اپنابوریابسترلپیٹ لیں۔
شیخ نمر المنر کی سزائے موت پر ہونے والے شور و غوغے میں جو بات دب کر رہ
گئی ہے وہ یہ اعلان ہے کہ ١٥دسمبر کو یمن میں جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا
تھا وہ عملی طور پر دم توڑ چکا ہے۔ابھی تک نہ تو اِس معاہدے کے کوئی اثرات
ظاہر ہوئے تھے اورنہ ہی اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہونے والے مذاکرات میں
کوئی پیش رفت ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے مذاکرات کا
اگلا دور۱۴جنوری کوہوناتھالیکن اگرایران اورسعودی عرب دونوں یمن میں اپنی
مداخلت میں اضافہ کردیتے ہیں توامکانات یہی ہیں کہ مذاکرات کایہ دورنہیں
ہوگا اورشاید یہی حال شام میں قیام امن کے لیے جاری مذاکرات کاہو جن کااگلا
دور جنوری کے آخری دنوں میں جنیوا میں متوقع ہے۔ لگتا ہے کہ کئی ہفتوں سے
پس پردہ جاری وہ کوششیں اب رائیگاں جائیں گی جن کا مقصد شام میں برسر پیکار
متحارب گروہوں اورشامی حکومت کوآہستہ آہستہ اس مقام تک لانا تھا جہاں یہ
ہتھیارپھینک دیتے اوربحالی امن کی بات کرتے۔
شنیدیہ ہے کہ باقرالنمرکی ہلاکت تومحض ایک بہانہ ہے دراصل حج کے موقع پرمنیٰ
میں ایک خوفناک حادثہ میں جس میں کئی مسلم ممالک کے۷۰۰سے زائد افراد ہلاک
اور۱۸۰۰سے زائدشدیدزخمی ہوگئے تھے۔ سعودی عرب حکومت کے انتظامی معاملات
پرہرطرف سے شدیدتحفظات کااظہارکیاگیا۔سعودی حکومت نے فوری طورپرایک اعلیٰ
تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی جس نے تحقیقات اورواضح ثبوت وشواہدکے بعداس حادثے
کی سازش میں ملوث۳۱/افراد کوگرفتارکرلیا۔ان افرادمیں سب سے اہم گرفتاری
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ڈائریکٹرانٹیلی جنس اینڈسرویلنس کے ایک اعلیٰ
افسر غضنفررکن آبادی کی ہے ۔اس کی گرفتاری پر ایران اعلانیہ شورمچانے کی
پوزیشن میں نہیں کیونکہ یہ ایک تیسرے ملک کے جعلی پاسپورٹ پرحج کیلئے سعودی
عرب پہنچاتھا۔ ایران سفارتی سطح پراپنے اس افسرکی واپسی کامطالبہ کرتارہا
لیکن سعودی عرب نے اس نام کے کسی بھی فردسے لاعلمی کااظہار کرتے ہوئے ایران
سے پہلے اس فردکی آمدکا ثبوت مہیا کرنے کامطالبہ کردیا۔اس صورتحال نے ایران
کوکڑی آزمائش میں مبتلا کردیاہے کیونکہ آئندہ کسی وقت بھی منیٰ میں ملوث
تمام ملزمان کاسعودی عرب کے قانون کے مطابق سرقلم کئے جانے کا خدشہ ہے
چنانچہ یہ باقرالنمرکی سزائے موت پر شورشرابہ دراصل پاسدارانِ انقلاب کے
ڈائریکٹرانٹیلی جنس کو سزائے موت سے بچانے کیلئے ہے۔
لیکن اس خطے میں بڑھتی ہوئی خوفناک کشمکش کے باوجودافغانستان کے موجودہ
دگرگوں حالات میں افغان طالبان کے سربراہ ملااخترمنصوراورروسی صدرپیوٹن کی
خفیہ ملاقات نے عالمی سطح پرہلچل مچادی ہے اورامریکی انٹیلی جنس ادارے اس
خبرکی صداقت کی کھوج لگانے میں دن رات مصروف ہیں ۔ میڈیامیں آنے والی اس
خبرکے مطابق ملااخترمنصورنے تاجکستان میں روسی صدرسے ملاقات کی ہے تاہم
طالبان اس خبرکومحض افواہ سے تعبیرکررہے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ طالبان
رہنماؤں کی روسی نمائندے ضمیرکابلوف سے ملاقات ضرورہوئی تھی جس میں داعش کے
خلاف روسی تعاون کی پیشکش مسترد کرکے امریکاکے خلاف مدددینے کی خواہش
کااظہارکیاگیاتھا۔ذرائع کاکہناہے کہ طالبان کے سربراہ اور روسی صدرکے
درمیان ملاقات تاجکستان میں نہیں بلکہ ایران میں ہوئی۔
روس نے عالمی میڈیاکوخودکوسپرپاورظاہرکرنے کیلئے اس ملاقات کوتاجکستان میں
ہونے کاتاثردیاحالانکہ طالبان کے سربراہ کیلئے تاجکستان کاسفرانتہائی مشکل
ہے۔تاجکستان جانے کیلئے ملامنصورکوافغانستان کے صوبہ قندوز، تخار اوربدخشاں
سے ہوتے ہوئے راغ کے علاقے سے جاناپڑتا،جہاں شمالی اتحاد اور امریکیوں کے
اڈے ہیں جبکہ تاجکستان میں داخل ہونے کیلئے انہیں پاسپورٹ کی بھی ضرورت
ہوتی۔ ملااخترمنصورکے پاس افغان پاسپورٹ نہیں اور بغیر پاسپورٹ کے وہ
سفرنہیں کرسکتے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ ملااخترمنصور بغیر پاسپورٹ کے
افغانستان کے صوبہ قندھارکے راستے ریگی سے ہوتے ہوئے گل چاہ کے راستے قلعہ
باچاخان سے ایران میں داخل ہو سکتے ہیں کہ ان علاقوں پر طالبان کاکنٹرول ہے۔
روسی صدرنے طالبان کے ساتھ صرف دو نکات پرگفتگوکی،اوّل یہ کہ طالبان
افغانستانمیں قیام امن کے معاہدے کے بعد چیچن، ازبک اورتاجک جنگجوؤں کوروس
میں داخل ہونے سے روکیں گے جبکہ انہیں افغانستان میں روس کے خلاف کاروائی
سے روکناہوگا،اس کے بدلے روس طالبان کوامریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف
لڑنے کیلئے مالی اورفوجی مدددے گا۔دوسرایہ کہ افغانستان میں طالبان کے
ممکنہ اقتدار میں آنے پرروس چین کے ساتھ مل کرافغانستان کی تعمیرنومیں
بھرپور حصہ لے گا۔ ملااخترمنصورکی روسی صدرسے ملاقات سے پہلے افغان طالبان
نے روسی نمائندوں کوصاف بتادیاتھاکہ افغانستان میں داعش کا وجودنہیں البتہ
جولوگ طالبان سے ناراض ہو گئے ہیں ،وہ خود کوداعش بتارہے ہیں، طالبان ان
کوکچلنے کی مکمل طاقت رکھتے ہیں لیکن ایسااس لئے نہیں کیاجا رہاکہ وہ طویل
عرصے تک امریکاسے لڑتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ روسی صدرکے دورۂ ایران کے دوران طالبان کے سربراہ اور پیوٹن کی
ایک سرحدی علاقے میں ملاقات کااہتمام کیا گیاجس میں ملااخترمنصورکے ساتھ
طالبان کے دیگراہم رہنماء بھی موجودتھے۔ اس ملاقات میں اسامہ بن لادن کے
بیٹے نے اہم کرداراداکیا۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں طالبان نے روسی نمائندے
ضمیر کابلوف کے بیان کے ردّعمل میں کہاتھاکہ وہ داعش کے خلاف کسی کی مددکے
حصول کے منتظر نہیں،تاہم امریکاکاقبضہ ختم کرانے کیلئے کئی ممالک کے ساتھ
رابطے میں ہیں ،جوان کا حق ہے۔ پشتوزبان میں جاری طالبان کے اس بیان میں یہ
بھی کہاگیا تھا کہ افغان عوام کے نمائندہ طالبان گزشتہ ۱۴ برس سے قابض
افواج کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں ،اس وقت ۲۴صوبوں میں۵۰فیصد سے
زائدعلاقے پران کا کنٹرول ہے۔
روس کی جانب سے اس ملاقات کی خبروں کومنظرعام پرلانے کامقصدیہ ہے کہ
اگرامریکاداعش کے نام پرروس کوڈراسکتاہے تووہ طالبان کی مددکرکے اپنابدلہ
لے سکتاہے۔ایک سابق جہادی رہنماء نے بتایاکہ روس کاافغانستان میں اپنا
کردار بڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے
چارممالک پراسٹیئرنگ کمیٹی بننے کے بعدایران یہ سوچتا ہے کہ افغانستان
کاپڑوسی ہونے کے باوجوداس کو کواعتمادمیں نہیں لیاجارہا۔یہی وجہ ہے کہ
ایران،روس کوساتھ ملاکر طالبان کے ساتھ روابط بڑھارہا ہے ۔قبل ازیں طالبان
کے قطرمیں دفتر کے سابق صدرطیب آغانے۱۱رکنی وفدکے ساتھ ایران کا دورۂ
کیاتھا۔دوسری جانب روسی صدراورافغان طالبان سربراہ کے درمیان ملاقات کی
خبروں نے افغان حکومت کوپریشان کردیاہے۔ اگراس ملاقات کی ویڈیو
اورتصاویرمنظرعام پرآجاتی ہیں تویہ امریکی سی آئی اے کیلئے اس صدی کاسب سے
بڑادھچکہ ہوگاکیونکہ وہ پیوٹن اورملااخترمنصور کے درمیان ملاقات کاتعین
کرنے میں ناکام رہے۔ |