پاکستان کی بدلتی ہوئی پالیسی
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی خارجہ
پالیسی کے بارے میں ہمیشہ سے سوال اٹھائے گئے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ
پالیسی زیادہ تر ملک کے مفاد میں نہیں رہی بلکہ غیر ممالک کے تابع رہی ہے
اور ہماری خارجہ پالیسی سے ملک کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ ہم نے
ہمیشہ غیروں کی لڑائی اورمفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لوگوں کو قربان کیا
ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی جمہوری ادوار میں بھی عسکری اداروں نے
سنبھالی اور چلائی ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کاجو بنیادی کام ہوتا ہے کہ
وہ اپنے ملک کے مفاد کو دیکھیں اور دنیا کی سیاست اور بدلتی ہوئی حالات پر
نظر رکھا کر ملک کی خارجہ پالیسی بنائے جس میں حالات اور سوچ سمجھ کر فیصلے
کیے جائیں،تاکہ آنے والے نسل کے لیے مشکلات درپیش نہ ہو لیکن بدقسمتی سے
سیاستدانوں نے اس جانب توجہ دینے کی بجائے اپنے سیاسی فائدوں کو اہمیت دی ۔
ملک میں جمہوریت اور عوام کے نام پر سیاست کی بات تو کی جاتی ہے لیکن حقیقت
میں عوام کے بجائے اپنے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خارجہ
پالیسی کو زیادہ تر ہماری عسکری ادارے کنٹرول کرتے آئے ہیں ۔دنیابھر کے
سیاست اور خارجہ پالیسی میں عسکری اداروں کا عمل دخل رہتا ہے لیکن زیادہ تر
فیصلے سیاستدان خود ہی کر تے ہیں لیکن ہمارے ملک میں الٹ سسٹم رہا ہے جس کی
وجہ سے آج ملک کئی قسم کے مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اتنے بھی خراب یا برے
نہیں تھے جتنی بدگمانی اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت آج موجود ہے جس کی ایک
دو نہیں بلکہ بہت سی وجوہات بھی ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان عوام
کا آنا جانا آسان تھا ۔تجارت بھی ہوتی تھی اور کام کاج کی غرض سے ایک دوسرے
کے ممالک میں آنا جانا بھی لگارہتا تھا لیکن آج یہ سب کچھ بہت مشکل اور
ناممکن ہو چکا ہے۔ بھارت والے نہ ہم پر اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہم ان کو شک
کے بغیر دیکھتے ہیں۔کشمیر کا مسئلہ ہم نے بھارت سے زیادہ خو د خراب کیا ہے
۔ ایک وقت تھا کہ کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے پوری دنیا میں ایک ایشو کے
طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن آج اس طرح نہیں ہے۔ کم ازکم یہ اچھا ہوا ہے کہ
پچاس ہزار سے زائد افراد کا نذرانہ پیش کرنے اور سوارب ڈالر کامعاشی نقصان
اٹھانے کے بعد ہم نے سوچنا شروع کر دیا اور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر دی
۔ ملک میں گڈ اور بیڈ طالبان کا فرق بھی ختم ہوا جن کو ہم اپنا اثاثہ کہتے
تھے آج ہم نے ان کو کسی حد تک دشمن ڈکلیئر کردیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے
اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا۔ ہم نے ریاست کے بجائے نان اسٹیٹ
ایکٹر کو تر جیح دی جنہوں نے ملک میں فساد پیدا کیا۔ جو پالیسی موجود قیادت
جس میں سیاسی اور عسکری دونوں شامل ہے جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور
کسی بھی ملک میں مداخلت یا اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کو جرم
قرار دیا ہے ،بقول آرمی چیف جنرل راحیل شریف جن کانمبر دنیا کے سب سے ٹاپ
جنرلوں میں ہوا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان بغیر کسی تفریق
کے جاری رہے گا جب تک دشمن اور دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو شکست نہیں
ہوتی یا شدت پسند ہتھیار نہیں پھینکتے ان کے خلاف کارروائی جاری رہے گی ،
اس عزم کا اظہار انہوں نے بہت دفعہ کیا ہے اور کچھ دنوں پہلے ایک تقریب سے
اپنے خطاب میں کہا کہ 2016ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہوگاجس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ ملک کے عسکری ادارے اب بلاتفریق شدت پسندوں ، دہشتگردوں اوران
کے سہولت کاروں کے خلاف سنجیدہ ہے اور ان کا ہرصورت قلع قمع کرنا چاہتے
ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجود خارجہ پالیسی ملک کی ترقی اور
خوشحالی کا باعث بنے گی اور ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ بھی ہوگا ۔ جو
غلطیاں ماضی میں ہوئی ہے وہ ہوچکی ہے اب قدرت نے موقع دیا ہے کہ اپنی خارجہ
پالیسی کو صرف ملک کی حفاظت اور سکیورٹی تک محدود رکھیں۔ کسی بھی ملک کے
اندررونی سیاست اور معاملات میں دخل اندازی کے بجائے اپنے ملک کی حفاظت
کریں ۔ بھارت ، افغانستان ،ایران سمیت سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے
جائیں۔ ہمیں چین کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے جس کو ہم اچھا دوست مانتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ چین کیساتھ ہمارا تعلق سمندر سے گہرا اور پہاڑوں سے اونچا
ہے اور نہ معلوم اور کیا کیا ڈکری دیتے ہیں ۔ چین کہتا ہے کہ سب ممالک کے
ساتھ تعلقات اچھے رکھوں، کسی کو اپنا دشمن نہ بناؤ اور کسی ملک کے اندررونی
معاملات میں داخل اندوزی کے بجائے اپنے ملک کے ترقی اور معاملات پر توجہ دو۔
اب ہماری ان تمام شدت پسند یا فرقہ پرست جماعتوں کو ملک کی خارجہ پالیسی کو
سمجھنا چاہیے اور اپنے آپ کو ان تمام تنظیموں گروہوں سے دور کرنا چاہیے جو
ملک میں فرقہ پرستی ،شدت پسندی یا دہشت گردی کو فروغ دینے میں مدد کار ہو۔
جو لوگ جہاد یا اﷲ تعالیٰ کے نام پر زکواۃ،خیرات،صداقات یا مدد کررہے ہو یا
کرنا چاہتے ہو ،ان تمام کو اپنی اس طرح کی مدد بند کرنی چاہیے ۔ زیادہ تر
امکان یہ موجود ہوتا ہے کہ ایسا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ حکومت
اور عسکری اداروں کے واضح اعلانات اور پالیسی کے مطابق دہشت گردوں اور شدت
پسندوں کے سہولت کاروں سمیت ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو بھی کسی صورت
نہیں چھوڑا جائے گااور یہ حقیقت ہے کہ جب تک بلاتفریق ان سب کے خلاف
کارروائی نہیں ہوتی، ملک سے شدت پسندی اور فرقہ پرستی ختم نہیں ہو سکتی ۔
یہ حقیقت ہمیں مانی چاہیے کہ بہت سے مسائل ہم نے خود پیدا کیے ہے ۔بعض کو
جہاد کا نام دیا ہے تو بعض کو ملک دشمنوں کے خلاف قوت قرار دیا ہے ۔ہمیں
کشمیروں کی سپورٹ عالمی فورم پر ضرور کرنی چاہیے لیکن کشمیر کے اندرپاکستان
سے مداخلت کو بہرصور ت روکنا چاہیے۔ یہ خوش ائند امر ہے کہ ملک کی خارجہ
پالیسی اب تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے جس کو تمام سیاسی جماعتوں اور
مذہبی تنظیموں کو سمجھنا چاہیے اور اپنی سوچ ماضی کے بجائے مستقبل کو مدنظر
رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہیے تاکہ ملک مزید کسی اور جنگ کا شکار نہ ہوجائے۔
|
|