مو ضو عات بہت ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے
اور ایک مدت سے لکھا جارہا ہے میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ مجھ ناچیز
کو تو چھوڑئیے بہت بڑے بڑے’’ دانشوروں‘‘نے ایک ایک موضوع پر ناجانے کتنے
قلم گھسا دیئے لیکن ارباب اختیار کے کان پر جوں تک نہ رینگی اگر کبھی کسی
معاملے پر ارباب اختیار کے کان کھڑے بھی ہوئے تو اس کا سدباب ہر گز نہ کیا
گیا بلکہ طریقہ واردات بدل دیا گیا‘کسی اور کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں
جاسکتا میں مگر اپنی حد تک میں یہ بتاتا چلوں کہ میں لکھتا رہوں گا ان
مظالم کے خلاف جسے ہم ایک مدت سے جھیل رہے ہیں میں آشنا ہوں میرا قلم اس
اندھیر نگری کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکتا میرے قلم کی جنبش کا مقصد ارباب
اختیار کو محض یہ پیغام دینا ہے کہ کسی بھی صورت میں یہ مظالم ہمارے لئے
قابل قبول نہیں ہو سکتے ‘معاملہ بنیادی سہولیات کی محرومی کا ہو یا جاگیر
دار کے مظالم کا ہر بار حکومت بے بس نظر آئی ‘کبھی کبھار شہباز شریف نوٹس
تو لے لیتے ہیں لیکن نتائج سامنے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ میٹرو
بس کوہی سامنے رکھ لیجئے بادشاہ صاحب کے شہر میں میڑو بس بنی تو کتنے ہی
اخبار نویسوں نے اسکے خلاف آواز بلند کی اور میاں صاحب کو یہ بتانے کی کوشش
کی کہ خالی پیٹ کیساتھ میڑو کا سفر کسی صورت کارآمد نہیں ہوسکتا ‘تعلیم کے
بغیر میڑو کا فائدہ نہیں ‘پاکستان ایک غریب ملک ہے قرضے لے کر میڑو چلانے
کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن میاں برادران ہیں کہ ٹس سے مس نہ ہوئیے اور
لاہور کے بعد راولپنڈی میں بھی میڑو بس چلا ڈالی ‘وطن عزیز کے حکمرانوں کی
دور اندیشی کا اندازہ لگانے کیلئے ایک میڑو بس کا منصوبہ ہی کافی ہے جس ملک
کے عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو ‘ہسپتالوں میں ایک بیڈٖ پر تین تین
مریض ہوں ‘بچوں کو کیکر کی چھا ؤں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی پڑے
‘انصاف کا نظام اس قدر سست ہو کہ عام آدمی عدالتوں کے بجائے پنجائیت کا رخ
کرے اس ملک میں میڑو پر اربو ں روپے لگا دے جائیں تو عوام پر اس سے بڑا ظلم
اور کیا ہو سکتا ہے چلیں چھوڑئیے میڑو والا معاملہ پرانا ہے آپ وزیراعظم
صاحب کا نیا کارنامہ دیکھیں ‘جس کے تحت انہوں نے ڈاکوؤں اور لوٹیروں کو ایک
پرسنٹ کی وصولی کے بعد کلین چٹ دیدی اب اگر کوئی دن میں لاکھ روپے کی ڈکیتی
کر تا ہے تو ایک ہزار روپیہ قومی خزانے میں جمع کراکے باقی رقم کو پاک صاف
کر سکتا ہے ‘خدا کرے کہ میرا ندازہ غلط ہو لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ
ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے بھی نواز شریف کو اتنا ہی نقصان ہو گا جتنا کہ 90کی
دہائی میں فارن کرنسی اکاؤنٹ سیز کرنے سے ہوا تھاکیونکہ اس وقت قوم کو لوٹا
گیا تھا اور اب اس سکیم کے تحت لٹیروں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے ہمارے
حکمرانوں کی منافقت کی انتہاء دیکھیں یہ الیکشن سے قبل بارہا ں یہ دعوے
کرتے آئے کہ ہمارے پاس ایک بہترین ٹیم ہے جو نہ صرف ملکی مسائل سے اچھی طرح
واقف ہے بلکہ ان کی حل کا منصوبہ بھی رکھتی ہے لیکن کچھ روز قبل میں نے
نواز شریف کو یہ کہتے سنا کہ ڈھائی سال گزر نے کے بعد ہم معاشی معاملات کو
سمجھ پائے ہیں اور اب مسائل حل کیلئے صرف ڈھائی سال بچے ہیں ‘میں ایک عرصے
سے نواز شریف اور اسحاق ڈار کیطرف سے انٹرنیشنل کمپنیوں کو پاکستان میں
کاروبار کر نے کی دعوت دیتے سن رہا ہوں لیکن ان کے اپنے کاروبار باہر ہیں
کسی نے دبئی میں فلیٹ خرید رکھیں ہیں اور کسی نے سعودی عرب میں کارخانے لگا
رکھے ہیں کچھ دیر کیلئے بڑے چوروں کو بھول جائیں اورسند حکومت کی طرف آئیں
تو یو لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے ‘غیر ذمہ
داری ‘ہٹ دھرمی‘کام چوری ‘منافقت اور بے حسی کی اس سے بڑی مثال اور کیا
ہوگی کہ مٹھی میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں ‘علاج میسر نہیں ‘منی پاکستان اور
ہمارا معاشی حب اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور گٹر اُبل رہے ہیں لیکن سندھ
حکومت نئی سندھ اسمبلی کی تیاری میں مشغول ہے ‘بے شرمی کی حد تو یہ ہے کہ
بھوکی عوام کے نمائندے بڑے فخر سے یہ فرما رہے ہیں کہ اسمبلی میں بیوٹی
پارلر بھی ہوگاور سیلون بھی کیا ایسے حکمران دور حاضر کے فرعون نہیں ــ․․․؟شاہد
یہ لوگ اس فرمان کو بھول گئے جس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا’’کفر کا
نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا‘‘ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے
امیدیں رکھنے والوں کیلئے دور حاضر بہترین وقت ہے کہ وہ اپنے اپنے ’’لیڈروں‘‘
کی ترجیحات کا بغور جائزہ لے سکتے ہیں ایک عام عقل و فہم رکھنے والے انسان
کو بھی اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی جاہئے کہ ان کا مقصد
محض اپنے پیٹ بھرنا ہے نا معلوم یہ پیٹ کب بھریں گے! دس دس گاڑیوں کے
پروٹوکول کیساتھ سفر کرنے والے یہ لوگ اکثر عوامی تقریبات دعوی کرتے رہتے
ہیں کہ پاکستان بدل رہا ہے‘لوڈشیڈنگ کم ہوری ہے اور ملک اب امن کا گہوراہ
بن چکا ایسی صورت میں ان سے صرف ایک سوال کیا جانا چاہئے کہ اگر ملک امن کا
گہوارا بن چکا تو تمہیں پروٹوکول کی کیا ضرورت اگر پاکستان کی معیشت بہتر
ہورہی ہے تو تم لوگ اپنا سرمایہ پاکستان کیوں نہیں لارہے تمہارا کاروبار
پاکستان کیوں منتقل نہیں ہورہاان کے اس منافقانہ رویے کہ پر کہنے کیلئے
میرے پاس صرف یہی الفاظ ہیں شرم کرو‘حیا کرو ‘ڈوب مرو‘ یہ وہی الفاظ ہیں جو
خواجہ صاحب نے تحریک انصاف والوں کی منافقت پر کہے تھے بس تھوڑی سی ترمیم
کر دی گئی ہے ‘باقی رہا پاکستان میں بہتری کا سوال تو حقیقی معنوں میں وطن
عزیز اس دن بہتری کی طرف گامزن ہوگا جس دن آصف زردای‘نواز شریف‘شہباز شریف
اور اسحاق ڈار سمیت تمام سیاستدانوں کا سوئس بینک میں بڑا پیسہ پاکستان
واپس آئیگا ‘جس دن ان کے کاروبار پاکستان منتقل ہونا شروع ہونگے اور جب ان
کے پوتے اور نواسے پاکستان کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرینگے اور جب ان تمام
لوگوں کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ |