متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے ملک میں نئے
صوبوں کے قیام کی تحریک کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہو گیا ہے اور اس جماعت کے
اراکین قومی اسمبلی نے اس معاملے کو قومی اسمبلی میں اٹھا کر بحث کا آغاز
کر دیا ہے ۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ نے ماضی میں بھی متعدد بار اس مسئلے
کو اٹھایا ہے لیکن ایم کیو ایم کی اب تک کی روایات کے مطابق وہ اس معاملے
کو اٹھاتی ضرور شد ومد کے ساتھ ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے
مطالبے کی شدت کم ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ اپنے اس
مطالبے کو بالکل فراموش کر کے دیگر سیاسی مسائل میں الجھ جاتی ہے۔ زیادہ تر
مبصرین کی رائے ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے
یہ رویہ ان کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے۔ ان مبصرین کی رائے میں جب ایم کیو
ایم سندھ کی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے اور اپنے دوسرے مطالبات منوانا
اس کے ہدف ہوتا ہے تو نئے صوبوں کے قیام خاص طور سے سندھ میں الگ صوبے
کامطالبہ سامنے لایا جاتا ہے اور جب ایم کیو ایم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے
تو اس مطالبے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ سندھ میں نئے صوبے کا قیام ایم
کیو ایم کے ووٹرز کا بھی دیرینہ مطالبہ بلکہ شاید ضرورت ہے لہذا متحدہ اکثر
اوقات اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لئے بھی اس معاملے کو بار بار اٹھاتی ہے۔
اس بار 2015 کے حالیہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ایم کیو ایم کی طرف سے اعلان
کیا گیا تھا کہ انتخابات کے بعد نئے صوبوں کے قیام کی تحریک چلائی جائے گی
لہذا اب جب کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ملک بھی میں میئرز اور ڈپٹی میئرز
کا انتخاب ہو رہا ہے تو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے فلور پر ملک میں
20نئے صوبے بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ایم کیو
ایم اپنے اس مطالبے میں کب تک اور کس حد تک شدت رکھے گی؟ یہاں یہ بات بھی
اہم ہے کہ ایم کیوایم کی مخالف جماعتیں اس لئے بھی ایم کیو ایم کے اس
مطالبے کی مخالفت کرتی نظر آ رہی ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ متحدہ ملک میں
بیس صوبے بنانے سے زیادہ سندھ کے شہری علاقوں پر مبنی ایک صوبہ بنانے میں
زیادہ دلچسپی رکھتی ہے لہذا بہت سی سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ فوری
طور پر مسترد کردیا گیا ہے۔ وہ جماعتیں جو پنجاب میں نئے صوبے بنانا چاہتی
ہیں لیکن سندھ اور کے پی میں نئے صوبے بنانے کے حق میں نہیں وہ ایم کیو ایم
کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔یہ جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور
تحریک انصاف شامل ہیں ، ایم کیو ایم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی
ہو گئی ہیں۔خیر یہ تو ہمارے ملک کی سیاسی روایات ہیں۔ یہ ہی نہیں ہر معاملے
میں یہ جماعتیں ملکی مفاد سے زیادہ اپنے ذاتی یا پارٹی کے مفاد کے حوالے ہی
سے سوچتی ہیں اور ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کئے
جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں شاید کوئی بھی ایسی جماعت نہیں کہ جو فیصلے کرتے
وقت ملک اور عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھے۔ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے
ایم کیو ایم کا فیصلہ کچھ اتنا غلط اور غیر آئینی و قانونی بھی نظر نہیں
آتا۔ اس وقت ملک کی تمام اہم سیاسی شخصیات ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے
حوالے مثبت رائے رکھتی ہیں لیکن ان سیاسی شخصیات کی یہ رائے صرف نجی گفتگو
اور محفلوں کی حد تک محدود ہے۔ تمام اہم سیاسی شخضیات اس بات پر متفق ہیں
کہ ملک میں نئے صوبوں کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن عملاً وہ اس
مطالبے کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی
ملک میں نئے صوبے بنائے جانے کی مخالف ہے ۔ اگر ہم اپنے پڑوسی ملک انڈیا کی
مثال لیں تو قیام پاکستان کے وقت بھارت میں 550سے زیادہ
’’ پرنسلی اسٹیٹ‘‘ (Princely States) تھیں لیکن 1956 کے بعد تما م ’’پرنسلی
اسٹیٹ‘‘ کو 14ریاستوں (صوبوں) اور 6یونین ٹیریٹریز (Union Territories) یا
یونین اسٹیٹس (Union States) میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ
ریاستوں (صوبوں) کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا رہا ۔ آج بھارت میں
ریاستوں(صوبوں )کی کل تعداد 29 ہے جبکہ اسٹیٹس یونین ((States Union کی
تعداد 7ہے۔ اس سے صاف ظاہر کے کہ بھارت کی حکومت نے آبادی کے تقاضوں اور
وقت کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں ریاستوں (صوبوں ) کی تعداد میں
اضافہ کیا۔ اسی طرح اگر اپنے پڑوسی ملک ایران کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت
وہاں صوبوں کی تعداد 31 ہے۔ اگر افغانستان کی بات کی جائے تو افغانستان میں
اس وقت صوبوں کی تعداد 34 ہے۔ اسی طرح چین بھی ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے جہاں
صوبوں کی تعداد 23 ہے (واضح رہے کو چین کے 23صوبوں میں تائیوان بھی شامل ہے
کیونکہ چین تائیوان کو اپنا ایک صوبہ قرار دیتا ہے)۔ اس کے علاوہ چین
میں4میونسپلٹیز( 4 Municipalities) ، 5آٹو نو مس ریجنز Autonomous Regions)
5 )جبکہ 4 انتظامی یونٹس (4 Administritive Units)بھی موجود ہیں۔اگر ہم
بنگلہ دیش کی بات کریں تووہاں انتظامی طور8 (8 Divisions) موجود ہیں۔
اس تقابلی جائزہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان جس کی آبادی 20کروڑ سے
زائد ہے لیکن یہاں تقسیم ہند کے وقت پانچ صوبے تھے اور اب یہ تعداد 4 ہے
جبکہ گلگت بلتستان کو بھی ایک صوبہ قرار دیا گیا ہے تاہم اسے ابھی ایک مکمل
صوبے کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ فاٹا اور شمالی اور جنوبی وزیرستان بھی
پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔پنجاب میں دو نئے صوبے بنانے کے حوالے سے قراداد
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دور حکومت میں منظور کی تھی لیکن اس پر موجودہ دور
حکومت میں کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ فاٹا کو ایک صوبہ بنانے، کے
پی میں ایک اور صوبہ بنانے اور بلوچستان میں کئی نئے صوبے بنانے کی بات
ہورہی ہے لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ جبکہ
سندھ دھرتی میں نئے صوبے بنانے کی بات کرنے والے کو سندھ اور دھرتی ماں کا
غدار قرار دینے کی روش جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ جبری طور پر کوئی بھی کام
کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ
جبری طور پر کسی کام کو روکنے سے بھی نا قابل تلافی قسم کے حالات پیدا
ہوجاتے ہیں۔ سندھ سمیت پورے پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام وقت کی اہم ترین
ضرورت ہے تاکہ ملک میں آبادی اور وسائل کی تقسیم کا عمل منصفانہ بنیادوں پر
شروع ہو سکے جس سے وفاق اور بھی زیادہ مضبوط ہو گا۔ لیکن پاکستان میں
سیاستدان خاض طور پر حکمراں جماعتیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ جبری طور پر نئے
صوبوں کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔ گویا جبری طور پر ایک
ضروری امر کو روکا جا رہا ہے۔ایسی صورت میں مستقبل میں اچھے نتائج کی امید
نہیں رکھی جا سکتی۔ |