عرب اور عجم کے درمیان کشیدگی
(mohsin shaikh, hyderabad)
|
حالیہ دنوں میں عرب اور عجم کے
درمیان جو کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے
کیونکہ ماضی میں بھی سعودی ایران میں کشیدگی کے کئی دور چلے ہیں۔ جس کے بعد
دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی چلتے رہے۔ مگر اب عرب اور عجم کے
درمیان جو کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اتنی کشیدگی گزشتہ تیس برسوں میں
بھی دیکھنے میں نہیں آئي۔ اس کشیدگی کا آغاز سعودی مذہبی رہنما شیخ
نمرالنصر کی سزائے موت سے بہت تیزی سے شروع ہوا۔ شیخ نمر النصر کی پھانسی
کے فورا بعد تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کیا گیا۔ جواب میں ریاض
سے ایرانی سفارتکاروں کو بے دخلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تہران میں
سعودی سفارتخانے کا نذر آتش کیے جانے کا واقع قابل مذمت ہے۔ اس خطے میں
سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ کی دوڑ میں ریاض اور تہران کے درمیان کشیدگی کے
اثرات خلیج کے پرسکون پانیوں سے کہیں دور تک پھیل سکتا ہے۔مسلم دینا پہلے
ہی خانہ جنگی کا شکار ہوچکی ہیں۔ اور اب عرب و عجم کی کشیدگی سے شاہد ہی
کوئی ایسا ملک ہوں جو متاثر ہوئے بغیر نہ رہے سکے۔ عرب و عجم کی بڑھتی ہوئی
کشیدگی کا سب سے بڑا فائدہ بیرونی طاقتوں کو ہوگا۔ کیونکہ ان بیرونی طاقتوں
کی تمام تر سازشیں شام یمن سمیت مشرق وسطی میں کامیاب ہورہی ہیں۔ شیعہ اور
سنی کے تفرقے کے باعث مسلم دینا کو آپس میں لڑوا کر خانہ جنگی کروائی جارہی
ہیں۔
سعودی اور ایران کی کشیدگی شیعہ سنی نہیں بلکہ یہ عرب و عجم کی کشیدگی ہیں۔
عرب و عجم کی کشیدگی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ شام اور یمن میں
سفارتکاری کے ذریعے کسی تصفیے کے امکانات معدوم ہوجائے۔ بین الاقوامی سطح
پر مذاکرات سے یہ امید ہوئی تھی کہ شام اور یمن کے درمیان جاری جنگ ختم
ہوجائے گی۔ مگر اب عرب اور عجم کی بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ان امیدوں پر اوس
ڈال دی ہیں۔ ان دنوں ملکوں کے اضطراب کے طویل دور چلتے آرہے ہیں۔ اب دونوں
ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اتنی ہی خطرناک ہیں۔ جتنی سنہ 1980ء کی دہائی
میں ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں 1988 اور پھر سنہ 1991ء میں دونوں ممالک کے
درمیان سفارتی تعلقات معطل ہوگئے تھے۔ پھر بعد از بحال ہوگئے۔ تھے۔ اور اسی
دوران عراق اور ایران کے مابین آٹھ سالہ جنگ کا دور چلا تھا۔ اس جنگ میں
بھی سعودی عرب اور خلیج کے تعاون سے دیگر رکن ممالک عراق کے سابق صدر صدام
حسین کی حمایت میں کھڑے تھے۔ اور ایران بھی تاک تاک کر ان ممالک کے بحری
جہازوں کو نشانہ بنارہا تھا۔ اسی دوران سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود کی
خلاف ورزی کرنے پر ایرانی جنگی جہاز مار گرایا تھا۔
عرب اور ایران کی کشیدگی پر پاکستان نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور ان
دونوں ممالک کے درمیان پاکستان سخت تذبذب کا شکار ہیں۔ کیونکہ سعودی عرب
پاکستان کا جگری دوست اتحادی اور ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ
ہوتا ہے۔ تو دوسری طرف ایران بھی پاکستان کا پڑوسی اور اتحادی ہے۔ اور
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک بھی ایران ہے۔
اگر پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دیتا ہے۔ تو مسلم دینا میں مزید انتشار پیدا
ہوجائے گا۔ اور اگر پاکستان ایران کا ساتھ دیتا ہے۔ تو مستقبل میں پاکستان
مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عرب سلفی مکتبہ فکر کی اکثریت کا حامل ملک
ہے۔ اور ایران شیعہ اکثریت کا حامل ملک ہے۔ اور سعودی عرب کو واضح برتری
بھی حاصل ہے۔ اور پاکستان سنی اکثریت کا حامل ملک ہے۔ اب ان دونوں ملکوں کے
درمیان پاکستان کو خاص طور پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ
پاکستان مسلم دینا میں اسلامی قلعہ کی حثیت رکھتا ہے۔ اور پاکستان مسلم
دینا میں سپر پاور ملک کی حثیت رکھتا ہے۔
مسلم دنیا پہلے ہی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ اب اگر عرب اور عجم نے حکمت اور
مصالحت کی روش اختیار نہ کی تو پھر اغیار کی یہ سازش بھی کامیاب ہوجانے کا
قوی امکان ہے۔ ماضی میں عراق نے عرب ممالک کی حمایت پر ایران پر چڑھائی کی
تھی۔ اس کے بعد عراق نے کویت پر قبضہ کیا۔ اور پھر بیرونی طاقتیں بھی کود
پڑی تھی۔ حال ہی میں سعودی عرب نے یمن پر جنگ کرکے اربوں ڈالر بہا دیے جس
کے بعد سعودی عرب میں دہشت گردیاں ہوئی۔ پھر سعودی عرب نے پاکستان سے مدد
کی اپیل کی۔ جس کے جواب میں پاکستان نے معذرت کی۔ اب سعودی عرب نے 34 ممالک
پر اسلامی اتحاد تشکیل کیا۔ جس میں پاکستان کی بھی شمولیت متوقع ہیں۔ اور
سوچ سجمھ کر فیصلہ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ آج مشرق وسطی کا شہر شہر قریہ
قریہ کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔ اب عرب اور عجم کو اندازہ کرلینا چاہیے
کہ سعودی عرب اور ایران بارود اور تیل کی طاقت سے کسی کو زیر نہیں کرسکتے۔
یہ گزرے وقت کے بادشاہوں کا دور نہیں ہے۔ کہ لشکروں کی طاقتوں سے سلطنتوں
کو زیر کرلیا جائے۔ کیونکہ اب سوائے تبائی اور بربادی کے کسی کے کچھ ہاتھ
آنے والا نہیں ہے، اسکی زندہ مثالیں مسلم کے سامنے ہیں۔ سعودی عرب کو مقدس
تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ اور حرمین شریف کی حفاظت کے لیے پاکستان کی عوام
سعودی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مگر پاکستان کی مسلح افواج کو کسی ملک
کی جنگ میں نہیں جھونکا جا سکتا۔
امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کا پاکستان کا دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔
نائن الیون کے فورا بعد امریکہ نے افغانستان چڑھائی کی۔ اور پھر پاکستان
دہشت گردی کی چکی میں پیستا چلا گیا۔ اس دہشت گردی کی جنگ میں قوم اور فوج
نے سنیکڑوں کی تعداد میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ پاک فوج کا جسم
چھلنی ہونے کے باوجود ہماری مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹی
ہوئی ہیں۔ پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ تو پورے عالم اسلام میں
پاکستان کے ایٹم بم کو مسلم دنیا کا اسلامی ایٹم بم کہا گیا تھا۔ اور عالم
اسلام کی سلامتی کا ضامن قرار دیا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ پاکستان آج خود
اپنی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑرہا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ
نے ہمیں آج کسی کی مدد کے قابل نہیں چھوڑا۔ عرب اور عجم دونوں پاکستان کے
لیے بہت اہمیت کے حامل ملک ہیں۔ اور پاکستان عالم اسلام میں واضح برتری کا
حامل ملک ہے۔ حالیہ کشیدگی ہونے کے فورا بعد سعودی وزیر خارجہ کا تین روزہ
دورہ اور پھر سعودی وزیر دفاع کا بھی ایک روزہ دورہ بڑا اہم دورہ رہا۔ عرب
اور عجم پاکستان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کہ پاکستان اپنا کردار ادا کریں
مگر افسوس ہمارے ہاں قیادت کا فقدان ہے۔ہمارے موجودہ سیاسی لیڈر ملک اورقوم
کے لیے ٹھوس فیصلہ نہیں کرسکے آج تک۔ اب عرب اور عجم کے درمیان جاری کشیدگی
کا خاتمہ کروانے کے لیے پاکستان کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔
پاکستان نے سعودی اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے بہترین وقت کا انتخاب
کیا ہے۔ جب ایران پر عائد عالمی پابندیوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم
نواز شریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے عرب اور عجم کے ہنگامی دورے
قابل قدر ہیں، ہماری سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کو دونوں ممالک کے درمیان
جاری کشیدگی کے معاملات کو سفارتی نقطہ نظر سے متوازن طریقے سے حل کرنے کے
لیے دونوں ممالک پر زور دینا چاہیے۔ اور پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو
بھی ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے کسی ایک فریق کا اتحادی بننے کے بجائے ثالثی
کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور عرب اور عجم کو بھی جارحانہ پالیسی اپنانے کے
بجائے امن پالیسی کو ترجیح دینا چاہیے۔ اور صبر اور تحمل سے کام لینا
چاہیے۔ اورعراق شام افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں جاری خانہ جنگی سے
جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے۔ قوی امید ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری
قیادت کے رہنمائوں کے دوروں سے دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کی راہ ہموار
ہوگی۔ |
|