گذشتہ سال ایران کے ارب پتی تاجر مہا فرید امیر خسروی نے ایرانی بنک میں
فراڈ کے ذریعے ایک بنک سے 2ارب 60کروڑ قرض لیکر حکومت کے بعض کمپنیوں سمیت
دیگر ادارے خریدے الزام ثابت ہونے پر مہا فرید اور دیگر تین ساتھیوں کو
سزائے موت سنا دی گئی ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای کی جانب
سے سز کی توثیق کے بعد مہا فرید کو سزا سنا دی گئی۔ واضح رہے کہ ایران دنیا
کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کرپشن کی سز ا موت ہے۔ چین کے بعد ایران
میں سزائے موت پر سب سے زیادہ عمل در آمد کیا جاتا ہے۔اسی طرح جون 2009میں
امریکہ کی ایک عدالت نے 65ارب ڈالر کے مالیاتی فراڈ کے سرغنے برنارڈ میڈاف
کو 150 قید کی سنائی۔ امریکی مالیاتی بحران کے فراڈ میں سرمایہ کاروں کو
تقریباََ۔ 50ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ برنارڈ میڈاف انوسٹمنٹ سیکورٹی کے نام
سے ایک فرم بنائی ہوئی تھی جبکہ ہچ فنڈ کے نام سے علیحدہ بھی ایک کاروبار
شروع کیا ہوا تھا ۔اسی طرح بھارتی نژاد امریکی اٹارنی پریت بھریرا نے وال
سٹریٹ میں کمپنیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کے مالیاتی فراڈ کے متعدد مقدمات
میں عالمی شہرت حاصل کی اور کسی بھی کیس میں ناکام نہیں ہوئے۔ ’پریت بھریرا
‘نے ایسے بڑے مالیاتی فراڈ پکڑے ہیں جن میں ملوث کمپنیوں کے عہدے داروں کو
11سال قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں بھی سنائیں گئیں۔2001ء میں انٹر نیٹ
اسٹاک کا بلبلہ پھٹا کیونکہ ان کمپنیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا
حالاں کہ بنک جانتے تھے کہ وہ کمپنیاں ناکام ہونگی ، اس کے نتیجے میں
سرمایہ کاروں کو 5ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔
2008ء میں پانچ بڑے بنک ڈوبے ، گولڈ مین سیکس اور مارگن سٹینلے کو امریکی
حکومت نے بیل آؤٹ کیا ، لہمین برادرر نے عدالت سے دیوالیہ پن حاصل کیا ،
میرل لنچ اور بیر سٹرن کو اونے پونے دام فروخت کردیا گیاان اداروں پر کل
ملا کر 4000ارب ڈالر کے قرضے تھے۔ اس بحران کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ بنکوں
نے رہن اور قرض کا عجیب و غریب پیکچ بنا کر اسے Collareralized Debt
Obligation کا نام دیا گیا جسے مختصراََ CDOsکہتے ہیں ، ریٹنگ ایجنسیاں
اعلی ترین ٓٓٓAAA ریٹنگ دیتی تھیں جس سے ان کی قیمت آسمان پر پہنچ جاتی تھی
اور عوام انہیں بینکوں سے مہنگے داموں خرید لیتے تھے ، کچھ ہی دنوں بعد
بینکوں نے اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے دیا اور عوام کے اربوں ڈالر ڈوب
گئے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ دیوالیہ ہونے کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز اور ان کے
من پسند ڈائیریکٹر ز کو اربوں ڈالر بونس ملا ، بڑے بینکوں کے اقتدار میں
اضافہ ہوا۔لیکن ہزاروں امریکی فیکڑی ملازمین کو فارغ کردیا گیا ۔
John Prekins نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام Confession of an Economic
Hitman ہے 2004میں شائع ہوئی تھی جان پر کنز بوسٹن میں Chas.T.Main نامی
کنسلٹنگ کمپنی میں کام کرتا تھا تھا ۔ پر کنزز کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر
ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماؤں کو جھانسہ دیکر ترقیاتی کاموں کیلئے
عالمی بنک اور ہو ایس ایڈ کے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کیا جاتا تھا اور
جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو انہیں مختلف ملکی
امور میں مجبوراََ امریکی سیاسی دباؤ قبول کرنا پڑتا تھا۔میڈیا بھی مالیاتی
بحران کا شکار رہا جسکی اہم وکچھ ایسی پالیسیا ں تھی جس کے سبب ان کا زوال
ہوا ۔ مثال کے طور پریونان میں بحران کا پہلا شکار ہونے والا اخبار ایتھنز
کا قدامت پسند روزنامہ Apogevmatini تھا جس نے2010ء میں اپنے دیوالیہ پن کا
اعلان کرتے ہوئے اپنی اشاعت بند کردی تھی۔ پھر یونان کا ایک اور بڑا اخبار
Eleftherotypia بھی مالی مشکلات کے سبب بند ہوا۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی
کے سبب ایک نجی چینل آلٹر نے بھی اپنی نشریات بند کردیں ۔ اسی طرح جنوبی
یورپ کے اس ملک کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور وہاں ذرائع
ابلاغ کے بہت سے ادارے جن میں سو سے زائد مقامی ٹیلی وژن اور تیس ریڈیو
اسٹیشن ہیں۔ مستقل طور پر بند ہونے لگے ہیں۔امریکی حکومت نے جب مالیاتی
بحران میں بڑے بڑے بنکوں اور سرمایہ کاروں کے خلاف کاروائی کی تو وال
اسٹریٹ کے چیف ایگزیکٹوز قانون کی دسترس سے باہر رہے۔ مالیاتی بحران کے اہم
ترین افراد میں کنٹری ، وائیڈ کاسی ای او ، ینجلوموزیلو بھی قانون کی گرفت
سے بچے رہے۔
اب موضوع کو سمٹتے ہوئے ایک ایسے فراڈ کا ذکر کرتے ہیں جسے امریکی ملکی
تاریخ کا سب سے بڑا ایسا مالیاتی فراڈ قرار دیا جس نے انسانیت کو ہلا دیا
تھا ۔ عملی زندگی سے معذور و ریٹائر ہونے والے افراد کے بجائے ان افراد کو
پنیشن فراڈ سے ایک بلین ڈالر کا فراڈ کیا گیا جو بالکل صحت مندتھے اور
سہولیات و فوائد حاصل کرتے رہے۔ 11ملزمان نے لانگ آئی ریل روڈ یا LIRRنامی
کے سابقہ ملازمین نے اس ادارے اور پینشن فنڈ کو بے تحاشا نقصان پہنچایا۔کچھ
اسی طرح کراچی میں ایک مذہبی ادارے کے نام پر مذہب کی آڑ لیکر اربوں روپوں
کا فراڈ کیا گیا۔ان تمام مختصراَ تہمید کے مقاصد میں یہ ظاہر کرنا مقصود
تھا کہ فراڈ و جعلسازی کیلئے کوئی حد و قیود مقرر نہیں ہے جعلساز فرد اپنی
قابلیت کا فائدہ اٹھا کر کسی بھی نوع کا فراڈ کرسکتا ہے اس کے نزدیک جلد از
جلد رقوم کا حصول ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ کاغذی طور ، اشتہارات کے ذریعے
عوام کو بے وقوف بناتا ہے کہ عوام اس کے پر فریب جھانسے میں آجاتی ہے اور
قیمتی متاع سے محروم ہوجاتی ہے ، امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک
مالیاتی فراڈ کے نت نئے منصوبہ سازوں سے بھرا پڑا ہے۔
پاکستان کی بھی ایک کمپنی ایگزیٹ نے بھی مبینہ طور پر کچھ اقدمات کئے جس کی
وجہ سے پاکستان میڈیا بھی بحران کا شکار ہوا۔ جو ابلاغ کے مطابق تین دو سو
مزید جعلی کمپنیاں پر ایف آئی اے کام کر رہی ہے ، حقیقی حقائق کب سامنے
آئیں گے ۔ شائد ہی اصل حقایق سامنے آسکیں۔بالا سطور میں چند بڑے مالیاتی
ادارے ، عالمی اخبار دیگر حوالے جات دینے کا مقصد یہی ہے کہ چند افراد کے
فراڈ کھیل کی بنا پر اربوں ڈالرز کے فراڈ سے متاثرہ ہزاروں نہیں بلکہ
لاکھوں تھے ، جو ان کے عمل کی وجہ سے بے روزگار ہوئے اور ہو سکتا ہے کہ ان
ملازمین کو آج تک فراڈ کمپنیوں کی وجہ سے نئی ملازمتیں ملنے میں دشواریوں
کا سامنا رہاہو۔ پاکستان میں لاتعداد ایسی فیکٹریاں ہیں جہاں ملازمیں کے
ساتھ مالی استحصال ہوتا ہے ۔ غریب مزدور کیساتھ ہونے والی نا انصافیوں سے
کون واقف نہیں ہے ۔ جبری مشقت لینے والے جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے خلاف
احتجاج کرنا چاہیے دنیا بھر میں مالیاتی فراڈ ، جعلسازیوں سے لاکھوں افراد
بے روزگار ہوجاتے ہیں اور قیمتی مال و دولت سے محروم ہوجاتے ہیں نج کاریوں
کے سبب اکثر وہ ملازمین بے روزگار ہوجاتے ہیں ، جن کی ملازمتیں مستقل نہیں
ہوتیں ۔ عارضی ملازمتوں پر رکھنے جانے ورکرز جب بھی حکومت یا فیکٹری کی
مرضی پر منحصر ہو ، بے روزگار کردیئے جاتے ہیں۔ ملازمتوں کیلئے رشوت ،سمیت
جو بن پڑتا ہے ، مجبور انسان کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے۔ حکومت کا فرض یہ
بنتا ہے کہ وہ ایسے اداروں کی سختی سے نگرانی کریں ، جو سوشل سیکورٹی
قوانین پر عمل در آمد نہیں کرتے۔ایسے نام نہاد اداروں کی اسکروٹنی کو یقینی
بنائیں جو مالیاتی اسکینڈل میں ملو ث ہوکر خاندانوں کو تباہ کردیتے ہیں۔
ہمیں احتساب کے لئے اپنے آپ کو ماڈل بنانا ہوگا ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں
کوئی بھی سرکاری ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے ، اس لئے اس کے ملازمین بھی
کرپشن کو پانا جائز حق سمجھتے ہیں ، لیکن اس کے نتائج کس قدر ہوش ربا ہوتے
ہیں ، یہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پتہ چلتا ہے۔ دنیا بھر میں مالیاتی فراڈ
میں ایک کارکن ، ملازم ہی گرفت میں آتا ہے لیکن جب ایان علی جیسے کردار
سامنے آتے ہیں کہ مہینوں گذرنے کے باوجود منی لانڈرنگ و اسمگلنگ کا فیصلہ
نہیں ہوپاتا بلکہ تفتیشی آفسیر تک کو قتل کردیا جاتا ہے تو اس کے بعد انصاف
کیلئے کسی غریب کو ہی نہیں بلکہ اس پورے سسٹم میں رہنے والوں کو خود سے ،
اپنوں سے ، پراؤں سے فراڈ کرنا پڑتے ہیں کیونکہ سسٹم ہی یہی ہے۔ پاکستان کے
بڑے کنسٹرکشن آئیکون کا برملا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی کام کرپشن کے
بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے ثابت کیا اور چیلنج کیا ہے اور یہ بات سو
فیصد درست ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں فراڈ سے لیکر کسی بھی قسم کی
بد عنوانی کی بڑی جڑ کرپشن ہے۔ جو ہمارا کلچر بن گیا ہے۔ |