اکثر دیکھا گیا ہے کہ مالیاتی ادارے جن میں
بنک کا کردار ہراول دستے کا سا ہوتاہے جو اپنی لین دین میں کھرے پن کو
اولیت دیتا ہے عوام کی مشکلات کے پیشِ نظر انھیں سہولیات بہم پہنچانا، اور
عوامی پیسے کا امین بن کر امانتوں کی حفاظت کے لئے مختلف اقدام کا بروئے
کار لانا لوگوں کے اعتماد کو جلا بخشتا ہے یہی وجہ ہے کہ بندہ پیسوں کے
معاملے میں اپنے عزیزوں پر اعتبار نہیں کرتا مگر بنک کے ساتھ پورے یقین سے
اپنے کاروباری راز و نیاز شیئر کرتا ہے جن میں سرمایہ کاری ،قرضہ جات بھی
شامل ہوتے ہیں ۔دیانت کے اس معیار میں بد دیانتی کے جالے،نااہلی، کوتاہی
،بد نفسی کی داغدار صورتیں بھی سامنے آتی ہیں جو بنک کا یا مرکزی بنک کا
آڈٹ نمایاں کرتا ہے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں کی گئیں بد عنوانیاں جب
جُرم و سزا کے مراحل سے گزر کر انجام کو پہنچتی ہیں تو قرار واقعی سزا مجرم
کے لئے لعنت کا طوق بن کر رہ جاتی ہے انتہائی اقدام کی صورت میں ملازمت سے
فراغت بھی کی جاتی ہے اور فراڈ کے حوالے سے رقم کی وصولی کو بھی ممکن بنایا
جاتا ہے اس روش سے ادارے سے وابستہ دیگر اہلکار سبق آموز انجام سے بخوبی
آگاہ ہو کر اپنے وجود کو بد عنوانیوں سے پاک رکھنے کی سعی میں رہتے ہیں تا
کہ بدنامی و رسوائی کی جگہ عزت واحترام طمانیت کا باعث بنتا رہے گو کہ
نفسانفسی کے اس عالم میں اپنے آبائو اجدادکی توقیر سنبھالے رکھنا ،اُن کو
زمانے کی دُشنام طرازیوں سے محفوظ رکھنا بسا اوقات دشوار ہو جاتا ہے بھر
بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ محترم ہستیاں دولت کی بے راہ روی سے دامن
بچاتے ہوئے اپنی نفسانی خواہش کو حراست میں رکھتے ہیں ایسے اشخاص کا تناسب
پورے ملک میں یک ہندسہ ہی سہی پھر بھی پاک دامنی کی شدید قلت میں ایسے لوگ
گندگی میں کنول کے پھول کی مانند ہی تصور کئے جا سکتے ہیں ایسے انمول ایسے
دنیاوی فرشتوں کا وجود زیادہ تر پس ماندہ طبقات میں ملتا ہے جن کا مقصد
تاریک راہوں میں درست سمت پہ گامزن ہونا ہوتا ہے تاج سر پر سجانے کی آرزو
نہیں رکھتے بلکہ عبدالستار ایدھی کی طرح جامہ زیب تن کئے لوگوں پر محبتیں
نچھاور کرکے عاقبت سنوارتے ہیں ۔اس موقع کی مناسبت سے مجھے مولانا رومی کی
خوبصورت بات یاد آگئی مولانا فرماتے ہیں کہ میں نے کتنے قیمتی انسان دیکھے
جن کے پاس لباس نہیں تھا اور کتنے ہی قیمتی لباس والے دیکھے جن کے اندر
انسان نہیں تھا ۔انسانیت کی تلاش میں اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو کئی
برگزیدہ ہستیوں سے تعارف کی سعادت نصیب ہوتی ہے مگر ہمیں زمانے کے نشیب و
فراز نے شاید اتنا ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے کہ ہم اُن لوگوں کے پیچھے
چل پڑے جن کا مدعا مسند نشینی تھا شکر ہے اللہ تعالی کا جس نے ہمیں پہچان
عطا کی کہ ہم جان سکیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو خدمت نہیں تجارت کرتے ہیں جو
ملک و قوم کی تقدیر سنورانے نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے اثاثہ جات
اکھٹے کرنے آئے ہیں کوئی ایسا نہیں ملتا جس نے عوامی اُمنگوں کی پامالی نہ
کی ہو ۔ہر موڑ پہ رہبر کے روپ میں رہزن ،لٹیرے ۔احتساب کے ڈر سے کوئی لندن
میں مقیم تو کوئی دوبئی میں رہائش پذیر ٫ احتسابی عمل سست روی کا شکار ہونے
سے ملزموں کے حوصلے جواں۔ ووٹ مانگنے کے لئے طریقہ کا ر انتہائی مضحکہ
خیزکوئی معتبر لاشوں کو سامنے رکھ کر فقیروں کی طرح رو رو کر ووٹ مانگتا ہے
پھر اقتدار میں کرپشن کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیتا ہے تو کوئی
لسانیت کے حوالے سے گینگ تشکیل دے کر بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ میں اپنا ثانی
نہیں چھوڑتا ۔ذرا ایک نظر ان کی گزشتہ اور موجودہ کار گزاریوں پر ڈالیں تو
سچائیاں ماتم کرتی نظر آئیں گی تھر میں پھر بچوں کی اموات مگر سدباب کوئی
نہیںبلکہ ساری توانائیاں ایان علی کے بعد ڈاکٹر عاصم کو بچانے پر ۔ مین ہول
کھلے پڑے ہیں ڈھکن رکھنے والا کوئی نہیں ہسپتال میں مشینری ناکارہ عملہ
غائب ،سکولوں کے احاطے جانوروں کی آماجگاہ ،سیاسی جماعتوں میں جرائم پیشہ
افراد کی عملداری،فرقہ واریت میں بٹی قوم اور اتحاد کے کھوکھلے نعرے ۔حالیہ
سندھ اسمبلی کا بل قانون و انصاف کے ساتھ کھلا مذاق جو کرپٹ ،دہشت گرد
عناصر کے لئے قانونی ایزی لوڈ!!!
۔ ان سارے حقائق کی موجودگی میں کفِ افسوس ملتے اگر ہم یہ کہنے لگیں کہ یہ
کیسے لوگ ہیں تو ہو سکتا ہے کہ سننے والا کوئی بالغ نظر بندہ ہمیں انسان کی
تعریف میں ہی نہ گردانے ۔غلطیوں کا احساس اگر نہ مرے تو ایک بار کی ٹھوکر
شناشائی کے لئے اکسیر کا کام کرتی ہے اور یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ
یہ کیسے لوگ ہیں ؟
|