کشمیر کاز ،رہنمائی کے تقاضے!

کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے سرکاری اور سیاسی طور پر باقاعدہ اور بامقصدرابطے نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف کشمیریوں ،تحریک آزادی کشمیر کے کئی اہم امور نظر انداز ہو رہے ہیں ،وہاںکشمیریوں اورپاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے منفی رجحانات کو بھی تقویت مل رہی ہے۔اس حوالے سے کشمیریوں کے ایک ایسے مختصر گروپ کے یکجاء اورمتحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے جو کشمیریوں کو درپیش صورتحال ،کشمیر کاز سے متعلق پاکستان کے وفاقی اداروں،محکموںسے باقاعدہ رابطے کریںاور کشمیر اور کشمیریوں سے متعلق صورتحال میں بہتری کے لئے اقدامات پر مبنی ایسی تجاویز پیش کی جائیں جو پاکستان کے ادارے،محکمے اپنے دائرہ کار میں آسانی سے کر سکتے ہیں۔اس سے نہ صرف کشمیریوں کو مختلف حوالوں سے درپیش مشکلات و مسائل میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے بلکہ اس سے کشمیریوں کے حکومت پاکستان پر اعتماد میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔
گزشتہ دنوں یہ خبر عام ہوئی کہ رواں ماہ کے تیسرے ہفتے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں عالمی کشمیر کانفرنس منعقد ہوگی ۔آزاد کشمیر کے صدر کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی کئی شخصیات کو دعوت نامے بھی ارسال کر دیئے گئے۔اس دو روزہ کانفرنس کے شرکاء کی فہرست بنائی گئی جس میں آزاد کشمیر،پاکستان ،یورپ اور گلف کی شخصیات کے نام بھی شامل کئے گئے۔تین روز قبل اس کانفرنس کے ملتوی ہونے کا اعلان کیا گیا۔کانفرنس ملتوی کئے جانے کی وجہ بھارتی حکومت کی طرف سے حریت رہنمائوںکو پاسپورٹ جاری نہ کرنا بتایا گیا۔تاہم اس کانفرنس کے ملتوی ہونے میں حریت رہنمائوں کے درمیان اختلافات کا معاملہ حاوی نظر آیا۔حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے ایک نمائندے عبدالحمید لون نے اس کانفرنس کے لئے کوشش شروع کی اور اس معاملے میں سینئر رہنمائوں سمیت تمام حریت رہنمائوں سے مشاورت کی گئی۔چند ناگزیر امور کی وجہ سے یہ کانفرنس صدر آزاد کشمیر کی میزبانی میں کرانے کا فیصلہ ہوا۔اس کانفرنس کی تیاری کے لئے کشمیر لبریشن سیل کے سیکرٹری زاہد عباسی نے کئی ابتدائی اقدامات مکمل کر لئے ہیں اور شنید ہے کہ جلد ہی یہ کانفرنس منعقد کی جائے گی ۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے بلائے جانی والی چند شخصیات پر اعتراضات اٹھائے گئے ۔اس کانفرنس کے انعقاد کے خلاف کوششوں کا سلسلہ 'آر پار' سے دیکھا گیا۔ایک اطلاع کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی ایک صحافتی شخصیت بھی اس کانفرنس کے خلاف متحرک رہی ۔کانفرنس کے خلاف متحرک صحافتی شخصیت کے حلقہ اثر کے صحافیوں نے کانفرنس کے موضوعات کو بھارت کے مفادات کے خلاف قرار دیااور اس حوالے سے کانفرنس کے انعقاد میںمقبوضہ کشمیر سے شرکاء کی شرکت پر شک کا اظہار کیا۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس کانفرنس کے خلاف کئی کشمیری شخصیات سے رابطے بھی کئے گئے۔اس کانفرنس کے انعقاد کی اطلاع ملی تو پہلا سوال یہی ذہن میں آیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطے و تعاون کی موجودہ صورتحال میں اس کانفرنس سے کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں؟کانفرنس کے موضوعات زیادہ اور مختلف کیوں رکھے گئے ہیں؟کیا کانفرنس کے اعلان سے پہلے کا ''ہوم ورک'' مکمل کر لیا گیا ہے؟کہیں کانفرنس کا انعقاد عجلت میں تو نہیں کیا جا رہا؟ کیا صدر آزاد کشمیر کو اس کانفرنس سے سیاسی فوائد ''گھر بیٹھے '' ہی مل رہے ہیں؟یہ کانفرنس نہ تو پہلی اور نہ ہی کوئی آخری کانفرنس ہو گی۔ملتوی ہونے سے وقت میسر آیا ہے کہ اس کانفرنس کو بہترین انداز میں آرگنائیز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے بامقصد اور موثر طور پر منعقد کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔انٹر نیشنل کشمیر کانفرنس کو نمائشی انداز کے بجائے اسے بامقصد بنانے سے کشمیر کاز کو تقویت پہنچائی جا سکتی ہے اور اس کانفرنس سے کشمیریوں کو اپنی آواز دنیا کے سامنے لانے کا ایک اچھا موقع بنا یا جا سکتا ہے،اس حوالے سے کانفرنس کے موضوعات اور شرکاء کا انتخاب بنیادی اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔

سیمینار،ورکشاپ،کانفرنس کے فوائد و نتائج اپنی جگہ لیکن دیکھا جائے تو کشمیریوں کے امور و مسائل کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ ر کشمیر کاز،کشمیریوں کے امور و مسائل کے حوالے سے حکومت پاکستان(وفاقی حکومت) کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتی لیکن آزاد کشمیر حکومت مقامی مفادات کے امور میں محدود ، کشمیر کاز سے ''بری الذمہ '' ہوتے ہوئے کشمیریوں کے امور و مسائل سے بھی لاتعلق ہو چکی ہے۔اب تو یہ عالم ہے کہ اس سطح کے سیاست دان ہی میسر نہیں جو اس طرح کے امور سے متعلق کشمیریوں کی طرف سے مطالبات کو مناسب فورمز،اداروں کے سامنے پیش کر سکیں۔حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ بھی یہ کردار ادا کر سکتی تھی لیکن آزاد کشمیر حکومت کی طرح حریت کانفرنس بھی انحطاط پزیری سے دوچار ہوئی اور کشمیریوں کے حق میں اپنا موثر کردار ادا کرنے کے لوازمات سے ہی محروم نظر آنے لگی ۔انفرادی کوششوں سے قطع نظر،اجتماعی طور پر حریت کانفرنس اس انداز میں اپنا کردار ادا نہ کر سکی جو حالات کا تقاضہ ہے۔آزاد کشمیر میں حکومت ،تمام سیاسی جماعتوں اور حریت کانفرنس پر مشتمل کل جماعتی رابطہ کونسل بنی،جو چل نہ سکی ، چلائی نہ جا سکی یا اسے چلنے نہ دیا گیا،لیکن حقیقت یہی ہے کہ کاغذات کے علاوہ اس کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔یوں ہمارا سیاسی کردار اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں سے قاصر نظر آ تا ہے۔
کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے سرکاری اور سیاسی طور پر باقاعدہ اور بامقصدرابطے نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف کشمیریوں ،تحریک آزادی کشمیر کے کئی اہم امور نظر انداز ہو رہے ہیں ،وہاںکشمیریوں اورپاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے منفی رجحانات کو بھی تقویت مل رہی ہے۔اس حوالے سے کشمیریوں کے ایک ایسے مختصر گروپ کے یکجاء اورمتحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے جو کشمیریوں کو درپیش صورتحال ،کشمیر کاز سے متعلق پاکستان کے وفاقی اداروں،محکموںسے باقاعدہ رابطے کریںاور کشمیر اور کشمیریوں سے متعلق صورتحال میں بہتری کے لئے اقدامات پر مبنی ایسی تجاویز پیش کی جائیں جو پاکستان کے ادارے،محکمے اپنے دائرہ کار میں آسانی سے کر سکتے ہیں۔اس سے نہ صرف کشمیریوں کو مختلف حوالوں سے درپیش مشکلات و مسائل میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے بلکہ اس سے کشمیریوں کے حکومت پاکستان پر اعتماد میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔اس حوالے سے تنظیموں ،جماعتوں کی نہیں بلکہ ان شخصیات کی ضرورت ہے جو کشمیریوں کا'' حقیقی چہرہ'' ہیں اور کشمیر کاز سے متعلق تمام امور و حقائق کو سمجھتے ہوئے کشمیریوں کی حقیقی نمائندگی اور رہنمائی کرنے کی خصو صیات کے حامل ہیں۔انسان کی زندگی کا کچھ علم نہیں ہوتا کہ کہاں ،کب اور کیسے ختم ہو جائے،اس وقت سے پہلے پہلے ہمیں اپنے علم و یقین اور بہترین صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ، اپنی بہترین کوشش کرنی چاہئے،اسی میں دانائی اور سب کی بھلائی ہے اور یہی کشمیریوں کی رہنمائی کا تقاضہ ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699204 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More