بلدیاتی نظام کی بحال

ملک کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے منتخب بلدیاتی نمائندوں جن میں چیرٔ مین، وائس چیرٔمین ، کونسلرز اور وارڈ ممبر شامل تھے نے حلف اٹھا لیا۔ جمہوریت کی تکمیل کے اس عمل کے بعد ملک میں چھ سال بعد بلدیاتی نظام کی بحالی ممکن ہوسکی ۔ بلدیاتی نظام کی ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ،سیاست دان جب تک برسر اقتدار نہیں ہوتے ان کے سینے میں عوام کی فلاح و بہبود کا درد اور زبان پر عوام کی بھلائی کا کلمہ ہوتا ہے، ساتھ ہی بلدیاتی نظام کی خوبیاں گنواتے نہیں تھکتے۔ بلدیاتی نظام دراصل سیاست دانوں کی تربیت ، سیاست کے داؤپیچ سیکھنے کی نرسری ہوتے ہیں۔ وہ اسی نظام سے پروان چڑھ کر صوبائی ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن بنتے ہیں۔ لیکن یہی سیاست دان جب پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (نون) کی شکل میں برسر اقتدار آجاتے ہیں تو انہیں بلدیاتی نظام یاد ہی نہیں آتا، اس کی افادیت دور دور نظر نہیں آتی۔ بلدیاتی نظام کا اختتام پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ہوا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر نظام دوبارہ فعال ہوجاتا ، انتخابات کرادیئے جاتے لیکن زرداری صاحب نے ایوان صدر میں بیٹھ کر اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر لگادیں کہ وہ قسمت سے کرسی ٔ صدارت پر براجمان ہوگئے ہیں ، انہیں کسی نہ کسی طرح پانچ سال پورے کرنا ہیں۔ اس مقصد کے لیے مفاہمت اور این آر او جیسے اقدامات بھی انہوں نے کیے، انہوں نے اپنا وقت پورا کیا اور عزت کے ساتھ ان کی رخصتی عمل میں آئی۔ مخالف قوتوں نے لاکھ زور لگایا ، بلدیاتی نظام کی جانب ان کی توجہ مبزول کرائی لیکن ان پر تو صرف صرف ایک ہی جنون تھا کہ میرا صدارت کا ٹینیور پورا ہوجائے۔ اس وقت حزب اختلاف کا میدان میاں صاحبان کے پاس تھا۔ بظاہر الفاظ اور جملے تو ضرور استعمال کیے گئے لیکن کہا گیا کہ میاں صاحب نے فرینڈلی اپوزیشن کی اور بیگ ڈور چینل کے ذریعہ یہ طے تھا کہ زرداری صاحب کو ان کا پانچ سال کا ٹینیور مکمل کرنے دینا ہے۔ اس دوران ہلکی پھلکی مخالفت جاری رکھنی ہے۔ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں بلدیاتی انتخابات کو پسِ پشت ڈالے رکھا، مختلف قسم کے حیلے بہانے کیے جاتے رہے تاکہ وقت کو گزارا جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔

آصف علی زرداری صاحب کے بعد پیپلز پارٹی کا جو حشر نشر2013ء کے انتخابات میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے سوایا ہوگیا اور سندھ میں وفاق کی علامت یہ جماعت شہروں سے مکمل طور پر ہاتھ دھو بیٹھی۔ وجوہات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میاں صاحب نے اقتدار سنبھالا ، بے شمار مسائل اور مشکلات تھیں۔ ان کی پرائیٹی کی فہرست میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں تھے۔ دوسری جانب مخالف سیاسی جماعتوں نے ملک میں بلدیاتی نظام کی بحالی پر دباؤ بڑھایا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بلدیاتی نظام کی بحالی کا فیصلہ نہ صرف سنایا بلکہ حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ بلدیاتی نظام بحال کرے ، انتخابات کرائے تاکہ عام لوگوں کے وہ مسائل ایوانوں کے منتخب نمائندے حل نہیں کر پاتے بلدیاتی نظام کے ذریعہ حل ہوں۔ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو بھی مختلف ھیلے بھانوں سے ٹالا گیا، کبھی کوئی کبھی بھانا سامنے لاتے رہے لیکن عدلیہ نے حکومت وقت کو بھاگنے کا موقع ہی نہ دیا ۔ سندھ کی حکومت بار بار وقت مانگتی رہی آخر کار مجبور ہوکر انتخابات کی جانب آنا ہی پڑا۔ مجبوراً دلِ خستہ ہوکر انتخابات کرانا پڑے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ اس حوالے سے سبقت لے جاچکا تھا ۔ وہاں بلدیاتی انتخابات ہوچکے تھے اور تحریک انصاف کا پلڑا وہاں بھاری تھا۔ نون لیگ کو یہی ڈر و خوف کھائے جارہا تھا کہ کہیں خیبر پختوں خوا ہ کی طرح پنجاب میں بھی نون لیگ کا صفایا نہ ہوجائے۔ ایک پریشر خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی نظام کی بحالی بھی تھا جب ایک صوبے میں بلدیاتی نظام بحال ہوسکتا ہے تو دیگر صوبوں میں کیوں نہیں؟ صوبہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ پر امن اور بغیر کسی بہت بڑی پریشانی کے انتخابات کا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ پنجاب میں نون لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ۔ سندھ میں شہروں میں متحدہ کا پلڑا بھاری رہا جب کے اندرون سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی لیکن اندرون سندھ بھی پی پی کے اپنے لوگوں نے مشکلات پیدا کیں ان میں سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقارمرزا نے ضلع بدین میں پی پی کو ٹف ٹائم دیا۔ لیکن اندرون سندھ پی پی کو برتری حاصل رہی کراچی، حیدر آباد، میر پور میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بازی لے گئی۔انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی نظام کی بحالی سے پہلے ہی بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کا شوشا شروع ہوگیا اور اس حوالے سے احتجاج بھی شروع کردیا گیا جو کہ قبل از وقت تھا۔ جب تک نمائندے حلف نہ اٹھا لیں ، میئر، ڈپٹی میئر ، چیرٔ مین،وائس چیئر مین، کونسلر، حلف نہ اٹھالیں ، اپنے اپنے دفاتر قائم نہ کر لیں، ان کے ایوان باقاعدہ تشکیل پالیں پھر اختیارات کا معاملہ سامنے آنا چاہیے تھا ۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں تھی لیکن ایسا ہوا ، نتیجہ جو ہونا تھا وہ ہوا۔ بلدیاتی نظام میں نون لیگ، پی پی بھی شامل ہے ان جماعتوں کے نمائندے بھی بلدیاتی اداروں کے سربراہ ہوں گے، ان کے بھی کونسلرز کو اپنے اپنے علاقوں میں کام کرنا ہے۔ اختیارات بحال ہوں گے تو اس سے تمام ہی جماعتوں کو فائدہ پہنچے گا۔

صوبہ پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی نمائندوں نے الحمد اﷲ حلف اٹھا لیا۔ چند دنوں میں میئر، ڈپٹی میئر بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ بلدیاتی نظام کی بحال کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ موجودہ حکومت نے یہ کام خوشی کے ساتھ، بلدیاتی نظام کی اہمت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یا یہ سوچ کر نہیں کیا کہ بلدیاتی نظام سے عام لوگوں کے مسائل خاص طور پر نکاسی آب، پانی، سڑکوں کی دیکھ بھال جیسے مسائل بہتر طور پر بلدیاتی نمائندے حل کر تے ہیں۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں میاں صاحب کی حکومت کو بلدیاتی نظام 6سال قبل اپنی مدت پوری کر کے ختم ہوچکا تھا بحال کرنے کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔

اب جب کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے حلف اٹھا لیا ہے، یوسیز کی باضابطہ تشکیل عمل میں آچکی ہے اور اس کے نمائندے اپنی اپنی یوسیز میں پہنچ چکے ہیں، یوسیز کے منتخب چیرٔ مین اور وائس چیرٔ مینوں نے اپنے اپنے دفاتر سنبھال لیے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو اپنا اپنا کام شروع کردینا چاہیے۔ صوبہ پنجاب میں نون لیگ اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بلدیاتی نمائندوں کو وہ تمام اختیارات دینے میں یقینا پس و پیش نہیں کریں گے اس لیے کہ بغیر اختیارات کے یہ نظام بے معنی ہو کر رہ جائے گا، غیر فعال نظام ملک اور عوام پر بوجھ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس نظام کو کامیاب اسی وقت بنا یاجاسکتا ہے جب منتخب نمائندوں کو کام کرنے کا اختیار ہو، انہیں فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر بلدیات سندھ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ بھر پور تعاون جاری رکھیں گے۔ تمام منتخب نمائندے عوامی مینڈیٹ سے آئے ہیں ، منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کے پابند ہیں اور وہ انہیں دیئے جائیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کے ایم سی یا ڈی ایم سیز میں فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائے گی ، ان کا کہنا تھا کہ اس سال ترقیاتی کاموں کے لیے ڈھائی ارب روپے کا خصوصی پیکچ دیا ہے‘۔وزیر بلدیات کا بیان حوصلہ افزا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پی پی بھی عوامی منتخب نمائندوں کو اہمیت دیتی ہے۔ البتہ پی پی کے سیکریٹری اطلاعات کا یہ فرمانا کہ ’اگر ہم نے مناسب سمجھا تو بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دے دیں گے‘ مناسب نہیں ۔ یہاں کسی انفرادی شخص یا جماعت کے مناسب سمجھنے یا نہ سمجھنے کا سوال نہیں بلدیاتی نظام جمہوریت کا یک اہم ستون ہے، اس کے ذریعہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں، عوام کے روز مرہ کے مسائل کا حل بلدیاتی نظام میں ہی ہے۔ مرکزی اورصوبائی حکومتوں کو باہمی مشورے سے ملک میں بلدیاتی نظام کی کامیابی کے لیے دل بڑا کرنا چاہیے، بلدیاتی نمائندے عوام کے منتخب کردہ ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہی ہے۔ اس سطح پر جماعت اور سیاست سے بالا تر ہوکر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ چند شہروں کے علاوہ شہروں میں صفائی ستھرائی، سڑکوں کی خستہ حالی ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ، ٹریفک جام ہوجانے کے معاملات اس قدر گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ، یہ کام بلدیاتی نمائندوں کے کر نے کے ہیں یہ انہیں ہی کرنے چاہیں۔ سندھ حکومت بھی اپنا دل بڑا کرے، اختیارات دے دینے سے سندھ حکومت کی نیک نامی ہی ہوگی، گلی محلوں میں بلدیاتی نظام کامیاب ہوگا تو عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومتوں پر ان کا اعتماد بڑے گا۔ شہروں کی ناگفتہ بہ حالت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو وہ تما م اختیارات دوبارہ لوٹادیے جائیں جو انہیں پہلے حاصل تھے۔ عوام کی فلاح و بہبود اسی مُضمِر ہے۔ (شائع شدہ روزنامہ ’جناح‘ 18جنوری2016)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437709 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More