گزشتہ دودہائیوں سے ہم دہشت گردی کے
لاتعدادواقعات وسانحات کو برداشت کررہے ہیں۔مگر اب تعلیمی ادارے دہشت گردوں
کی لسٹ میں سرفہرست نظرآتے ہیں ۔دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں،کوئی مذہب
نہیں،وہ نہ تو عبادت گاہوں کو معاف کرتے ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات
کو۔مگراصل بات یہ ہے کہ طلبہ سافٹ ٹارگٹ ہیں حملے سے زیادہ دہشت پھیلتی ہے
اور دہشت گرد یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خلاف ہرقسم کی کارروائیوں
کے بعد بھی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ کہیں بھی کسی بھی جگہ دہشت پھیلا
سکتے ہیں۔
دہشت گردوں کا نظریہ تخریبی کارروائیوں سے ملک کو کمزور کرنے کے لئے معاشرے
میں دہشت،خوف، بدامنی،افراتفری اور خانہ جنگی کی صورتحال پیداکرنا ہے مگر
اب ان کے نظریے میں ایک امر شدت سے سامنے آیا ہے کہ وہ تعلیم کے بھی دشمن
ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں متعدد تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں نے
نشانہ بنایا جن میں گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک سکول اور حال ہی میں
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبرپختونخوا میں براہ راست حملہ شامل میں
ہے۔ملا لہ یوسف زئی سے لے کر باچا خان یونیورسٹی پر حملہ میں دہشت گردوں کی
بدترین کارروائیوں سے یہ اندازہ لگانا بالکل آسان ہے کہ سماج دشمن عناصر
معاشرے کو تعلیم یافتہ دیکھنے کی بجائے جہالت اور گمراہی کی تاریک راستوں
میں گم کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی اداروں پر سفاکانہ حملے اور معصوم طلباء
طالبات واساتذہ کو شہادت دینے سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم جو
انسانی اقدار واخلاق اور کردار میں بھلائی،بہتری اور ترقی کا احساس
پیداکرتی ہے۔پھر معاشرے کی خوبصورتی اور ملکی ترقی میں بنیادی کردار کی
حامل ہے ۔اس لئے دہشت گرد اس کو کچلنا چاہتے ہیں۔دہشت گرد اس احساس ،اس
جذبے کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔پاک فوج آپریشن ضرب عضب میں ایک مثالی حکمت
عملی سے آگے بڑھ رہی ہے۔جنرل راحیل شریف کی سپہ سالاری میں ہمارے جوان دنیا
کی سب سے بڑی جنگ میں سینہ سپر ہیں۔مگر ہمیں ابھی اس حوالے سے مزید کام
کرنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے مرتب ہونے میں تقریباً تمام سیاسی، عسکری قوتیں ایک صف
میں تھیں اور پوری قوم کی حمایت بھی انہیں میسر رہی لیکن نیشنل ایکشن پلان
کے ابتدائی ڈرافٹ پرصرف جمع خرچی اور پوائنٹ سکورنگ کی بجائے حقیقی اور
عملی اقدامات اٹھانے کی ابھی بھی ضرورت ہے۔اس حوالے سے اگر مناسب سمجھا
جائے توحکومت کو ازسرنو ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی وسماجی جماعتوں کوایک
میز پر بلانا چاہیے اور تمام تر باہمی اختلافات ومسائل کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے دل سے ایک ایجنڈے پر متفق ہونا چاہیے کہ ہم سب نے مل کر دہشت گردی کے
اس ناسور کو ختم کرنا ہے ۔اس حوالے سے ہر قسم کے دباؤ واعتراضات کو ختم
کرنے میں حکومت وقت کو خندہ پیشانی سے اپنا ریاستی کردارادا کرنا چاہیے۔اس
کے ساتھ ہمیں ان عناصر پر بھی اپنی کڑی نظریں فوکس کرنے کی ضرورت ہے جو کسی
نہ کسی سطح پر تشددپسندانہ رویوں اور عدم توازن صورتحال پیدا کرنے کا سبب
بن رہے ہیں۔اور یہ کارروائی بلاامتیازوموثر ہونی چاہیے۔ ہمیں سیاسی طور پر
ہم آہنگی اور از سرنو پلان مرتب کرنے اورکہاں کہاں خامیاں ہیں ، اس پر نئے
سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سافٹ ٹارگٹ سے معاشرے میں زیادہ دہشت
پھیلتی ہے اور یہی دہشت گردوں کا ہدف ہے۔سیاسی طورپر ہم آہنگی اور سب کو آن
بورڈ ہونے کی بہت ضرورت ہے۔ |