اورنج ٹرین منصوبہ اور عوامی احتچاج

لاہور میں اورنج ٹرین منصوبے کی راہ میں جی پی او، شالا مار باغ ، چوبرجی، یتیم خانہ گرل کالج، رہاش گاہ نوابزادہ نصراللہ خان ،سمیت نجی پراپرٹی کے علاوہ قبرستان، مساجد، اور 30 سے زائد تاریخی عمارتیں اور ثقافتی ورثہ بھی مسمار ہو رہا ہے، جس کی وجہ شہری سراپا احتجاج ہیں لیکن کسی کو اس احتجاج اور ثقافتی ورثہ سے جذباتی وابستگی کی کوئی پرواہ نہیں۔

تفصیلات کے مطابق لاہور کا شمار پاکستان کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اور اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لاہور شہر عہد سلاطین اور برطانوی دور کی تاریخی نشانیوں سے بھرپور ہے. جن میں قابلِ ذکر اس دور میں تعمیر کی جانے والی شاندار عمارات ہیں- یہ خوبصورت عمارات کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں- لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی مالیت سے چین کی معاونت کے ساتھ شروع کیا جانے والا پنجاب حکومت کا اورنج ٹرین منصوبہ متنازعہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس منصوبے کے مخالفین کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت اس منصوبے کے حوالے سے ماحولیات، تعمیرات اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے تحفظات کوبھی نظر انداز کر رہی ہے۔ پاکستان کے پہلے ماس ٹرانزٹ ٹرین منصوبے کے تحت پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اورنج میٹرو ٹرین کے لیے 27کلو میٹر لمبا ٹریک تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹرین علی ٹاؤن سے شروع ہو کر ٹھوکر نیاز بیگ، کینال ویو اور سمن آباد سے ہوتی ہوئی چوبرجی، انارکلی، ریلوے اسٹیشن، اور باغبانپورہ سے گزرتے ہوئے ڈیرہ گجراں پہنچے گی۔ دو طرفہ ٹریک پر چلنے والی اس ٹرین سروس سے روزانہ اڑھائی لاکھ مسافر مستفید ہوں گے اور یہ منصوبہ جون 2017ءتک مکمل کر لیا جائے گا۔

ٹرین شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا فاصلہ چالیس منٹ میں طے کرے گی۔ پاکستان دنیا کا اکتیسواں ملک ہے جہاں پر اس طرح کی میٹرو ٹرین شہریوں کو ملنے والی ہے۔اس منصوبے کے لیے بنائے جانے والے مجوزہ ٹریک کی زد بہت سی نجی پراپرٹی کے علاوہ قبرستان، مساجد، اور تاریخی عمارتیں بھی آ رہی ہیں جن کو مسمار کیا جائے گا۔ کچھ شہریوں نے اس منصوبے کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ اس منصوبے کی راہ میں جی پی او، شالا مار باغ اور چوبرجی سمیت دو درجن سے زائد تاریخی عمارات بھی آ رہی ہیں

ممتاز وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت نے زمین حاصل کیے بغیر ہی اس منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت زمین کے حصول کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی: ”اس منصوبے کی راہ میں جی پی او، شالا مار باغ اور چوبرجی سمیت دو درجن سے زائد تاریخی عمارات بھی آ رہی ہیں۔ قوانین کے مطابق اس طرح کے منصوبوں کو تاریخی مقامات سے کم از کم دو سو فٹ کے فاصلے پر رکھا جانا چاہیے لیکن اس ٹرین کا ٹریک تاریخی عمارات کے بہت قریب سے گزر رہا ہے۔“

عالمی ادارے یونیسکو نے بھی پنجاب حکومت کے نام لکھے گئے اپنے متعدد خطوط میں اس منصوبے کی زد میں آنے والی تاریخی عمارات کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ منصوبہ حکومت کی غلط ترجیحات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے بقول لاہور میں 60 فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں،لاکھوں بچے معیاری سرکاری اسکولوں سے محروم ہیں، شہریوں کی بڑی تعداد صحت کی سہولتوں سے محروم ہے لیکن حکومت اپنے سیاسی فائدوں کے لیے ایسے منصوبوں پر کثیر رقوم خرچ کر کے قومی وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔ ان کے بقول اس منصوبے کے لیے نہ تو صوبائی بجٹ میں رقم رکھی گئی تھی اور نہ ہی حکومت نے اس منصوبے پر پنجاب اسمبلی کو اعتماد میں لیا ہے۔

میاں محمودالرشید نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت میٹرو بسوں کی طرح اس منصوبے کے لیے بھی دیگر محکموں کے لیے مختص رقوم استعمال کرے گی۔

پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ اس منصوبے میں سطح زمین سے اوپر اور انڈر گراونڈ راستوں کا جوجال تجویز کیا گیا ہے اس سے عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے شالامار باغ سمیت 30 سے زائد تاریخی مقامات کے مستقبل کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

کمیشن کے بقول مغلیہ دور کے اہم شہر لاہور کا عمارتی اور ثقافتی ورثہ ملک کا اقتصادی اثاثہ بھی ہے اور شہریوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بھی۔ کمیشن نے اس منصوبے کے تعمیراتی پلان پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ طرز تعمیر سے ان تمام چیزوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا جن کی وجہ سے آج لاہور، لاہور ہے۔

ادھر پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروائی ہے کہ اس منصوبے سے تاریخی عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ان کے بقول اس منصوبے سے عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولت میسر آئے گی۔

اس منصوبے کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر اٹھائے جانے والے بیشتر اعتراضات درست نہیں ہیں۔ ترجمان کے بقول ٹرین کے گزرنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کی شدت اتنی کم ہو گی کہ اس سے ارد گرد کی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخی عمارتوں کو بچانے کے لیے منصوبے کے ڈیزائن میں ضروری تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر چوبرجی کو بچانے کے لیئے ٹرین کے راستے کو خم دے کر گزارا جائے گا۔

لاہور میں اورنج ٹرین منصوبے کی راہ میں جی پی او، شالا مار باغ ، چوبرجی ،یتیم خانہ گرل کالج، نوابزادہ نصراللہ خان رہاش گاہ،سمت نجی۔ پراپرٹی کے علاوہ قبرستان، مساجد، اور30 سے زائد تاریخی عمارتیں بھی مسمارہو رہی ہیں،جس کی وجہ شہری سراپہ احتجاج ہیں۔

نوابزادہ نصراللہ خان لاہورمیں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرایہ کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹےسے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آتے۔ اپنے پچپن سال کے سیاسی کیریر میں نصراللہ خان عوام کے مقبول رہنما تو شاید نہیں بن سکے لیکن وہ رہنماؤں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا ، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کے بجاے اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا۔ انھو ں نے انیس سو تینتیس میں طالب علم کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔

احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد نصراللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے اور انھوں نے انیس سو اکیاون کے صوبائی انتخابات میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصراللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔

لاہور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ لاہور کی عمارتیں اور ثقافتی ورثہ ملک کا اقتصادی اثاثہ جات ہیں ہم ان کو مسمار نہیں ہونے دینگے۔
جاوید اقبال بھٹی
About the Author: جاوید اقبال بھٹی Read More Articles by جاوید اقبال بھٹی: 184 Articles with 211057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.