کیا پختون قوم لاوارث ہو گئی ہے؟اس عنوان سے راقم
الحروف کا کالم اخبار ہذا میں ۲۵ دسمبر کو شائع ہوا تھا جس میں راقم ا
لحروف نے تحریر کیا تھا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے پشتون قوم کی قیادت کے لئے ایک
اور آزمائش کا مو قع عنائت فر مایا ہے اگر اس معاملہ میں وہ سنجیدگی دکھا
کر، ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر کوشش کر کے کامیابی حاصل کر لیں تو پشتون
قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے، وہ آزمائش پاک چین راہداری منصوبہ ہے جسے نواز
شریف ہر حال میں پنجاب میں سے گزار کر خیبر پختونخوا کو اس سے محروم رکھنے
کا ارادہ رکھتا ہے‘‘-
مقامِ شکر ہے کہ اس کالم کے شائع ہو نے کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ
پر ویز خٹک نے نہ صرف خود اس منصوبہ پر سخت موقف اختیار کیا بلکہ جے یو آئی
کے مولانا فضل الرحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاوٗ اور دیگر قابلِ
ذکر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی اس اس اہم منصوبے سے متعلق اپنا ہم نوا
بنا لیا ۔با آمرِ مجبوری وزیرِ اعظم نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس طلب کی
تاکہ سیاسی قائدین کو اس منصوبے کیے بارے میں اعتماد میں لیا جائے۔وزیر
اعظم نے نے منصوبے پر جاری ترقیاتی کام کا جائزہ لینے کے کے لئے اپنی سر
براہی میں پانچ وزرائے اعیٰ سمیت دس رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی تشکیل
کا اعلان کیا۔ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ انڈسٹریل زونز کے قیام
کا فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا جائگیا ۔
لیکن وہ بات جس کا اس سارے افسانہ میں ذکر نہ تھا ،وہ نقشہ ہے ،جہاں سے اس
راہداری نے گزرنا ہے ۔عوام کو جس بات کی تشویش ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاک چین
منصوبے کا روٹ کن کن علاقوں سے گزرے گا ؟خیبر پختونخوا کے کون کون سے اضلاع
اس سے مستفید ہوں گے؟
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وزیرِ اعظم کے زیرِ صدارت ہو نے والے اس اہم
اجلاس کے بعد ایک نقشہ منظرِ عام پر لایا جاتا جہاں سے اس اہم منصوبے کا
روٹ تعمیر ہو نا ہے ، صنعتی زون کا قیام تو بعد کی بات ہے۔ نقشہ کو خفیہ
رکھنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
اول یہ کہ کہ حکمرانوں کی نیّت میں کھوٹ ہے اور وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ،وہ
اس کے بر عکس کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔دوم یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف
چونکہ ایک صنعتکار ہیں اور وہ ہر کام میں منافع کو ڈھونڈنے کا مزاج رکھتے
ہیں لہذاعین ممکن ہے کہ انہوں نے سوچا ہو کہ پاک چین راہداری کے روٹ کو اس
لئے منظرِ عام پر نہ لایا جائے تاکہ رائے ونڈ کی طرح اس کے ارد گرد کی
زمینیں کو ڑیوں کے بھا وٗ خرید کر لاکھوں روپے مرلہ کے حساب سے فروخت کر
سکیں ۔ رائے ونڈ میں اس قسم کا بڑا منافع بخش تجربہ وہ پہلے کر چکے
ہیں۔جہاں انہوں نے اونے پونے داموں غریب لوگوں سے زمینیں خرید لیں،بعد میں
اسے ٹیکس فری زون قرار ڈالا، صنعتیں لگنا شروع ہو ئیں، یوں انہوں نے اربوں
روپے کما لئے۔شاید اب وہ وہ اصل نقشہ چھپا کر پاک چین راہداری کے روٹ کے
اردگرد زمینیں خرید کر اربوں روپے کمانا چاہتا ہے۔بحر حال وجہ کچھ بھی ہو،
یہ بات قرین القیاس ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ورنہ وہ اس روٹ کا
نقشہ منظرِ عام پر لاتے ۔اس طرح تینوں صوبوں کے حکمرانوں کو تشویش ہو تی نہ
عوام فکر مند ہو تے ۔اس منصوبے سے متعلق اگر چہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ
اعلیٰ پر ویز خٹک کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ مگر قابلِ اطمینان نہیں ۔جس
کی بڑی وجہ اس منصوبے کے روٹ کو خفیہ رکھنا ہے۔
اس سلسلے مین یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چا ہیئے کہ بھارت کواس منصوبے سے
متعلق سخت تشویش ہے ۔اس کی پہلی ترجیح تو یہ ہے کہ یہ منصوبہ پایہء تکمیل
تک ہی نہ پہنچ سکے مگر دوسری ترجیح یہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ بننا ہی ہے تو
پھر لاہور سے ہو کر بنے تاکہ اسے بھی گوادر تک رسائی حاصل ہو ۔دراصل پاک
چین راہداری کا یہ منصوبہ ایک بڑا دفاعی کھیل بھی ہے ۔اگر ہم گہری نظر سے
اس کا مطالعہ کریں گے تو کئی ہو لناک سازشوں کی بو سونگھ پائیں گے۔بناء بر
ایں ہماری خیبر پختونخوا حکومت اور خیبر پختونخوا کے جملہ سیاسی قائدین سے
یہ گزارش ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے ایک ایسا نقشہ منظرِ عام پر لانے کا
مطالبہ کریں جس میں خیبر پختونخوا کے ہزارہ کے علاوہ کو ہاٹ، کرک،بنوں لکی
مروت اور ڈیرہ اسمعیل خان جیسے اضلاع ضرور شامل ہوں ۔ کیونکہ ہزارہ سے اس
روٹ کا گزرنا تو وفاقی حکومت کی مجبوری ہے۔ جب تک وفاقی حکومت اس منصوبے کے
روٹ کا نقشہ تحریری صورت میں سامنے نہیں لاتا ، تب تک اسے خوشحالی کا لالی
پاپ ہی سمجھا جائے گا۔
|