دہشتگردی کیخلاف جنگ ہم سب کی جنگ ہے آئیں ملکر یہ جنگ لڑیں
(Sardar Asghar Ali Abbasi, Lahore)
بدھ20جنوری2016ء چارسدہ کی باچا خان
یونیورسٹی جس میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں نامور شعراء کی
شرکت ہونا تھی اور ساتھ ہی ساتھ اسی دن یونیورسٹی میں بچوں کاامتحانی پیپر
بھی تھا تاہم یونیورسٹی میں ہونیوالی تقریب اور امتحانی سینٹرز پر تعلیم
دشمن دہشتگردوں نے اس وقت مذموم عزائم پر مبنی حملہ کر دیا جب ابھی طلوع
سحر ہی ہوئی تھی اور ابھی نہ کوئی تقریب شروع ہو ئی تھی اور نہ ہی کوئی
امتحان اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اگر یہی حملہ ایسے لمحے ہوتا جب ایک جانب
تقریب جاری ہوتی اور دوسری جانب امتحان تو نقصان کا اندیشہ اور زیادہ ہوتا
۔بدھ کے روز صبح 9:00بجے کے قریب باچا خان یونیورسٹی میں درندہ صفت اور
انسانیت کے مجرموں نے خون ناحق بہا کر وطن عزیز کی تاریخ کے اور ورق کو لہو
رنگ کر دیا تاہم اس بار دہشتگردوں کو گزشتہ سال کی طرح اپنے مذموم عزائم
میں کامیابی نہ مل سکی اور یوں وہ ناکام و نا مراد پاکستان کی بہادر فوج
،پولیس اور یونیورسٹی گارڈز کی بھر پور مزاحمت کے باعث ناپاک ارادوں تہیں
اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد دہشتگردوں کو اب بہت سے پیغام بھی پہنچ
گئے ہونگے کے پہلے وہ صرف اس ملک کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کرتے تھے
اور یوں انہیں ایک جانب سے ہی مزاحمت کا سامنا تھا جس کی وجہ سے ماضی میں
انہوں نے بے شمار ایسے حملے کر کے کئی قیمتی اور معصوم جانوں کا خون اس
دھرتی پر بہا کر اپنے اندر کی درندگی دکھائی ۔
ماضی میں وطن عزیز میں دہشتگردوں کی جانب سے متعدد حملے ہوئے ہیں جن میں
کراچی ایئر پورٹ،مہران ایئر بیس،جی ایچ کیو،مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر،آئی
ایس آئی کے دفاتر اور آرمی پبلک سکول پر ہونیوالے حملے آج بھی اس قوم کے
دلوں میں ایسے تیر کی طرح پیوست ہیں کہ جس کا درد زندگی بھر نہیں جا سکتا
کیونکہ اگر اس تیر کو نکال بھی لیا جائے تو اسکے نشان کو دیکھ کر انسان اس
تیر کے درد کی حدت کو محسوس کرتا رہتا ہے کچھ ایسا ہی اس وطن عزیز میں
دہشتگردوں کی درندگی نے عوام پر اپنا نقش چھوڑا ہے ۔
اگرچہ ہم سب یہ شور مچاتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرتی حکومتی اقدامات کچھ
زیادہ اچھے نہیں ہیں مگر دیکھا جائے تو حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے حوالے
سے اقدامات کافی حد تک تسلی بخش بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب دہشتگردوں کو بہت
کم ہی اس طرح کی وارداتوں کا موقع ملتا ہے اگر ماضی کے اخبارات کی شہ
سرخیاں ہی دیکھ لیں توآپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد وطن عزیز
کے طول و عرض سے کئی دہشتگرد اور کئی انکے سہولت کار اس وقت سیکورٹی اداروں
کی تحویل میں ہیں اور دوران تفتیش ان سے کئی ایسے راز اگلوائے جا چکے ہیں
کہ جن کے باعث دہشتگردوں کے ناپاک چہرے پر لگا ہوانقاب اتر چکا ہے ۔
اس وقت کثیر تعداد میں وطن عزیز میں موجود گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں میں
سیکورٹی کے انتظامات کو مکمل کر لیا گیا ہے تاہم ہر کام 100فیصد تکمیل کو
نہیں پہنچتا کوئی نہ کوئی کمی تو رہ ہی جاتی ہے اس پر ساراالزام حکومت کو
نہیں دے سکتے کچھ کام عوام اور کچھ کمیونٹی نے بھی کرنا ہوتا ہے سکولوں کی
انتظامیہ اور وہاں پر تعلیم حاصل کرنے والے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ سکول
انتظامیہ پر زور دیں کہ وہ سیکورٹی انتظامات کو مضبوط کریں کیونکہ حکومت سے
زیادہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کا زیادہ اس کا احسا س
ہے کیونکہ انکے جگر گوشے انکی ساری زندگی کا اثاثہ ہیں اور وہ انہیں کیلئے
دھوپ چھاؤ برداشت کرتے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں مہنگی مہنگی فیسیں دے
کر اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں تک پہنچاتے ہیں ۔تاہم حکومت کواب سی سی ٹی
وی کیمروں ،خار دار تاروں اور سیکورٹی گارڈز سے آگے سوچنا ہوگا کیونکہ ہر
سکول کو مکمل سیکورٹی نہ حکومت مہیا کر سکتی ہے اور نہ ہی سکول انتظامیہ
کیونکہ حکومتی اداروں میں ان انتظامات کیلئے حکومت کو بہت بڑے بجٹ کی ضرورت
ہے جبکہ پرائیویٹ اداروں کیلئے بھی سیکورٹی کے 100فیصد انتظامات کو مکمل
کرنا انتہائی دشوار گزار کام ہے کیونکہ اداروں کے اور بھی بہت سے اخراجات
ہوتے ہیں اور انتظامیہ کیلئے یہ ایک چیلنج ہے ۔ہاں بعض جگہوں پرایسی بھی
اطلاعات ہیں کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے سیکورٹی کی آڑمیں بچوں پر نیا
ٹیکس لگا دیا ہے کہ اب وہ سیکورٹی فیس بھی سکول میں جمع کروائیں جو کہ
والدین پر ایک اور بہت بڑا بوجھ ہے اور یہ صریحاً انصاف کی بات بھی نہیں
کیونکہ یوں سکول انتظامیہ نے تو اس آڑ میں اپنے کمائی کو مزید بڑھانے کا
پروگرام بنا لیا ہے اور جو ادارے ایسا کرتے ہیں محکمہ تعلیم کے ارباب
اختیار کو انکے خلاف ایکشن لینا چاہئے تاکہ نجی تعلیمی ادارے اسے اپنی
کمائی کا ذریعہ بنانے سے باز رہیں ۔
موجودہ دہشتگردی سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر کمیونٹی کے اندر خصوصی رضا
کار فورسز کی تیاری کی جائے چاہے وہ تعلیمی میدان ہویا تجارتی میدان ہو یا
دیگر جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں ۔مختلف مارکیٹوں کی تاجر تنظیموں کے
ساتھ خصوصی نشستیں رکھی جائیں اور انہیں کہا جائے کہ وہ اپنی تجارتی رضا
کار فورس بنائیں اور اسے سیکورٹی اداروں سے خصوصی تربیت دلائیں تاکہ اﷲ نہ
کرے ایسا کوئی حادثہ ہو تو وہاں مارکیٹ کے سیکورٹی گارڈز کے ساتھ ساتھ یہ
رضا کار فورس بھی مددگار و معاون ہواور ابتدائی مزاحمت کی صورت میں نقصان
کا اندیشہ کم سے کم رہے اسی طرح سکولوں میں بھی خصوصی کورس کروائے جائیں جن
میں بچوں کو اپنی اور دوسروں کی حفاظت کی تربیت دی جائے پہلے وقتوں میں اس
کیلئے پی ٹی ماسٹر ہوتا تھا اب بھی ویسا ہی طریقہ کار بنایا جائے تاکہ بچے
بھی خصوصی ٹریننگ کے باعث معاشرے کے ان ناسوروں کیخلاف بر سر پیکار ہونے
کیلئے تیار رہیں اسی طرح مساجد کمیٹیاں ہیں ان کمیٹیوں کو کہا جائے کہ قریب
محلے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائیں اور یوں پوری قوم کو ساتھ ملایا جائے
خالی سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں سے یہ ناسور معاشرے سے نکل نہیں سکتا
اور یقینا اس اقدام سے سیکورٹی اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد
کے درمیان باہمی رابطے کا بہت اچھا پلیٹ فارم بن جائے گااور یوں معاشرے سے
معمولی جرائم بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ۔ساتھ ہی ساتھ ہر محلے میں
خصوصی سیمینارز کا انعقاد کیا جائے جن میں دہشتگردوں انکے سہولت کاروں اور
انکی مالی مدد کرنیوالوں بارے آگاہی دی جائے کہ یہ کس طرح سے اپنے مذمو م
عزائم میں کامیاب ہوتے ہیں تاکہ عام آدمی بھی اس قافلے میں اپنا حصہ ڈالے
تھانوں میں اس طرح کا نظام بنایا جائے کہ عام آدمی دہشتگردوں کے کسی سہولت
کار یا فنانسر کی معلومات دینے کیلئے فرض سمجھ کر جائے نہ کہ وہ ایسا دیکھ
کر آنکھ بندھ کر لے کیونکہ ہمارا تھانہ کلچر ایسا ہے کہ عام شہری ڈرتا اسکے
قریب سے نہیں گزرتا اور اپنا جائز کام کروانے کیلئے بھی محلے کے ان افراد
کا سہارا لیتا ہے جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ تھانے کے کلچر سے ڈرتا
ہے اگر اس کلچر کو مکمل طور پر بدل دیا جائے تو 100فیصد یقینی بات ہے کہ
دہشتگردی کا یہ ناسور بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے دوران عوام نے جس طرح کا جذبہ دکھائے ہے
اسکے لئے ضروری ہے کہ حکومت بھی اب اس طرح کے اقدامات کرے ۔حکومت کمیونٹی
اور سیکورٹی اداروں پر مشتمل ایسا اتحاد بنائے کہ جو صفر فیصد جگہ بھی ان
دہشتگردوں کیلئے اپنی صفوں میں نہ چھوڑے کہ جہاں سے یہ ہماری صفوں میں گھس
کر ہمیں یا ہمارے پیاروں کو خون ناحق میں نہا دیں اکیلے حکومت کے بس کی بات
نہیں کہ وہ اس جن پر قابو پا لے اسکے لئے سب کا حصہ دار ہونا ضرور ی ہے ۔
ہماری بہادر سیکورٹی فورسز نے ہمیشہ جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے کہ
دہشتگردوں کے ہر حملے کو پسپا کرنے میں چند گھنٹے صرف کئے ہیں ورگرنہ ماضی
میں ہونے والے حملوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو دہشتگرد نہ صرف مکمل تربیت
یافتہ ہو کر دہشتگردی کرنے آتے رہے ہیں بلکہ ایک لمبی منصوبہ بندی بھی انکے
منصوبے کا حصہ ہوتی تھی وہ اپنے ساتھ جدید ہتھیار،خوراک اور متفرق اشیاء کے
ہمراہ ناپاک عزائم لئے حملہ آور ہوئے لیکن ہر بار مسلح افواج کی جانب سے
کامیاب آپریشن کے ذریعے چند ہی گھنٹوں میں بہادرفوج کے سپاہیوں نے انہیں
ابدی نیند سلا کر انکے ناپاک عزائم کا خاتمہ کر دیا۔حکومت کو چاہئے کہ
سکولوں کی انتظامیہ کیلئے یہ سرکلر بھی اب جاری کرے کہ دہشتگردوں کی گھٹیا
کارروائیوں سے بچنے کیلئے جب بھی کوئی ٹیم انکے سکول میں آئے تو اسکی بھر
پور تسلی کر لیں یا یہ لازم قرار دیدیا جائے کہ ضلعی انتظامیہ کی اجازت کے
بغیر کوئی بھی ٹیم کسی سکول میں داخل نہیں ہو سکتی چاہے وہ حکومتی ادارہ ہو
یا نجی اور اسکے لئے با قاعدہ لیٹر ضلعی حکومت جاری کرے گی اور ضلعی حکومت
ہی اس کی اطلاع دے گی تاکہ کسی دھوکہ بازی کے ذریعے آئندہ کوئی نئی
دہشتگردی جنم نہ لے سکے جبکہ ایسے نجی یا حکومتی ادارے جہاں دہشتگردی کا
خطرہ نظر آتا ہے وہاں پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی متحرک کیا جائے تاکہ
وہ ہر آنے جانیوالے پر نگاہ رکھیں۔
قارئین……!! حکومتی پالیسیاں اور ان پر عملدرآمد میں دیر بھی ہو سکتی ہے مگر
ہر پاکستانی آج سے یہ عہد کرے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالے
گا کیونکہ یہ ہر پاکستانی کے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے جو بچے باچا خان
یا آرمی پبلک سکول میں شہید ہوئے وہ بچے بھی ہمارے پاکستانی بھائیوں کے بچے
تھے اور ہر پاکستانی کواتنا ہی انکی شہادت پر دکھ ہے جتنا کہ ان بچوں کے
والدین کو اسلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے جدوجہد
کریں اور جہاں بھی کوئی مشکوک شخص نظر آئے یا دہشتگردوں کے سہولت کار بارے
ہمیں کوئی معلومات حاصل ہو یا یہ معلوم ہو کہ فلاں شخص دہشتگردوں کی مالی
مدد میں ملوث ہے تو بلاجھجھک سیکورٹی اداروں کو فوری اسکی اطلاع کریں تاکہ
بر وقت کارروائی سے معاشرے میں موجود ان انسانیت کے قاتلوں کا قلع قمع کیا
جا سکے ۔یقینا قوموں کا اتحاد ہی بحرانوں سے نبرد آزما ہو سکتا ہے اور جو
قومیں متحد اور عزم مصمم کیساتھ جستجو میں نکلتی ہیں وہ کبھی ناکام و
نامراد نہیں لوٹتی کامیابی انکے قدم چومتی ہے ہمیں بھی اب سیاسی ،ذاتی عناد
کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ہر سانحہ پر دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پرہیز
کرنا ہوگا اور ملکر جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ یہ ہم سب کی جنگ ہے اور یہ
دشمن ہم سب کا دشمن ہے اور اسکا خاتمہ ہماری جدوجہد ہے ۔
|
|