اندھے قانون کی اندھی پولیس (قسط نمبر4)

پولیس کو ٹھیک کرنے اور اسکی اصلاح کے لئے سو طریقے آزمائے جا چکے ہوں گے لیکن ناکا می سی ناکامی ہے ۔۔۔۔۔اور اس کی کارکردگی پرمستقل سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ،پنجاب حکومت نے بڑی سوچ بچار کے بعد پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں یکمشت اتنا اضافہ کر دیا تھا کہ ایک پولیس ملازم عزت سے زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے ۔۔لیکن اس اقدام کے نتائیج بھی حوصلہ افزاء نہ تھے ،پھر یہ ہوا کہ انتہائی جدید اسلحہ ٹیکنالوجی رکھنے والے دہشت گردوں کے مقابلے میں پولیس پیشہ وارانہ تربیت اور جدید سہولیات کے فقدان کی وجہ سے دہشت گردوں کا آسان ٹارگٹ بننے لگی،سو اسکی تربیت کے لئے عسکری اداروں کے ساتھ معاملات بھی ہوئے ، میاں شہباز شریف اس سلسلے میں بے حد متحر ک رہے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کے جوانوں نے اپنی جانوں کے جو نذرانے دیئے ان کا اعتراف اور تذکرہ نہ کرنا بھی قرین نا انصافی ہو گی اوربلاشبہ جان کی قربانی سب سے عظیم قربانی ہے ،ان شہید پولیس والوں کے اہل خانہ بعد میں کن حالات سے دوچار ہوئے معلوم نہیں لیکن برسوں پہلے مجھے ایک سینئر پولیس افسر کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں اوجلہ کلاں میں ایک اصلی پولیس مقابلے میں11یا 13پولیس والے شہید ہوگئے ان کے اہل خانہ کے لئے کئی رقوم دینے کے اعلان کئے گئے مگر افسوس کہ شہدائے پولیس کے اہل خانہ کوجس تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑا اور واجبات کے لئے دفتروں کے چکر لگانے والی ان شہیدوں کی بیوگان کو کتنی کوفت ہوئی اسکا ذکر ان سطور میں کرنا ممکن نہیں ،یہ ہے انتہا کی بے شرمی۔۔۔پھر کوئی عام عورت کیسے سوچ بھی سکتی ہے کہ انصاف کے لئے ان تھانوں کا رخ کرے ،یہاں کوئی مظلوم خاتون جو تھوڑی بہت ’’منہ متھے ‘‘ بھی لگتی ہو مجبور ہو کر تھانے چلی جائے تو وہاں اسکانیا امتحان شروع ہو جاتاہے اور انصاف کے بدلے افسر کابستر شیئر کرنا پہلی شرط ہوتی ہے، خدا کے لئے ۔۔۔۔یہ تھانے۔۔۔یہ ظلم خانے گرا دیں شہباز شریف صاحب۔۔۔۔۔ یا پولیس کی سرپرستی میں جاری جرائم بند کرادیں۔۔۔۔۔ کوئی باز پرس کا نظام لائیں۔۔۔۔۔۔۔ پولیس کو بھی قانون کے سامنے جوابدہ بنائیں،ٹکے ٹکے پہ بکنے والے افسروں کو فارغ کریں اور اچھی شہرت والے ایماندار افسروں کو تھانوں میں عوام کے خادم بنا کر تعینات کریں۔۔۔پولیس مافیا کی چین توڑیں ۔۔۔۔۔۔فائلیں بھری پڑی ہیں ان کے کارناموں سے ۔۔۔۔۔مگریہاں بدعنوانی میں ملوث افسروں کو انکوائری میں کلیئر کرانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جبکہ کئی نیک نام افسر آپکو کھڈے لائن لگے ہو ئے بھی ملیں گے جو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں گمنام ہیں انہیں آگے لے کر آئیں،ایسا کرنا مشکل نہیں۔۔۔۔۔ اگرآپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ تو پھرتھانوں کے اندر ہی بڑے بڑے جوئے خانے اور جسم فروشی کے مراکز قائم کر دیں تاکہ پولیس اس غلاظت کوگلی گلی پھیلانے کی بجائے اپنے تھانوں میں ہی بحفاظت سمیٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کاروبار بھی خوب چلے گا اور گاہکوں کوکسی چھاپے کا ڈر بھی نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔منشیات بیچنے اوراستعمال کرنے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو پولیس کی جانب سے ’’شاہین ایوارڈ ‘‘دیا جائے۔تھانوں کی سطح پرجوئے کے ٹورنامنٹ کرائے جائیں اور اس کھیل کو قومی کھیل سمجھ کر فروغ دیا جائے اتنا کہ پھر کسی کو یہ برائی نہیں اچھائی محسوس ہونے لگے اور پھر کوئی پولیس کے بارے میں انگشت نمائی اور قلم آزمائی کے قابل نہ رہے ۔
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 76267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.