روسی گریٹ گیم

حالیہ ایران اورسعودی عرب کے بگڑتے سفارتی حالات نے بالعموم عالمی امن اوربالخصوص امت مسلمہ کوایک خطرناک دوراہے پرکھڑا کر دیاہے اوردن بدن دگرگوں حالات سے تشویش بڑھتی جارہی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ کے ان خصوصی ممالک کو دنیامیں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔اس خطے کے احوال سے دوموضوعات انتہائی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں: اوّل یہ کہ یہاں روسی گریٹ گیم کیاہے ؟اوردوسراشام خون آشام کاانجام بخیرایک لابدی حقیقت ہے۔روسی گریٹ گیم کے بارے میں دنیاکے تین معروف دانشوراورسیاسی تجزیہ نگار’’بسام‘‘’’ایرون ہیزبارا بانڈ‘‘اور کرنل پی جے ڈرمر نے اپنے مشترکہ تحقیق اورتجزیہ میں بتایاہے کہ شام میں روس کی حالیہ کاروائی کامقصدداعش کو شکست دینانہیں ہے اگرچہ روس اس قسم کے دعویٰ ضرورکررہاہے۔داعش سے مؤثراندازمیں لڑنااوراس طرح بشار الاسدکو طاقت میں رکھنے کے اپنے پرانے ہدف کوحاصل کرنا،روس کے حالیہ ردّعمل کی سیدھی سادھی وضاحت نظرآتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ روسی حملے امریکی حمائت یافتہ باغی گروپوں کے علاقوں کو نشانہ بنارہے ہیں جوکہ روس کے سرکاری مؤقف کاکھوکھلاپن ظاہرکرتے ہیں۔

روس کی قومی سلامتی کے مفادات کے پیش نظرحالیہ سرگرمی دووجوہات کو واضح کرنے میں مدددیتی ہے۔پہلاطرطوس کی بندرگاہ کوروسی بحری بیڑوں کیلئے بطوردروازہ کھلارکھناتاکہ مقامی فوجی طاقت کوفروغ دیاجاسکے، دوسرا روس کی سیاسی موجودگی اوراثرکومشرقِ وسطیٰ میں مزیدمضبوط کرنا مگریہ دونوں اہداف روس اورایران کوایک دوسرے سے متصادم کرتے ہیں۔شام میں روسی مداخلت اس بات کاواضح اشارہ ہے کہ سارے پتے ایران کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ روس شام میں طویل المدتی مفادات بشار الاسدکے مستقبل سے آزادہوکرتشکیل دے رہاہے۔شام کی حکومت کونظرانداز کرتے ہوئے یہی کام اپنے مفادات کیلئے ایران نے سرحدی علاقے الزبدانی میں کیا۔ابھی تک ایران بشارالاسدکی سیاسی اورفوجی بقاء میں ایک کلیدی حصہ داررہاہے اوربہت سے مواقع پراہم کمان اینڈکنٹرول نظاموں اورجنگی مہمات کی قیادت کرتارہاہے۔

روسی صدرولادی میرپیوٹن کومعلوم ہے کہ اگراسی صورتحال کوجاری رہنے دیا گیا توروس شام کے مستقبل کے منظر نامے سے باہرہوجائے گا اور یوں مشرقِ وسطیٰ میں بھی روس کاجو بچا کھچااثرہے وہ بھی خطرے میں پڑجائے گا۔کچھ لوگ یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ داعش سے مقابلہ کرنے میں ایران اور روس کا مشترکہ مفادہے لیکن طویل مدت میں یہ تعاون اصل مفادات کے اشتراک کی وجہ سے نہیں بلکہ دونوں کیلئے سازگارہونے کی بدولت ہے۔مزیدیہ کہ پیوٹن کوبھی یقین ہے کہ شام میں وسیع ترمداخلت کریمیااوریوکرائن کے پچھلے سال کے واقعات کے بعدروس کی تنہائی کوختم کرنے میں مدددے گی۔اس کے ساتھ ایک ثانوی قانونی فائدے کے طورپر،روس شام کیلئے اپناالگ امن منصوبہ تیارکرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ منصوبہ جوبطورسیاسی اداکاراورداعش کے خلاف شراکت داربشارالاسدکی نشاة ثانیہ کاتصورپیش کرتاہے۔بشارالاسدکے مستقبل کے حوالے سے بحث جوکہ مرکزی حیثیت رکھتی تھی،اب پیچھے چلی گئی ہے۔

شام میں پیوٹن کی جرأت مندانہ فعالیت کوتوانائی بخشنے والے عوامل بہت سے ہیں،سب سے پہلے وہ رپورٹیں جوبتاتی ہیں کہ پیوٹن حقیقت پسندی کےساتھ روس کی طویل المدتی سلامتی کے بارے میں فکرمندہیں کیونکہ روسی شہریوں اورروسی زبان بولنے والوں کی ایک قابل ذکرتعدادداعش کے ساتھ مل کرلڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ وسط ایشیامیں روس اپنی سرحدکے ساتھ دوکروڑسنیوں کومستقبل کے ممکنہ نقطہ اشتعال کے طورپردیکھتاہے کیونکہ بلاشبہ ان میں کچھ جنگجو اس علاقے کولوٹیں گے۔یہ بات قابل ذکرہے کہ روس پہلے ہی چیچن باغیوں اور افغانستان میں مجاہدین کے ساتھ تنازعات میں اس تاریخی مسئلے کاسامناکر چکا ہے۔
دوسراپیوٹن کویقین ہے کہ ایران مغرب کے ساتھ ہونے والی اپنی تازہ جوہری ڈیل سے بین الاقوامی سیاسی اورمعاشی دونوں طرح کا سرمایہ حاصل کرے گا۔اس کے مقابلے میں روس بہت سے اندرونی مسائل اورمغربی پابندیاں برداشت کررہاہے جو کریمیابحران کے بعدعائدہوئی تھیں۔ہو سکتاہے کہ پیوٹن یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگروہ داعش کے خلاف لڑنے میں ایک اہم کردارنبھاتے نظرآئیں توروس پرعائدپابندیاں بھی اٹھ جائیں۔ یہ حکمت عملی الٹااثر بھی دکھا سکتی ہے اگرشام میں زمین پرموجودامریکی اتحادیوں کونشانہ بنایاجاتارہا۔

آخری سبب یہ ہے کہ پیوٹن شام کوایک موقع کے طورپردیکھتے ہیں جودنیاکی دوسری طاقت کے طورپرروس کی نمایاں حیثیت کوبحال کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔پیوٹن کی جانب سے طاقت کامظاہرہ سردجنگ کے بعدروسی طاقت میں ہونے والی کمی کے تاثرکاسدباب کرتاہے۔وہ امریکاکی جانب سے عراق میں عدم موجودگی،مشرق وسطیٰ کے علاقائی واقعات کی طرف سے امریکی بے نیازی اورشام کی تباہی کے بیک وقت وقوع پذیر ہونے کوایک سودمنداتفاق کے طور پر دیکھتے ہیں،جس کے ذریعے سے وہ فعال طورپریہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ اگرچہ پیوٹن نے بظاہرجرأت مندانہ اقدام کیاہے لیکن جن مسائل کاان کوسامنا ہے ،وہ معمہ نہیں۔پہلایہ کہ شام یوکرائن نہیں ہے اورجغرافیہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، غیرملکی سرزمینوں پرمداخلت کی روسی تاریخ قطعاً تابناک نہیں۔افغانستان ،انگولا اورایتھوپیامیں اس کی مہم جوئی فقط چندمثالیں ہیں۔

دوسراروسی فوجیں اسرائیلی حدودکے بہت قریب چلی جائیں گی اوریہ خوش آئند پیش رفت نہیں ہوگی۔اسرائیل نے شام میں اپنے مفادات کیلئے ایران اورایران کی پراکسی قوتوں کے خلاف پہلے ہی دفاعی اندازمیں کام کیاہے۔اسرائیل کو پورایقین ہے کہ روس ایک تنازع میں غلطیاں کرے گا جیسے اس نے ۲۰۱۴ء میں مشرقی یوکرائن میں ملائشیاکے ہوائی جہاز کی پرواز۱۱۷کونشانہ بناکرکی تھی۔تیسراپیوٹن کی فوجیں ایران،لبنان اورحزب اللہ کے ساتھ گٹھ جوڑبناکربیٹھ جائیں گی۔یہ واضح نہیں کہ طویل المدت میں اس کاانجام کیاہوگالیکن میدانِ جنگ اورمیدانِ سیاست دونوں میں ایرانی ممکنہ روسی تسلط کوقبول نہیں کریں گے۔

چوتھاامریکاکوپریشان کرنے کے علاوہ روس کوکیا حاصل ہوگا۔مختصرمدت میں بشارالاسد کواپنی جگہ قائم رکھناقتل عام کو صرف بڑھانے کاسبب بنے گا جبکہ روس کواس کے دوہرے اور تہرے اثرات کو قابومیں رکھنے میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔روس کے شام میں اس نئے خطرے سے نمٹنے کیلئے مزیداسلام پسندانتہاپسندوں کی آمدہو گی۔آخری بات یہ کہ روسی کاروائیاں امریکی افواج کے ساتھ ایک براہ راست اورخطرناک تصادم کوجنم دے سکتی ہے۔سرد جنگ کے زمانے پرنگاہ ڈالیں توروس اورامریکی افواج اگرشام میں مشغول ہوئیں تودیگرخطوں میں امریکی افواج کاروسی حملوں کانشانہ بننے کاامکان بڑھ جاتا جوایک بہت زیادہ وسیع اورہلاکت خیزتصادم کا ذریعہ بن جاتا۔ان مسائل پرایک ساتھ نگاہ ڈالیں تویہ ظاہرہوتاہے کہ پیوٹن نے شایداپنے آپ کومشکل میں ڈال لیا ہے،وہ اپنے آپ کوایران اور اس کے مفادات کے درمیان ایک خطرناک پوزیشن میں لے آئے ہیںجوبات یقینی ہے وہ یہ کہ پیوٹن کی مہم جوانہ جدوجہدجس کاایک مقصددنیاکے منظرنامے پرروس کی موجودگی کوبڑھاناہے۔روس کوایک ایسے خطے میں موذی کرداربناکرپیش کررہی ہے جوپہلے ہی شعلوں کی زدمیں ہے۔

روسی گریٹ گیم کے احوال پرروشنی ڈالنے کے بعدقارئین کی خدمت میں شام خون آشام کے بارے میں چندآفاقی اورلابدی حقائق پیش کرتے ہیں۔معروف دانشورتجزیہ کارمرزا ایوب بیگ لکھتے ہیں کہ ہماری رائے میں اس ملک پر امریکاروس رابطہ ہوااورامریکاسمجھ گیاکہ روس بشارالاسدکی حمائت میں کسی حدتک بھی جاسکتا ہے، لہذا اس نے اپنے رویے میں تبدیلی کی اوربشارالاسدکی حکومت گرانے سے زیادہ مسلمانوں کے باہم خون خرابے پراپنی توجہ مبذول کر دی۔اب وہ کبھی باغیوں کی مددکرکے شام کی حکومت کونقصان پہنچاتا ہے تاکہ جنگ کسی انجام تک نہ پہنچے اور مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت جاری رہے، البتہ روس اورایران واضح طورپربشارالاسدکے حمایتی ہیں۔روس،داعش اور دوسرے باغیوں پرمسلسل فضائی حملے کررہاہے ۔ایران بشارالاسدکی زمینی جنگ میں پوری مددکررہاہے۔

سعودی عرب شام میں باغیوں کی کھلم کھلاپشت پناہی کررہاہے۔دنیاکے مختلف حصوں سے جنگجوخلافت کے نام کی دل کشی کی وجہ سے داعش کی مدد کیلئے شام پہنچ رہے ہیں۔داعش اس وقت شام کے ۶۰فیصد رقبے پرقابض ہے۔اگرچہ وہاں آبادی صرف سولہ فیصدہے۔سانحہ پیرس کے بعد فرانس بھی شام میں داعش پربمباری کررہاہے جس سے داعش بہت سے علاقوں سے پسپائی اختیارکررہی ہے لہندااس وقت شام کی زمینی صورتحال یہ ہے کہ ایک حصے پرداعش قابض ہے۔وسطی شام کے ایک حصے پرالنصرہ فرنٹ کوکنٹرول حاصل ہے ، وسطی شام سے حلب کے شہرتک کاعلاقہ آزادفوج کے قبضے میں ہے۔اردنی سرحدکے قریب درعاکاضلع بھی آزادفوج کے قبضے میں ہے۔دمشق سے لاذقیہ شہرتک بشارالاسدکی حکومت ہے ۔گویایہ ایک ایساگنجلک معاملہ ہے کہ کہیں بھی صورتحال واضح نہیں،یہاں تک کہ اس معاملے میں بعض اوقات کنفیوژن پیداہو جاتا ہے کہ کون کس کاساتھی ہے اورکون کس سے لڑرہاہے۔۔

حقیقت یہ ہے کہ صورتحال میں اس وقت دنیاکی بساط لپیٹ دینے کاوقت قریب آتا محسوس ہورہاہے ۔اس آخری وقت میں شام کے کردارپرنبی کریمۖکی بہت سی احادیث مبارکہ ہیں جن میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کے آخری الفاظ ہیں: ''پس جب فتنے رونماہوں گے توایمان شام میں ہوگا''۔ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللؓہ بن عمؓر روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''اے اللہ!ہمارے مکے میں برکت دے،اے اللہ! ہمارے لئے برکت رکھ ہمارے مدینہ میں، اے اللہ!ہمیں برکت دے شام میں اوربرکت دے ہمارے صاع میں،اوربرکت رکھ ہمارے مدینہ میں۔ایک صحابی نے عرض کیا،یارسول اللہ،عراق میں؟توآپۖنے توجہ دوسری طرف کرلی۔ان صاحب نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ،وہ یہی کہتے رہے اور ہمارے عراق میں۔ تو آپ ۖ التفات نہ فرماتے۔پھرآپۖنے فرمایا:وہاں زلزلے اورفتنے ہوں گے اوروہاں شیطان کاسینگ طلوع (نمودار)ہوگا۔''لہنداشام میں زمینی حقائق کچھ بھی ہوں ،دشمنانِ دین جتنا چاہیں ، مسلمانوں کاخون بہالیں اورظاہری طور پروہاں حالات مسلمانوں کیلئے کتنے ہی ناموافق ہو جائیں ،آپۖ کی پشین گوئی صحیح ثابت ہوگی۔ان شاء اللہ اس پرہرمسلمان کاایمان سرکی آنکھوں سے نظر آنے والی ہرشئے سے زیادہ ہے۔لہندا شام کے حالات سے بالآخرامت مسلمہ کیلئے خیر برآمدہوگا،ان شاء اللہ۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.