اقلیتی اداروں پر حملہ: سیاسی رنجش کا شاخسانہ

11 ؍جنوری 2016ء کو حکومت ہند نے اپنے ایک حلف نامے میں سپریم کورٹ سے یہ کہا کہ حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایک سیکولر ملک میں سرکاری امداد یافتہ ادارے اقلیتی حیثیت کے حامل نہیں ہو سکتے۔حکومت کایہ موقف سابقہ یوپی اے حکومت کے برعکس ہے ۔اس تازہ قصے کی شروعات 25فروری 2005کو مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کے ذریعے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے ہونے کی بنیاد پر 50%ریزرویشن مسلمانوں کو دیئے جانے کی اجازت دینے سے ہوئی جسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اسی سال اکتوبر میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارون ٹنڈن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور 1981کا ترمیمی ایکٹ غیر قانونی ہے اور اسی بنیاد پر وزارت فروغ انسانی وسائیل کا نوٹیفکیشن بھی غیر قانونی ہے۔اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی اور مرکزی حکومت دونوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کی بڑی بنچ میں سنوائی کی درخواست دی جسے 5جنوری 2006ء کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے این رے اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے خارج کردیا۔اسی وقت مرکزی حکومت اور یونیورسٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی سماعت 11جنوری2016کو ہورہی تھی اسی سماعت کے دوران موجود ہ مرکزی سرکار نے مذکورہ حلف نامہ داخل کرکے سب کو حیران کردیا اور ملک بھر کے مسلمانوں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑادی۔
سرسیداحمدخان کے ذہن میں مسلمانوں کے لئے ایک یونیورسٹی کا خاکہ 1857کی ناکام بغاوت کے بعد ہی آگیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں بھی مسلمان عصری تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ ان کی ساری توجہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے پر مرکوز تھی۔تعلیم کے معاملے میں وہ عربی ،فارسی اور دینی علوم سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہ تھے۔ جب کہ ملک کے دیگر طبقات عصری علوم میں دسترس حاصل کرنے پر مائل تھے اور جنگ آزادی میں ان کی دلچسپی بہت کم تھی۔بغاوت کی ناکامی نے یہ بات ظاہر کردی تھی کہ آئندہ لمبے عرصے تک ملک پر برٹش راج قائم رہے گا اور اس حکومت کو چلانے کے لئے ہندوستان کے مقامی باشندوں کی ضرورت پیش آئے گی مگر یہ مواقع انہیں لوگوں کو مل سکیں گے جو عصری علوم خصوصاً انگریزی سے واقف ہوں گے ۔سرسید نے محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم سے ناواقف رہاتو سات سو سال سے ہندوستان پر حکمرانی کرنے والا یہ گروہ اپنی اس حیثیت کو کھو بیٹھے گا ۔اسی اندیشے کے تحت سرسید یہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزی اور عصری علوم نے واقف ہوں اور دیگر برادران وطن کے ہم پلہ انگریزی راج میں بھی اپنی حکمرانی کو جاری رکھیں۔ا سی غرض سے 1877ء میں مسلم ورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی گئی اور اس کے ساتھ اس وقت کے بڑے نواب اور راجہ شریک ہوئے خصوصاً نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، آغا خاں ،نواب محمودآباد اور سلیم اﷲ خاں وغیرہ اس تحریک سے وابستہ رہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی جانب یہ پہلا قدم تھا۔ بعد ازاں اسی غرض سے 1888میں سرسید نے United Patriotic Missionکے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی۔جس کا مقصد مسلمانوں اور ٹھاکروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر انگریزوں کے قریب کرنا تھا۔یہ عین وہی زمانہ تھا جب ایک طرف 1827ء میں قائم شدہ برہمو سماج نے ہندو احیاء پرستی اور ہندو نشاۃ ثانیہ کی زبردست مہم چھیڑ رکھی تھی اور اعلیٰ ذات ہندو یہ چاہتا تھا کہ سات سو سالہ مسلم حکمرانی سے کسی صورت نجات حاصل کرلے بھلے ہی اس کے لئے اسے انگریزوں کی غلامی کیوں نہ قبول کرنا پڑے اوردوسری طرف 1885میں ایک انگریز ایلان اکٹیوین ہیوم نے انڈین نیشنل کانگریس کا بنیاد ایک ایسی تنظیم کی حیثیت سے ڈالی جو انگریزوں کو پڑھے لکھے مقامی ہندو فراہم کراسکے۔1885سے 1890کے بیچ انگریز افسر ہیوم کی اس کانگریس میں ہندو احیاء پرستی کی تحریک کے تمام بڑے لیڈر مثلاً لالہ لاجپت رائے ،بال گنگا دھر تلا، پنڈت مدن ہوہن مالویہ وغیر شریک ہوچکے تھے اورسرسید کی منشاء پورے طورپر ناکام ہوچکی تھی ۔ اسی دوران 1898میں سر سید احمد خان کا انتقال ہو گیا اورانڈین نیشنل کانگریس 1905ء کے اجلاس میں پنڈت مدموہن مالویہ نے مسلم یونیورسٹی کے جواب میں ہندو یونیورسٹی کا اعلان بھی کردیا اور کاشی کے راجہ نے اسے فوری طورپر 13سو ایکڑ زمین بھی دان کردی۔ان حالات میں مسلم یونیورسٹی تحریک کے بانیان نے 30دسمبر 1906میں ڈھاکہ کے اجلاس میں مسلم لیگ قائم کردی جس کے جواب میں 1909میں پنڈت مدن ہومن مالویہ نے ہندومہاسبھاقائم کردی۔یہ سب وہ پس منظر ہے جس کے تحت ملک کے سنگین ترین فرقہ وارانہ حالات میں ایک ہندو اور ایک مسلم یونیورسٹی کے قیام کو بھی تحریک دی اور ایک ہندو اور ایک مسلم سیاسی تنظیم کے قیام کی راہ بھی ہموار کی اور بعد کے حالات شاہد ہیں کہ مسلم تحریک یکے بعددیگرے قدم بقدم معدو م ہوتی چلی گئی اور ہندو تحریک روز بروزپروان چڑھتی چلی گئی۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس مسلم یونیورسٹی کے قیام کی تحریک 1877میں شروع ہوئی اسے یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے قائم ہوتے ہوتے 1920تک 48سال کا وقت لگااور اس زمانے میں اس ایکٹ کی منظوری کی شرط 30لاکھ روپے نقد جمع کرنا بھی تھی جسے اس وقت کے مسلمانوں نے کسی صورت جمع کیا۔ جب کہ 1905میں کانگریسی اجلاس میں مجوزہ ہندویونیورسٹی محض نو سال کے عرصے میں 1914ء میں بنارس کی سرزمین پر وجود میں آگئی اور اگلے ہی سال 1915بلا کسی معاوضہ اس کا ایکٹ بھی پاس ہوگیا۔آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پاس محض 12سو ایکڑ زمین ہے جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے پاس ایک کیمپس میں 13سو ایکڑ زمین ہے اور دوسرے کیمپس میں بنارس سے ساٹھ کلو میٹر دور مرزا پور میں دوہزار سات سوایکڑ م مزید زمین موجود ہے۔
اس سارے پس منظر، تاریخ اور تقابل کی وجہ محض یہ سمجھاناہے کہ ملک میں ا پنے قیام سے لے کر اب تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہمیشہ متنازعہ رہنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی تحریک نے مسلم لیگ کے قیام کو مہمیزدی تھی۔ظاہر ہے کہ کانگریس سمیت تمام ہندو تحریکوں کو اس کا ازلی مخالف ہونا ہی چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادہندوستان میں بھی کانگریس نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وجود کو سیاسی مجبوریوں کے تحت ہی گوارہ کیا۔کانگریس جب غضب میں آئی تو اقلیتی کردار چھین لیا اور جب مجبور ہوئی تو آدھاادھورا اقلیتی کردار واپس کردیا۔یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اپنے شدید ترین مخالف سرسید کو ہندو احیاء پرستی کے علمبردار بھلاکیسے گوارا کرتے ۔وہی علمبردار کانگریس میں بھی ہمیشہ رہے ،ہندومہاسبھامیں بھی رہے، آر ایس ایس میں بھی رہے اور آج بی جے پی میں بھی موجود ہیں۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کی سب سے متنازعہ یونیورسٹی ہے اور مسلمانان ہند کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ تنازعہ نہ دستوری ہیں ، نہ قانونی ہیں اور نہ تکنیکی۔ بالکل اس تناعہ کی واحد وجہ سیاسی مخاصمت ہے۔ یونیورسٹی کے قیام سے لے کر آج تک اقتدارمسلم مخالفین کے ہاتھوں میں رہا ہے اور یہ مخالف ذہن ہمیشہ اپنی مخالفت کے لئے یونیورسٹی کو ڈھال بنا تا رہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کے وہ پڑھے لکھے اور دانشور قسم کے مسلمان جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنا کعبہ اور سرسید کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے اکثر بیشتر ہمیشہ ہی سرسید کے ازلی دشمن کانگریس کیگود میں بیٹھے رہے ہیں اور آج بھی بیٹھے ہیں اسی کے اشارے پر یہی لوگ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے ہمیشہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ہیں اور پھر خود ہی تحریک چلاتے رہے ہیں۔مسلمانان ہند کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ایشوز مسلم مخالف خیموں میں تیار کئے جاتے رہے اور وقتا فوقتاً یہ جماعتیں ان ایشوز کو مسلمانوں کے درمیان ڈالتی رہیں۔بابری مسجد ،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،اُردو اور یزرویشن وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو کانگریس اور بی جے پی جیسی جماعتوں نے خود پیدا کئے اور مسلمانوں کو انہیں مسائل میں گھیرے رکھا۔ اسی طرح مسلم قیادت بھی انہی جماعتوں کی پروردہ رہی ہے ۔گویا مسائل بھی وہی پیدا کرتے اور مسائل کے حل کرنے کے لیڈر بھی انہیں کے ہیں ، اور امت ہے کہ اپنے اصل مسائل کی جانب کبھی متوجہ نہ ہوسکی اور نہ ہی اپنے درمیان سے خود اپنے لیڈر پہچان سکی۔حالیہ واقعہ کے بعد بھی ایک تحریک ضرور اٹھے گی اور لمبے عرصے تک جاری رہے گی۔معاملہ عدالت میں بھی زیر التوا ہے ۔اپریل کے مہینے میں اس کی دوسری سنوائی بھی ہونی ہے ۔یونیورسٹی انتظامیہ نے مایہ ناز وکیلوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔وہ اپنے ماہرانہ اور پیشہ وارانہ فرائض یقینا انجام دیں گے۔عدالتی فیصلوں کا رخ الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے سے ہی سمجھ لینا چاہیئے۔ایسے میں ایک منظم تحریک کی ضرورت بھی ہے ۔ملک کی ہر مسلم تنظیم بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ بھی لے گی۔ملت کے تمام توجہات کا مرکز اب علیگڑھ کی تحریک ہوگی ۔لیکن اس تحریک کا فائدہ ایک بار پھر انہیں سیاسی جماعتوں کو ہوگا جنہوں نے اس مسئلے کو تازہ کیا ہے۔واضح رہے کہ 2017 میں اترپردیش کا اسمبلی کاانتخاب ہونے جارہا ہے ۔اس ریاست کا 18فیصد مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کے درمیان بٹ جاتا ہے اور جس کو زیادہ مسلم ووٹ مل جاتا ہے وہ حکومت سازی کرتا۔ اترپردیش میں کانگریس کو اب مسلم ووٹ نہیں ملتا۔ان دنوں جبکہ اترپردیش میں مسلمان سماج وادی پارٹی سے ناراض نظر آرہے ہیں اور یہ توقع ہے کہ یہ ووٹ بی ایس پی کی جانب چلا جائے گااور بی جے پی ایک بار پھر رام مندر کا مدعا اٹھانے کے باوجود ناکام ہوجائے گی۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کا تجربہ مسلمانوں کی سیاسی ترجیح کا اظہار کررہا ہے اور دلی سے لے کر مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات تک حکمراں بی جے پی ہر جگہ شکست کا سامناکررہی ہے ۔پے در پے شکست حکمراں ٹولے کو دو خیموں میں تقسیم کر چکی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔علیگڑھ کی تحریک اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ کانگریس کے پاس بھی مسلمانوں کو اپیل کرنے والا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے ۔علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کی تحریک کانگریس کی عروق مردہ میں لہوئے گرم رواں کر سکتی ہے۔ تحریک جتنی تیز چلے گی اتنی ہی تیزی سے مسلم ووٹ کانگریس کی جانب رخ کرے گا۔ اور سماج وادی اور بی ایس پی سے علیحدہ ہوجائے گا۔کانگریس کے پاس دوسرا کوئی ووٹ ابھی اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ چنانچہ مسلم ووٹ کو کانگریس کی جھولی میں ڈال کر بے اثر کردینا سب سے زیادہ مفید حکمت عملی ہوسکتی ہے۔2013دہلی اسمبلی انتخابات کا تجربہ سامنے ہے۔اس حکمت عملی کے ذریعے سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس تینوں کو شکست دے کر بنافرقہ وارانہ کارڈ کھیلے بی جے پی اقتدار میں پہنچنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ بہار کا مہا گٹھ بندھن یوپی میں بھی کانگریس کی قیادت میں سرگرم ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔اگر ایسا ہوا تو بہار میں جیتنے والا یہ گٹھ بندھن اترپردیش میں بی جے پی کو جتانے والا گٹھ بندھن ثابت ہوگا۔کانگریس نے بہار میں بھی گٹھ بندھن سے فائدہ اٹھایا اور یوپی میں بھی فائدہ اٹھاسکتی ہے۔مگر اقتدار کی کنجی بی جے پی کے حوالے ضرور کردے گی۔ علیگڑھ تحریک کا تجزیہ مختلف گروپ مختلف زاویوں سے کریں گے۔ اس تجزیہ کے وقت اگر یہ سیاسی تجزیہ بھی پیش نظر رہے تو یہ طے کرنے میں مدد مل سکتی کہ ہمارے تحریک کے خط وخال کیا ہوں۔ ذمہ داران کو علیگڑھ یونیورسٹی کے قیام کا پورا پس منظراوریونیورسٹی کے ساتھ کانگریس کی دشمنی کو نہ صرف پیش نظر رکھنا ہوگا بلکہ عوامی طورپر اس تاریخ کی ترویج واشاعت بھی کرنی ہوگی تاکہ اس تحریک کے ذریعہ علیگڑھ مخالفین کو سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ا ور بی جے پی کی دوہری حکمت عملی کو بھی بے اثر کیا جا سکے ۔ آخیر میں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ علیگڑھ کے اقلیتی کردار کی آڑ میں خودحکومت ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔اسی لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جوہر یونیورسٹی جیسے اداروں کو زد میں لے لیا ہے۔نیز بی جے پی کے ترجمان اس حوالے سے میڈیا میں جو بحث کررہے ہیں اس سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ معاملہ صرف یونیورسٹیوں تک محدود رہنے والا نہیں ہے بلکہ ملک کے ہزاروں اقلیتی اسکول اور ادارے بھی بتدریج اس کی زد میں آنے والے ہیں۔بحث علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے شروع ہوئی ہے جو بڑھ کر دستور کی دفعہ 29اور 30تک جائے گی اور سرکاری امداد یافتہ تمام اداروں کو سیکولر حکومت کا نام لے کر حکومت کے زیرنگیں بنانے کی کوشش کی جائے گی۔آر ایس ا یس اور بی جے پی کی یہ منشا شروع سے ظاہر ہی رہی ہے مگر کانگریس بھی پس پردہ اس کی تائید میں رہی ہے محض سیاسی مجبوریوں کی بناپر اسے قبول کرتی رہی ہے۔
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24416 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More