پھول اگر اب بھی نہ کھلیں تو قیامت ہوگی!!

ہندوستان کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں، جب دشمنوں کی ترکش سے نکلنے والے ہر تیر کا ہدف مسلمان ہی ہیں،تواب قائدینِ قوم وملت پرہندوستانی مسلمانوں کے ایمان اور ان کی عفت و عصمت کی حفاطت کی ذمہ داری پہلے سے کئی گنہ زیادہ بڑھ جاتی ہے اور یہ زخم کہیں ناسور نہ بن جائے، اس پرسنجید گی سے غوروفکر کرنا اور اس کے تدارک کے لیے کوئی پختہ لائحۂ عمل تیار کرنا اب ایک ناگزیر امر بن گیا ہے۔ہر روز جب صبح صبح اخبار کی شہ سرخیوں پر نظر پڑتی ہے، تو کسی مجبور اور غریب مسلمان بھائی اور بہن کے ناحق قتل اور ظالمانہ موت کی رُداد پڑھ کر آنکھیں پتھریا جاتی ہیں ، کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے، آواز لڑکھڑا جاتی ہے اور دل آہ بھر کر رک جاتا ہے ، بسا اوقات ان واقعات اور سانحوں کو پڑھ کر ایک دم سے ذہن ماؤف ہوجاتا ہے ، پھررفتہ رفتہ تاریخ ماضی کے گھونگھٹ اتارکر اسپین، بغداد، برما، شام اور فسطین میں ظلم وبربریت اور قہرمانیت کی داستان دہرانے لگتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں لاکھوں مسلم لعشوں کے انبار کے نیچے میں اپنی بے بسی اور لاچارگی کے آنسو بہا رہا ہوں ، اسی اثنا گم گشتہ نظریں ایک دم سے کئی دوسری سرخیوں سے ٹکراتی ہیں اور ملے جلے کرب والم کے کئی واقعات احساسات کے آئینے پر منعکس ہوجاتے ہیں ، آج ملک کی جو حالت ہے اس کو انگریزی دور سے تشبیہ دیناکوئی جھوٹ نہیں ہوگا کہ جس طرح انگریزوں نے چن چن کر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا،آج ان کے نمک خوار انہی کی یاد تازہ کررہے ہیں اور شاید یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ آ زادی کے بعد سے آج تک کی پوری تاریخ میں کوئی دن ایسا نہیں گذراہوگا، جب کسی نہ کسی بے قصور مسلمان کا خون نہ بہا ہو، حالیہ ہی میں گؤ کشی کو لے کر کتنے ہی مقامات پر فساد برپا کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں، کتنے ہی بے قصوروں کی جانوں سے کھیلواڑ کیا گیا اوراور کتنے ہی خانماں اجاڑ دیے گئے، حق تو یہ تھا کہ ان پر حکومت اور حکمرانوں کی طرف سے مذمتی بیانات دیے جاتے، مگر افسوس کہ حکومت کے پالتو کتوں نے عجیب طرح طرح کے بھونڈا، غیر فطری اور انسانیت سوز بیان دے کرمسلمانوں کے زخموں کو مزید کریدنے کی جاہلانہ اور بچکانہ سعی کی، ایسے زہرگداز حالات میں ہندوستان کا ہر دن مسلمانوں کے لیے ایک کھلا ہوا چیلینج بن گیا ہے ، یوں لگتا ہے کہ کوئی اکھاڑے میں کھڑا مسلمانوں کو دعوتِ مبارزت دے رہا ہو اور پھر کوئی اپنا مقابل نہ پاکر وہ فخرو غرور سے اپنی چھاتی تان کر یہ کہ رہا ہو کہ تم سب مسلمان بز دل ہو ، تم میں کوئی ایسا نہیں جو میرا مقابلہ کرسکے ؛ حقیقت یہ ہے کہ ہماری بے حسی ہی ہماری بے بسی بن گئی ہے، ہم ٹکڑوں اور گرہوں میں منقسم ہوکر اپنی طاقت کھو بیٹھے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ان تمام فکری اور اجتہادی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کسی ایک جھنڈا کے نیچے جمع ہوجا ئیں، اگر یہ ناممکن لگے، تو کم زا کم ایک اللہ، ایک کلمہ، رسول ایک اور کتاب ایک، انہی سب کو بنیاد بناکر اپنی اپنی جگہوں میں بلا کسی پر تنقید اور لعن و طعن کے اپنی جماعت کو متحد کرنے کی کوشش کریں اور پھر اللہ کے واسطے تمام قائدین امتِ متحدہ نہ سہی، اپنی ہی جماعت کی حفاظت کے لیے کوئی پیش رفت کریں، عام و خاص مسلمانوں کے اندر بیداری مہم چلائیں اور ان کو وقت اور حالات سے مکمل نبردآزماہونے کا درس دیں اور سب سے بڑی بات کہ ان کے لیے لائسنسی اسلحوں کی حصولیابی کی سبیل پیدا کریں ، ہر گاؤں میں کسی ایک کو جو کچھ سمجھدار ہو اس کا ذمہ دار بنایا جائے ، پھر ایک کو ایک تھانہ میں جتنے گاؤں ہیں ان سب کا ذمہ دار اور نگراں مقرر کریں ، پھر ان سب تھانہ داروں کا ضلعی سطح پر ایک ذمہ دار ہو اور ہر ضلع میں ایسے چار ذمہ دار ہوں اور ان میں سے کوئی ایک صوبائی سطح پر ان کی نمائندگی کرے، اسی طرح ہر صوبہ کا ایک ذمہ دار ہو اور وہ اپنی جماعت کے قائدین تک مسلسل تفصیلات پہنچاتا رہے،پھر ان تمام اربابِ حل وعقد اور قائدین قوم وملت پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ اپنی جماعت اور عام مسلمانوں کے دین اور آبرو کی حفاظت اور اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر ایک دوسرے سے مصالحت کرلیں اور پھر بلا تفریقِ ذات پات اور مکتبۂ فکرونظر عمومی سطح پر مسلم بیداری مہم شروع کریں ، اس سے جہاں قومِ مسلم بیدار اور اپنی ذمہ داریوں کے تیئیں حساس ہوگی، وہیں یہ ملک جس کی آزادی کی خاطر ہمارے آبا نے سر کٹانا تسلیم تو کرلیا، مگر سر خم نہیں کیا ، آج بھی جب اس ملک پر آرایس ایس اور بجرنگیوں کا ناجائز تسلط ہوگیا ہے جو اس کی مٹی کو پلید کرنا چاہتے ہیں، تو ان کے یہ جانشیں ان شاء اللہ ان ٹڈی دلوں کا قصہ پاک کرنے میں ذرہ برابر بھی دریغ نہیں کریں گے اور جب ہماری صفوں میں بیداری ہوگی اور ہمارے جذبات ملک وملت کے تعلق سے وا ہوجائیں گے، توآر ایس ایس اور بجرنگ دل کی وہ بے دم فوج جو کبھی مہاراشٹرا میں ،تو کبھی یوپی میں اور نہ جانے کہاں کہاں ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اور حالیہ جمو میں ہاف پینٹ اور اسلحہ جات کے ساتھ مارچ کرتے نظر آئے اور اپنی بے سُر مکروہ آواز سے شیروں کو جگانے کی ناکام کوشش کی،ایک دم سے ان کی ہوا اکھڑ جائے گی اورہمیشہ کے لیے انہیں یہ صدمہ لگا رہے گا کہ وہ کس شیر کو جگانے چلے تھے اورملک ووطن اور قومی دشمنی کا کیا صلہ ملتا ہے۔ملک کی حفاظت ہمارا دینی اور مدنی فریضہ ہے اور جب معاشرے میں پاگل کتوں کی افراط ہوجائے، تو اس قوم اور وہاں کے باشندوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس کے اثر کو کم کر دے ،تاکہ اس کا زہر کسی کے لیے مہلک نہ بن جائے اور اسلام نے نظافت کی تعلیم تو دی ہی ہے اور بحمدللہ مسلمانوں نے جس طرح ماضی میں اپنی بہترین تاریخ رقم کی ان شاء اللہ حال اور مستقبل میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو بحسن خوبی انجام دیتے رہیں گے اور تاریخ گواہ رہی ہے کہ جب جب ہندوستان کی تشکیلِ نو ہوئی، تو انہوں نے اس کو اپنے خون جگر سے سینچا اور آج بھی اس ملک کا ہر مسلمان اپنے ملک کی آن بان اور شان کے لیے ہتھیلی پر اپنی جان لیے گھو م رہاہے اور صرف جان ہی کیا مال وزر سے بھی بارہا مسلمانوں اس کے گیسوئے برہم کو سنوارا ہے ، چنانچہ ایک مرتبہ جب وطنِ عزیز مالی بحران کا شکار ہوا، تو اسی قوم کے ا یک سپوت نواب دکن نے پانچ سو ٹن سے زائد سونا کا نذرانہ پیش کرکے اپنی حب الوطنی کا عظیم ثبوت پیش کیا ، ہندوستان کی پوری تاریخ میں مسلمانوں کے علاوہ کبھی بھی کسی بھی برادری اور ذات کے لوگوں نے وطن کی خاطر اتنی خطیر رقم کا تعاون نہیں کیا اورآج یہ’’پدی پدی کے شوربے‘‘اور ’’عشق کے ٹیں ٹیں زر ندارد‘‘ چلے ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر شبہ کرنے اور ان کا چراغ گُل کرنے شاید نہیں جانتے کہ
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تاہم حالات کی نزاکت اور اس کی سنگینی اب مزید ہمیں غفلت میں پڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتی ، بمقتضائے مثلِ مشہور’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘اب ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک وملت کی حفاظت کے لیے صف بستہ ہوجائیں، ابی بن ابی سلول اور میر جعفر جیسوں کی صف میں موجودگی کی بالکل بھی پرواہ نہ کریں ، گو ان سے ملت کا نقصان ضرور ہوا ہے، تاہم ہر مخلص جماعت میں ایسے ضمیر فروش اور غدار وں کا ہونا بھی ایک پرانی ریت رہی ہے اور قلت کبھی بھی ہمارے لیے مسئلہ نہیں رہا، ہم تو ہر میدان میں باطل سے انتہائی کم تعداد میں رہے ہیں،اس دکھ بھری رداد اور پورے ملک میں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کو جاننے کے باوجود بھی اگر ہم اکٹھا نہیں ہوئے اور صرف تماشہ بیں کی طرح نظارہ ہی دیکھتے رہے، تو وہ دن دور بھی نہیں جب آگ ہمارے گھروں پر بھی شعلۂ جوالہ بن کر پھوٹے گی اور ہم صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے اورمسلمانوں کی بدحالی اور اس کی لاچارگی کی جو تاریخ اسپین ، عراق وشام ، فسلطین وبرما میں رقم ہوئی ہماری تاریخ بھی ان سے کو ئی مختلف نہیں ہوگی ، البتہ تاریخ لکھنے والے اپنی داستان لکھتے لکھتے ہمیں ضمیر فروش اور بز دل ضرور لکھ دیں گے...
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.