افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء کے بعد
سے لیکر اب تک حکومت پاکستان کے عوام ویسے ہی اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہاتھ
پاؤں مار رہے ہیں ، جیسے بچی کھچی روسی افواج اپنا آپ بچانے کیلئے بڑی مشکل
سے افغان بارڈر سے نکل پائیں۔ایک جنرل نے ان ملاؤں کے کہنے پر غیر ریاستی
افواج کی تربیت کی اور ان پر بے بہا خزانہ لٹایا تو موجودہجنرل اب ان غیر
ریاستی طاقتوں کیخلاف نبرد آزما ہوکرسابقہ کے بوئے کانٹے چننے میں مصروف ہے
اور اس پاداش میں ہم اور افواج پاکستان لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں جن
میں فوجی بھی شامل ہیں اور سویلین بھی، اپنے ہی ہاتھوں سے پالے ان ناسوروں
نے اب اپنا ٹارگٹ نونہالان مکتب کو رکھ لیا ہے۔پچھلے سال دسمبر میں آرمی
پبلک سکول پشاور پر حملے کے زخم ابھی مندمل نہ ہونے پائے تھے اور شاید یہ
زخم کبھی نہ بھر پائیں کہ ان لوگوں نے چارسدہ باچا خان یونیورسٹی کی درو
دیوار کو لہو لہان کر کے رکھ دیا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے اپنے جوانوں
اور ملک کے مستقبل کو ملیا میٹ ہوتے دیکھتے رہ گئے
آخر کب تک ہم دوسروں کی جنگ لڑتے رہیں گے ؟
ٓآخر کب تک ہم سرحدوں کادفاع کرنے والوں کی قربانی دیتے رہیں گے؟
آخر کب تک ہم اپنے جگر گوشوں کے گلے کٹواتے رہیں گے ؟
آخر کب تک ہم فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کے پر فریب نعروں کی نذر ہوتے
رہیں گے؟
کیوں ان دھماکوں،فائرنگ کا نشانہ صدرپاکستان، وزیر اعظم پاکستان،گورنر
حضرات،ایم این ایز، ایم پی ایز،مشیرکے بیٹے،بیٹیاں اور پیارے نہیں بنتے،کیا
یہ دکھ درد غریب کیلئے ہی ہے اگر درج بالا شخصیات کا کوئی پیارا ایسے ہی
سانحات کا شکار ہو جائے تو شاید فول پروف سیکیورٹی اور ملک سے دہشت گردوں
کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا نعرہ سچ میں ڈھلتا نظر آئے۔کیونکہ درد تو اسے ہی
محسوس ہوتا ہے جسے درد دیا جاتا ہے تسلی کیلئے تو ساری دنیا پڑی ہے ادھر
دھماکہ فائرنگ ہوتی ہے ادھر جنا ب زعماء حکومت نمودار ہوتے ہیں اور بڑی بے
غیرتی سے ہمارے ہی ٹیکسوں سے بھرے حکومتی خزانے سے لاکھوں کی امداد کا
اعلان کر کے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹے
کو اپنی آنکھوں سے لہو میں لت پت دیکھا ہو، اپنے جگر گوشے کے سر میں گولی
لگی دیکھی اور اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے بچے کھچیے جسم کو اٹھا کر دفنایا
ہوآپ اسے لاکھ دو لاکھ روپے کی امداد دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہے
ہیں،شرم سے ڈوب مرنا چاہئے آپ کو،کیونکہ آپ کو اپنی حکومتی پاورز بڑھانے کے
علاوہ کوئی اور کام نہیں اور اس میں آپ بڑی حد تک کامیاب بھی دکھائی دے رہے
ہیں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نوازشریف حکومت سیاسی محاذپر تو
اپوزیشن کو سانس نہیں لینے دے رہی لیکن دفاعی اور خارجی معاملات میں بری
طرح ناکام ہے انکی دہشت گردی سے نمٹنے کی باتیں بیانات اور اعلانات کی حد
تک ہی محدود تھیں اور ہیں۔نہ تو خفیہ ایجنسیاں وقت سے پہلے کوئی کاروائی کر
پاتی ہیں جس سے کسی بہت بڑے سانحہ سے قوم کو بچایا جا سکا ہو بلکہ کاروائی
ہونے کے بعد یہ بھی علم میں آجاتا ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے اور کہاں
گئے،مدارس بھی کسی سے کم نہیں ہیں ان کے چلانے والے بھی دورجدید کو سمجھ
نہیں پارہے اور نہ ہی حکومت انہیں کنٹرول میں لا سکی ہے جس سے مذہبی منافرت
بڑھتے ہی جا رہی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے بلکہ حکومتی رٹ کو سر
عام چیلنج بھی کیا جاتا ہے لیکن حکومت اپنی سیاسی مجبوریوں کی خاطر ان
سنپولیوں کو اپنے سامنے پلتا بڑھتا دیکھ رہے ہیں لیکن ذاتی خواہشات اور
طویل اقتدار کی خواہش انہیں اپنی آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کئے ہوئے
ہے،کبھی توا سٹریجٹک مفادات اور کبھی دین کی الٹی سیدھی تشریح کے تحت ہم
انہیں اپنے ہی ہاتھوں سے پالنے پوسنے کا کام کرتے ہیں لیکن طویل المعیاد
نقصانات کو پس پشت اور نگاہوں سے اوجھل کر لیتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک کے رکھوالے اور سیاسی متوالے اپنی ان سیاسی
مجبوریوں کے خول کو نہیں توڑیں گے جو ان کی کمزوری بن چکے ہیں ہم اور ہمارے
بچے ، جوان ، بوڑھے مردو خواتین یونہی کٹتے مرتے رہیں گے اور انہیں اپنی
حفاظت اور سیاسی مقاصد کے حصول سے ہی فرصت نہیں ہو تی، ایک وقت آئے گا جب
ہمارے ہر گلی محلے میں ایسے کاروائیاں عام ہو جائیں گی اور ہماری ایجنسیوں
کو سمجھ نہیں آئیگی کہ وہ سرحد کو سنبھالیں یا ملک کے اندر کی کاروائیوں کے
خلاف ایکشن لیں،ہماری ایجنسیاں اسی وقت کامیاب ہو ں گی جب وسائل کو غیر
ضروری سیکیورٹی اقدامات پر صرف کرنے کی بجائے جاسوسی ، کنٹرول ، رابطہ عامہ
اور معلومات کی بروقت ترسیل کے نظام کو بہتر بنایا جائے گایہ سوچ لینا غلط
ہو گا کہ کوئی حکومت پاکستان جیسے بڑے ملک کے تمام اداروں کو فول پروف
سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے یہ مقصد گارڈ بڑھانے یا ان کو زیادہ اسلحہ دے کر
حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس مقصد کیلئے دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نگرانی
سخت کرنے ک ضرورت ہے ، وہ اگر اپنیٹھکانے سے فرار ہوتے ہیں تو سکیورٹی
فورسز کو علم ہونا چاہئے کہ وہ پناہ کیلئے کہاں جاتے ہیں اور کن لوگوں سے
رابطہ کرتے ہیں اس کنٹرول کیلئے ہمارے قوانین بھی ناقص ہیں اور متعلقہ
اداروں کے پاس مناسب وسائل ، جدید آلات اور صلاحیتکی بھی شدید کمی ہے حیرت
ہے برسوں تک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والی قوم اب بھی دیواریں اونچی کر کے
یا محافظوں کی تعداد میں اضافہ کر کے حفاظت کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
خیرجب میں ان سطور کو اختتام کی طرف لے جارہا ہوں تو سامنے ٹی وی پر بریکنگ
نیوز چلی کہ افغان صدر کے ترجمان نے چارسدہ حملے کی منصوبہ بندی اور کنٹرول
کئے جانے کے پاکستانی بیانات کی سختی سے تردید کر دی ہے اس پر میں تو
یہیکہوں گا کہ ہور چوپو۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہی افغانستان ہے جس کی آزادی اور سوویت
افواج کے افغانستان سے انخلاء کیلئے ہماری قربانیوں سے پورا عالم آگاہ ہے
جس کے مہاجرین کو ہم برسوں سے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے اپنی سسکتی
معیشت کی بھی پرواہ نہیں کر رہے لیکن افغان آج بھی انڈین کے لئے سہولیات
فراہم کر رہا ہے اور اسے اپنا خیر خواہ بھی سمجھتا ہے جبکہ پاکستان کے لئے
اس کے دل میں نفرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں سچ تو یہ کہ افغانی راہنما انڈین
ایجنسی را کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں جو کاروائیاں انڈیا اپنے گھر میں
بیٹھ کر سر انجام نہیں دے سکتا وہ افغانستان کے ذریعے بڑی آسانی سے سرانجام
دے رہا ہے بھارتی وزیر دفاع کے گزشتہ ہفتے کے پاکستان مخالف بیانات کو ہی
دیکھ لیا جائے تو سارا سین سمجھ میں آجاتا ہے جس میں موصوف نے بڑی دیدہ
دلیری سے عالمی میڈیا کے سامنے پاکستان کو درد کا احساس دلانے کا عزم کیا
تھا،آخر کب تک ہم ان کی اس دیدہ دلیری سے آنکھیں چراتے رہیں گے اور دوستی
کیلئے بے ضمیری کی ہر حد کو پارکرتے رہیں گے ؟ خدا کیلئے اس خطہ پاک کی
حفاظت کیلئے حقائق سے آنکھیں ملائیں ورنہ ہماری داستان نہ ہو گی داستانوں
میں۔ |