استحقاق سے استثناء اور بریّت تک۔ ۔ ۔ ۔

 سوئس کیسیز پر عمل درآمد اور حکومتی گریز پائی

لو جناب.....بالآخر وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس (ر) عاقل مرزا نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، گو کہ انہوں نے اپنی خرابی صحت کو وجہ استعفیٰ بتایا ہے، تاہم ذرائع کہتے ہیں وزارت قانون سے اُن کے اختلافات چل رہے تھے اور انہیں این آر او کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومتی مؤقف سے اختلاف تھا، جس کے باعث انہوں نے سپریم کورٹ کے موڈ کو دیکھتے ہوئے شرمندگی سے بچنے کیلئے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا، واضح رہے کہ جسٹس( ر)عاقل مرزا دوسرے سیکریٹری قانون ہیں، جنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے، انہیں23 دسمبر2009ء کو وفاقی سیکریٹری قانون تعینات کیا گیا تھا، اُن سے قبل جسٹس (ر) ریاض کیانی بھی اپنے سے عہدے ہٹائے جا چکے ہیں، جبکہ این آر او پر فیصلہ آنے کے بعد حکومت سے اختلافات کے باعث سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان (جنہوں نے وزیر قانون بابر اعوان کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا) اور وزارت قانون کے جوائنٹ سیکرٹری اکبر خان اچکزئی بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں، اِس طرح موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں اب تک 2 وفاقی سیکرٹری برائے قانون اور 3 اٹارنی جنرل اپنے عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں، جبکہ این آر او سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے روشنی میں چیئرمین نیب نوید احسن اور پراسیکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

جمعرات کے روز نئے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے مستعفی ہونے والے سیکریٹری قانون عاقل مرزا کی جانب این آر او پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومتی مؤقف پیش کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ این آر او پر عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سوئس مقدمات دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے حکومت نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا، عدالت میں پیش کیے گئے اِس تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ چونکہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات ختم ہوچکے ہیں، لہٰذا اِن مقدمات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے خط وکتابت کا کوئی جواز نہیں ہے، سپریم کورٹ نے اِس بیان پر قومی احتساب بیورو کے چیئرمین اور سبکدوش ہونے والے سیکرٹری قانون عاقل مرزا کو13 مئی کو عدالت میں طلب کیا تھا، لیکن وفاقی سیکرٹری قانون نے اِس سے قبل ہی استعفیٰ دے کر ثابت کردیا کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے بدعنوانوں کا زیادہ دیر دفاع کرنے کے قابل نہیں تھے۔

قارئین محترم آپ کو یاد ہوگا کہ 16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے این آر او کے متنازعہ قانون کے خاتمے اور اس قانون کے تحت تمام مقدمات کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی کے لیے دوبارہ خط لکھے، عدالت عظمیٰ نے سابق اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک قیوم کو بھی سخت سرزنش کرتے ہوئے اُن کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی تھی، جنہوں نے سوئس عدالتوں میں آصف زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے کے لیے خط لکھا تھا، لیکن حکومت کی جانب سے بار بار یقین دہانیوں کے باوجود عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا، لہٰذا فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے کے لئے عدالت عظمیٰ نے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بنچ تشکیل دے رکھا ہے، یہاں یہ اَمر بھی قابل توجہ ہے کہ نیب دستاویزات کے مطابق آصف زرداری کے خلاف بیرون ملک ڈیڑھ ارب ڈالر کے اثاثوں اور پاکستان میں 22 ارب روپے کی بدعنوانی کے مقدمات قائم تھے، جو این آر او کے تحت ختم کردیے گئے تھے، واضح رہے کہ جس وقت یہ مقدمات قائم ہوئے تھے آصف زرداری اُس وقت صدر نہیں تھے، لیکن جب سپریم کورٹ نے این آر او کو غیر قانونی قرار دیا تھا، آصف زرداری صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوچکے تھے، اِس لحاظ سے صدر کے استثنیٰ کا سوال اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جبکہ صدر مملکت آصف زرداری کے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمات کی بحالی کے سلسلے میں حکومت کا مسلسل یہ مؤقف تھا کہ صدر کو عدالت میں پیشی اور مقدمہ چلائے جانے سے استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اب حکومت نے واضح طور پر یہ مؤقف اختیار کرلیا ہے کہ سوئس عدالتوں میں آصف زرداری کے خلاف ختم شدہ مقدمات کو دوبارہ کھولے جانے کیلئے کسی قسم کی خط و کتاب کی ضرورت نہیں ہے، لیکن گزشتہ جمعرات کے روز اٹارنی جنرل نے جس انداز سے سابق سیکریٹری قانون کا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا، اُس کے بعد اداروں کے تصادم اور توہین عدالت کی کاروائی کے امکانا ت بھی پیدا ہوگئے ہیں اور یہ سوال مزید ابھر کر سامنے آگیا ہے کہ صدر آصف زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے کہ نہیں۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیری حربے اختیار کرنے اور بعد ازاں عدالتی حکم کو ماننے سے انکار کر کے حکومت ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس کا اختتام اندھی کھائی پر ہوتا ہے، پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب کسی حکومت نے سپریم کورٹ سے تصادم کی راہ اختیار کی تو انجام کار وہ حکومت ہی ختم ہوگئی، اِس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چلنے اور جانتے بوجھتے انگاروں سے کھیلنا شروع کر دیا ہے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری جن مشیروں کے رحم و کرم پر ہیں انہوں نے ہی صدر کو عدلیہ کے ساتھ تصادم کی راہ دکھائی ہے، یوں لگتا ہے کہ یہ مشیر اپنے آپ کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر کسی ایسی قوت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو صدر زرداری کو ایوان صدر سے باہر دیکھنا چاہتی ہے۔

دنیا بھر کے مہذب معاشروں کا اصول و قاعدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی حکومتی ذمہ دار پر کوئی الزام لگتا ہے، اِس سے قطع نظر کہ وہ الزام سچا ہے یا جھوٹا، اُس شخص کیلئے لازم ہوتا ہے کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو خود کو اُس ملک اور معاشرے میں رائج طریقہ کار کے مطابق بے گناہ ثابت کرے، محترم صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بھی کچھ اِسی قسم کا معاملہ ہے، سوئس اکاﺅنٹس میں اُن کے نام سے منسوب رقم کے حوالے سے پوری قوم اور عدلیہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ وہ کس طریقے سے حاصل کی گئی یا کمائی گئی ہے تو اُس کو عدالت اور قوم کے سامنے لانے میں کیا حرج ہے، لیکن جب صدر اور اُن کے رفقاء سوئس کیسز کو نہ کھولنے اور صدارتی استثناء کی بات کرتے ہیں تو ہر کس و ناکس کے ذہن میں یہ شک گزرتا ہے کہ شائد وہ دولت ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو صدر صاحب یہ بات عدالت کے روبرو کیوں ثابت نہیں کر دیتے کہ سوئس اکاؤنٹ میں موجود رقم اُن کی جائز کمائی سے حاصل کی گئی ہے، لیکن اگر اس کے برخلاف سوئس کیسز کے حوالے سے حکومت اور صدر کی گریز پائی یونہی چلتی رہی تو سوئس اکاﺅنٹس کے بارے میں لوگ یہی گمان کریں گے کہ ُان میں رکھی گئی رقم کرپشن اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔

اس موقع پر سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے اٹھایا گیا یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ”اگر سوئٹزر لینڈ کے اٹارنی جنرل یہ کہہ رہے ہیں کہ صد رآصف علی زرداری کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تحفظ حاصل ہے پھر بھی حکومت پاکستان کی جانب سے خط نہ لکھنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔“سابق اٹارنی جنرل کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے، ملک کے ادارے تب تک مضبوط نہیں ہوں گے جب تک تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام نہ کریں، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا نہ صرف توہین عدالت بلکہ عدالتی معاملات میں مداخلت بھی ہے، اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو عدالت خود عمل کرائے گی، جس سے شدید تصادم ہوگا، جبکہ سپریم کورٹ سے جھگڑا کرنے والا کبھی نہیں جیتا ہے، یہ درست ہے کہ پاکستانی آئین صدر پاکستان کو یہ استثنیٰ دیتا ہے، لیکن ہماری اسلامی روایات اور تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب حاکم وقت پر کوئی الزام لگا تو وہ مدعا علیہ کے طور پر مدعی کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس عمل سے نہ تو اُن کا استحقاق مجروح ہوا، نہ ہی انہوں کسی استثناء کا تقاضہ کیا اور نہ ہی یہ گواراکیا کہ منصب قضاء پر موجود قاضی الزامات سے باعزت بریّت تک عزت و احترام سے پیش آئے اور اُن کی حمایت، ہمدردی اور طرفداری کا مظاہرہ کرے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ اِس وقت عدلیہ جو عوامی تحریک کے نتیجے میں آزاد ہوئی ہے، اس بدقسمت قوم کی آخری اُمید اور سہارا ہے اور وہ عوامی و قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے مسائل پر مسلسل نوٹس لے رہی ہے، دوسری طرف مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی اور دہشت گردی کے ساتھ کرپشن اور حکومت کی بدترین طرزِ حکمرانی نے قومی بحران کی شدت میں اضافہ کردیا ہے، ان حالات میں وفاقی حکومت آئین و قانون اور اصول و قواعد سے مسلسل انحراف کے باوجود نوشتہ دیوار کو پڑھنے کے بجائے چند افراد کے مفادات کے تحفظ کیلئے سیاسی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہے، اِس صورتحال میں جمہوریت کی بقاء اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا سیاسی نعرہ بھی کچھ کام آتا دکھائی نہیں دے رہا، گو کہ صدر یا وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے ترجمان مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ میں اپنا قانونی مؤقف پیش کررہے ہیں اور عدلیہ سے ٹکراؤ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، لیکن حکومت اور حکومتی ذمہ داران کا طرز عمل اِن کے بیانات کی تصدیق نہیں کررہا ہے، حال یہ ہے کہ اب تو خود پیپلزپارٹی کے داخلی حلقوں میں بھی تنقید شروع ہوچکی ہے اور بغاوت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، اس کے باوجود عارضی طاقت و حکومت اور پس پردہ قوتوں کی پشت پناہی کے گھمنڈ میں مبتلا ارباب اقتدار کو اصل زمینی حقیقت سمجھ نہیں آرہی ہے اور وہ سیاسی حقیقت پسندی تحت فیصلے کرنے کے بجائے جان بوجھ کر محاذ آرائی کا ایسا راستہ اختیار کر رہے ہیں، جس کا انجام سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358216 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More