بھارتی ایئربیس پردہشتگردی کایہ ایک
ایساحملہ ہے جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملے گی۔بھارتی ایجنسی کے مطابق علی
الصبح۴سے۶حملہ آوروں نے کاروائی شروع کی۔حملہ آوروں کی گولیوں سے ۴بھارتی
فوجی موقع پرہی ہلاک ہوگئے جبکہ مختلف اوقات میں مختلف اطلاعات آتی
رہیں۔پہلے کہاگیاکہ ۲ پھر۳اورپھر۴اوربعدازاں۵سے ۶کی اطلاع نشرکی گئی۔ یوں
محسوس ہورہاتھاکہ معاملے کوجان بوجھ کرکنفیوزکیا جارہا ہے۔بتایاگیاکہ حملے
کی اطلاع ملتے ہی بھارتی سیکورٹی فورسزاورفوج نے علاقے کامحاصرہ کرکے حملہ
آوروں کی تلاشی کیلئے سرچ آپریشن شروع کیا۔یہ سرچ آپریشن بھی عجیب وغریب
اندازمیں ہوا،پہلے ۱۴گھنٹے جاری رہاجو بعدمیں اس اطلاع پرکہ دہشتگردوں کا
صفایاکردیاگیاہے،روک دیا گیا لیکن بعد ازاں دہشتگردوں کے تہہ خانے میں چھپے
ہونے کی اطلاع پرآپریشن دوبارہ شروع کردیاگیا جبکہ اس مرحلے پر۵حملہ آوروں
کومارے جانے کی تصدیق ہوئی،گویاحملہ آوروں کی متضاداطلاعات بذاتِ خودایک
معمہ نظرآرہی ہے۔
بھارتی میڈیاکے مطابق حملہ آورفوجی وردیوں میں ملبوس تھے جبکہ بیس میں داخل
ہونے کیلئے انہوں نے گاڑی پولیس کی استعمال کی ۔حملہ آوروں کا مقصد ایئربیس
پرموجودہیلی کاپٹرز اور۲۱۔ مگ جنگی طیاروں کوتباہ کرناتھا۔اس ضمن میں
بھارتی میڈیاکے توسط سے یہ حیرت انگیزخبرنشرکی گئی کہ حملہ آوروں نے پہلے
ایک ایس پی کواغواء کیاپھراس کی گاڑی اورموبائل فون چھین کرایس پی کو
چھوڑدیاتاکہ وہ حملہ آوروں کے بارے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کومطلع
کرسکے۔حملہ آوروں نے ایس پی کے موبائل سے مختلف افراد سے بات بھی کی جن میں
ایک حملہ آورنے اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مرنے کیلئے جارہاہے
جس کے جواب میں اس کی ماں نے اسے ہدائت کی وہ خالی پیٹ نہ جائے،کچھ کھا پی
لے۔کیایہ ممکن ہے کہ ایک مامتاایسے نازک موقع پراپنے جذبات کے اظہارکیلئے
صرف کھانے کی نصیحت کرے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے حملہ ہوتے ہی نہ صرف کالیں ٹریس کرلیں بلکہ یہ بھی
معلوم کرلیاکہ ان کاتعلق جیش محمد،جماعتہ الدعوہ اورحزب المجاہدین سے ہے۔اس
کے ساتھ ہی بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کاالزام پاکستان پرعائدکرناشروع
کردیا۔یہ امرقابل ذکرہے کہ حملے کے بعدبھارتی میڈیااوراس کے وزاراء نے
بغیرکسی تحقیق لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان پرنہ صرف الزامات
کاسلسلہ شروع کردیابلکہ ایک وزیرتوباقاعدہ دہمکیاں بھی دے رہاہے تاہم
میڈیاکے کچھ افرادنے حملے کومشکوک قراردیا۔میڈیا استفسارکرتا رہاکہ سرحدکے
قریب ہی ایئربیس پرحملہ کیوں ہوا؟تحقیقات کے بغیربھارت نے پاکستان کی جانب
کیوں انگلی اٹھادی؟نیزمودی کے دورے کے فوری بعدایئربیس پر حملہ ہوناتھا؟عام
ذہنوں میں بھی متعددسوالات پیداہوئے کہ حملہ آور گورداس پورسے ایک روزقبل
اغواء ہونے والی ایس پی کی اس گاڑی میں سوارتھے جو جمعہ کوچھٹی پرگئی
تھی،٢٤ گھنٹوں تک اس گاڑی کاکھوج لگانے میں بھارتی حساس ادارے کیوں کامیاب
نہیں ہوئے؟گورداسپورممبئی ایسااورگنجان آبادشہر نہیں تھاکہ اس گاڑی کاسراغ
نہ لگایاجاسکتا؟
غیرجانبدارمبصرین کے نزدیک یہ حملہ خودساختہ تھااورآثاروقرائن بھی اس امرکی
تصدیق کررہے ہیں۔مقام حیرت ہے کہ حملہ صبح چاربجے ہوالیکن سیکورٹی تورات سے
الرٹ کردی گئی تھی۔عام دنوں میں سیکورٹی ایئربیس کے گیٹ پرہوتی ہے
اوربیرئیرلگے ہوتے ہیں لیکن حملے سے بارہ گھنٹے قبل۵ بجے شام
بیرئیرہٹاکراندرمنتقل کردیئے گئے تھے۔آس پاس فروٹ اورسبزی کی دوکانیں بھی
سرشام بندکرادی گئیں تھیں۔شہریوں نے بتایاکہ ایئربیس کے قریب سے ایک روزقبل
تمام حفاظتی رکاوٹیں ہٹادی گئیں تھیں۔شہریوں کے انکشاف کے بعدائیربیس سے
ہونے والا(ہفتے کی صبح کا)حملہ مشکوک ہوگیا۔سرکاری سطح پرایئربیس پرحملے کی
تحقیقات شروع نہ ہوئیں تاہم برخودغلط بھارتی میڈیانے پاکستان پرالزام تراشی
کی رٹ لگاناشروع کردی۔
ادھرپٹھانکوٹ ایئربیس میں ہونے والامعاملہ بتدریج پراسرارہوتاچلاگیاہے۔شروع
میں پاکستان پرالزام عائدکرنے والے بھارتی میڈیا نے بھی اس ڈرامے پرسوالات
اٹھانے اٹھانے شروع کردیئے ۔انتہاپسندوں کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ اس
کاالزام پاکستان پرڈالاجائے جبکہ بھارتی حکومت نے بھی اپنی نااہلی چھپانے
کیلئے حملہ آوروں کوسرحد پارسے امدادملنے کاالزام لگادیالیکن جب اس
کامستندثبوت طلب کیاگیاتواس کے بعد مکمل خاموشی اختیارکرلی گئی البتہ
بھارتی وزیربرائے ''دہمکی''منوہرپریکارنے معاملے کارخ بدلنے کیلئے حسبِ
معمول دہمکی آمیزبیانات دیکر اپنا آئندہ کالائحہ عمل ضروربتادیا۔
اعتدال اورمیانہ روی کے حامل مبصرین کے مطابق یہ واقعہ غیرمتوقع قرارنہیں
دیاجاسکتاکیونکہ بھارت اورپاکستان کے درمیان جب بھی حالات اورتعلقات میں
بہتری کی امید شروع ہوتی ہے کوئی نہ کوئی ایساواقعہ ضروررونماہوجاتاہے
کیونکہ جب سے بی جے پی نے اقتدارسنبھالاہے ،روزِ اوّل سے بھارت کے اندر
اوربیرونِ ملک بدترین تعصب ،عناداور نفرت پرمبنی پالیسیوں اوربیانات کے سبب
مودی حکومت کاگراف تیزی سے روبہ زوال ہے۔امریکاوبرطانیہ کے علاوہ کارپوریٹ
سیکٹرجن کی مددسے مودی سرکارکوحکومت بنانے کاموقع ملاہے،مودی حکومت کی
موجودہ کارکردگی پرسخت نالاں ہیں اوران کے سخت اصراراوردباؤ کے بعدہی
پاکستان کے ساتھ مذاکرات کاسلسلہ چلانے کاعندیہ دیا گیاتھا۔یہ حقائق بھی
نظرمیں رکھنے چاہئیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے بظاہرحالات میں بہتری لانے
کیلئے خودآگے بڑھ کرپہلے پیرس میں ڈیڑھ منٹ کی ملاقات کے نتیجے میں قومی
سلامتی کے مشیروں کی بنکاک میں ملاقات کا راستہ ہموارکیاجس کے بعد بھارتی
وزیرخارجہ سشماسوراج پاکستان آئیں اور پاک بھارت مذاکرات کوایک مرتبہ
پھرشروع کرنے کی تجاویز کا عندیہ دیکر خارجہ سیکرٹریوں کوباہم مل
کرکشمیرسمیت تمام تنازعات کوحل کرنے کا وعدہ کیاتاکہ پاکستان میں ہونے والی
اگلی سارک سربراہ کانفرنس میں پاک وہندکے سربراہوں کی ملاقات میں کسی اہم
پیش رفت کااعلان کیاجا سکے۔ جس کیلئے نریندرمودی نے دورۂ روس کے بعدکابل
میں پاکستان کے خلاف زہراگلنے کے بعد بظاہرلاہورمیں ''سرپرائزوزٹ'' کیاجس
کا پردہ بھی اب فاش ہوچکاہے۔ ان تمام اقدامات کے باوجودعوام میں یہ
تاثرتھاکہ اب کوئی معمولی ساواقعہ تمام خوش فہمیوں پریکسرپانی پھیردے
گااورعوام کی توقعات کے مطابق یہی ہوا۔ بھارت کے انتہاءپسندوں کے عزائم
پاکستان کے بارے میں ہرکس وناکس پرعیاں ہیں۔
سابق صدرپرویزمشرف کے دورۂ بھارت کوبھی ذرا یادکیجئے جب تمام معاملات طے
ہونے کے بعد مشترکہ اعلامیہ ٹائپ ہونے کیلئے گیااورپھرکبھی واپس نہ
آیا۔دوسری مرتبہ دونوں وزرائے خارجہ کے مذاکرات ہونے جارہے تھے لیکن ایک
منصوبے کے تحت سمجھوتہ ایکسپریس کوآگ لگاکر ۶۸پاکستانیوں
کوشہیدکردیاگیاجبکہ خودبھارتی انٹیلی جنس نے اس واقعے میں ملوث بھارتی فوج
کے حاضرسروس کرنل پروہت کوگرفتارکرلیاتھا ۔ تیسری مرتبہ پاکستان کے سابق
وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی مذاکرات کیلئے بھارت میں موجودتھے لیکن اچانک
ممبئی کاناٹک رچادیاگیا۔چوتھی مرتبہ عین مذاکرات سے ایک دن قبل سرتاج عزیز
اورسشما سوراج کی دہلی میں ملاقات کومحض اس لیے منسوخ کردیاگیاکہ پاکستان
کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت کے رہنماؤں سے کیوں ملاقات کی جبکہ یہ ایک
معمول کاواقعہ تھااوربی جے پی کے واجپائی کے دورِ حکومت میں بھی ایسی
ملاقاتیں ہوتی رہیں تھیں جس پربھارت نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیاکہ پاکستان
سمجھتاہے کہ کشمیرکے مسئلے پرکشمیری حریت کانفرنس کے رہنماء ہی اصل فریق
ہیں اوران کی مرضی کے بغیرکوئی بھی حل دیرپاثابت نہیں ہو سکتااوراب بھی وہی
ہواجس کاخدشہ میں نے اپنے پچھلے چندکالموں میں کیاتھا۔ یادرہے کہ آج سے
چندبرس قبل خود بھارتی وزیرداخلہ کے ایک انتہائی اعلیٰ افسر نے بھارتی
سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں ممبئی اورپارلیمنٹ پرمجوزہ حملوں کو''را''کی
کارستانی قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے امن مذاکرات کو سبوتاژ
کرناقراردیاتھا۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت دنیاکاوہ واحدملک ہے جہاں کئی
ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں بھارتی پنجاب کے سکھوں کی
مضبوط اورناقابل تسخیرتحریک خالصتان کی تحریک ہے۔اس تحریک کو۱۹۸۰ء میں
بلیوآپریشن کے ذریعے ان کے انتہائی مقدس مقام دربار صاحب پرٹینکوں سمیت
یلغارکرکے اس کی نہ صرف اس کے کئی حصوں کو شہیدکرکے بے حرمتی کی گئی بلکہ
سینکڑوں سکھوں کوجن میں ایک بڑی تعداد وہاں عبات میں مصروف تھی،ہلاک
کردیاگیا۔بھارتی فوج اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد سکھوں کو خالصتان کے نام پر
ہلاک کر چکی ہے لیکن راکھ میں موجوداس کی چنگاریاں ۲۰۱۵ء میں مودی سرکارکے
انتہاء پسندہندوتواکے فلسفے کے ردِّ عمل میں اب شعلوں کاروپ دھار چکی ہیں
اوراسی طرح ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنے حق خوداردایت حاصل کرنے کیلئے جام
شہات نوش کرچکے ہیں۔ سیکولربھارت کومودی سرکار اوربی جے پی ایک خالص ہند
وریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے اورمختلف ریاستوں میں جاری آزادی کی تحریکوں
کوتشدداورکالے قوانین کے ذریعے سے کچلنے کی کب تک کوشش کرے گی۔
بھارتی ایجنسی کاٹی ٹی پی کے ذریعے چارسدہ یونیورسٹی میں معصوم اوربے گناہ
طالب علموں پرحملہ یقیناًایک انتہائی بزدلانہ اوراوچھاوارہے جس کے جواب میں
حکومت ِپاکستان کو خود فی الفورمذاکرات کومؤخرکرکے اس کے اصلی مجرموں
کوکیفرکردارپرپہنچاناہوگاجس کیلئے فوری طورپراقوام متحدہ میں بھارتی
وزیرمنوہرکی دہمکی کوچارسدہ یونیورسٹی پردہشتگردانہ حملے کا مجرم قرار
دیکراس کے خلاف کاروائی کامطالبہ کرناچاہئے۔ |