نیب کی کار کردگی اور اصل حقائق

جب بھی کرپشن کی بات ہوتی تو وہاں پر یک دم سے احتساب کانام بھی لیا جاتا ہے اور احتساب کا نام لیتے ہی قومی احتساب بیورو کا کردار اور اہمیت بھی سامنے آجاتی ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ ویسے تو ہم اپنے آپ کواسلامی جمہوریت پاکستان کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا ۔یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو اسلام کے پیرو کار ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان حرام مال نہیں کھا سکتا ۔کسی سے ناحق پیسہ لینایا اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو مالی نقصان پہنچانا ،اپنے عہدے یا اختیارات کا ناجائز استعمال کو اسلام نے جرم قرار دیا ہے۔اسلام ہی وہ مذہب ہے جنہوں نے کرپشن اور بداعنونی سے حاصل ہونے والے کمائی کو حرم اور قابل سز جرم قرار دیا ہے اور دنیاو آخرت میں اس کی سزا کی نوید بھی سنائی ہے لیکن ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔کرپشن کو اپنا حق سمجھ لیتے ہے جس کے لئے بداعنونی کرتے ہیں وہ بھی آخرمیں ہمیں چھوڑ لیتے ہیں اور ذلیل وخور ہونے کے ساتھ ساتھ بے چینی بھی محسوس کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم سبق حاصل نہیں کرتے۔آج ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی بداعنونی عرج پر ہے جس کی وجہ سے ہم کئی مسائل سے دوچار ہے۔

ملک سے بداعنونی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے قومی احتساب بیورو کے نام سے ادارہ موجود ہے جس کابنیادی مقصد سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر مالی کرپشن کو روکنا ، کرپٹ لوگوں کو سزا دینا اور ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس حاصل کرنا اور عوام میں انسداد بداعنونی کے بارے میں آگاہی پیداکرناہے لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ ہمیشہ الزامات کی زدمیں آیا ہے۔سیاسی رہنماو قتاً فوقتاً اس ادارے کے خلاف اپنے تخفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اس کو سیاسی انتقام والا ادارہ کہا جاتا ہے ۔ میڈیا میں بھی اس ادارے کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے ۔ سیاستدان ایک طرف سے اس ادارے کو بدنام کرتے ہیں تو دوسری طرف اس ادارے کو ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں کہ یہ ادارہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا جس کی وجہ سے کرپشن بڑھی ہے اور کرپٹ افراد کوسزا نہیں ملتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ادارے کی وجہ سے اربوں روپے اب تک کرپٹ افراد سے برآمد ہوئے ہیں اور بداعنون افراد کوسزائیں بھی ہوئی ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم جھوٹ اور غلط بیانی کو اپنا حق اور سیاست سمجھتے ہیں اور اپنی سوچ بنائی ہے کہ جس طرح میں سوچتا ہوں اسی طرح لوگوں کے خلاف کارروائیاں ہواور سزائیں بھی ملے اور خود تفتیش سے محفوظ رہو لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں، ہمارے سیاستدان یا لوگ ایک دوسرے کے خلاف الزمات تو اربوں کے لگاتے ہیں لیکن تفتیش میں ان سے کروڑں کاسراغ ملتا ہے جس کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ ادارے نے مک مکاؤ کر لیا اور اربوں کی کرپشن کر کے نیب نے کر پٹ ا فراد کو چند کروڑ روپے لے کر رہا کر دیا، جس کی تازہ مثال میڈیا میں آج کل زیر بحث آنے والی پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عاصم حسین کی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 13ارب روپے کی کرپشن کی ہے اور نیب نے ان کے ساتھ ایک ارب کی بلی بارگین کرکے ڈیل کردی ہے اور عنقریب وہ رہا ہوجائیں گے۔اسی طرح ایک نہیں بلکہ درجنوں مثالیں موجود ہے جن میں نیب نے بلی بارگین کر کے کرپٹ افراد کو آزادی دی ہے۔ میڈیا میں اکثر یہ بحث بھی ہو تی ہے کہ نیب نے کرپٹ افراد کو راستہ دکھایا کہ اربو ں کی کرپشن کر یں اور بعد میں چند کروڑ روپے دے کر معاملے کو ختم کر یں ۔یہ الزامات کتنے درست اور ٹھیک ہے اس کے بارے میں ، میں بعد میں بتاؤ ں گا لیکن یہاں پر میں صرف یہ عرض کرو کہ نیب ہی ملک میں واحد ادارہ ہے جو کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ان کوسزا اور رقم وصول کرتا ہے۔ اس ادارے میں یقینا اصلاح کی بھی ضرورت ہوگی اور اس میں چند کرپٹ آفیسر بھی ہوں گے لیکن مجموعی طور پر ادارے نے کرپٹ افراد کے خلاف بہت کامیاب کارروائیاں کی ہے ۔اربوں روپے کاکالادھند سرکاری اور غیرسرکاری لوگوں سے وصول کیا۔بہت سے غریب افراد کے ساتھ ہونے والے دھوکہ دہی میں لوٹ ہوا پیسہ ڈبل شاہ جیسے لوگوں سے نکلا اورملک کے خزانے کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بے نقاب بھی کیا ہے ۔ میں نیب کا کوئی تر جمان تو نہیں لیکن اس ادارے کے متعلق تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس ادارے کی کار کردگی اتنی بری نہیں جو تصویر میڈیا میں یا سیاست دان پیش کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اس ادارے کے متعلق عوام اور خواص کی یہ سوچ بنی ہے کہ یہ لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم پوری طرح وصول نہیں کرتی اور نہ ہی سزا دیتی ہے جس طرح میں نے شروع میں عرض کیا کہ ایک الزامات کی بات ہوتی ہے اور دوسری تفتیش کے بعد حاصل ہونے والی معلومات کی ۔نیب آفیسرز اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی شخص سے رقم وصول کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کرپٹ فرد کوسزا یا آزاد کرسکتے ہیں۔ نیب مکمل تحقیقات کے بعد عدالت کو تمام شواہد پیش کر تے ہیں ،عدالت اس شخص کو سزا یاجزا دیتا ہے۔ڈاکٹر عاصم کیس ہو یا دوسرے کیسز نیب بلی بارگین اس طرح نہیں کر تا کہ ایک ادمی نے 13ارب کھا لئے اور نیب ان سے ایک ارب لے کر رہا کر دیں گے بلکہ نیب ایک روپے بھی نہیں چھوڑتا جو ثبوت موجود ہوتے ہیں ان کے تحت ان سے رقم حاصل ہوتی ہے۔بلی بارگین نیب افسر اپنی مرضی سے نہیں کرتے بلکہ یہ اختیارات قانون نے ان کو دیا جو2001 میں عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی خان کیس میں سپریم کورٹ نے 32میں سے 28شق میں تبدیلی کی اور نیب قانون کی شق28کو چھوڑ دیا جو مجرم سے بلی بارگین کی اجازت دیتا ہے جس کی تفصیلات بہت ہے کہ کس طرح نیب تحقیقات کرتا ہے اور بعد ازاں بلی بارگین کرتا ہے ۔ مختصراً عرض ہے کہ نیب خود کوئی فیصلہ نہیں کرتا سب کچھ عدالت کے حکم پر ہوتا ہے اور قانون کے مطابق ہوتا ہے۔

بحیثیت ادارہ نیب میں اصلاح کی گنجائش بھی موجود ہے اورجن سیاستدانوں کو اس کے قوانین پراعتراض ہے وہ پارلیمنٹ سے اس میں تبدیلی بھی کرسکتے ہیں۔ ادارے کوسیاست سے پاک کرنے کے لیے چیئر مین کا انتخاب اسی ادارے کے اعلیٰ آفسر کو مقرر کرکے کیا جاسکتاہے لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب سیاست دان عوام سے جھوٹ بولنا بند کر یں گے اور اس ادارے کو ٹھیک کرنے کی ویل موجود ہو۔یہ نہیں ہوسکتا کہ جب کسی سیاسی جماعت یا فرد کے خلاف نیب کارروائی کرتا ہے تو ادارے پر الزامات لگانے شروع کریں کہ ہمیں ٹارگٹ کیا جارہاہے ۔یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سیاست دان حکومت میں بھی رہے ہیں اور کرپشن کے الزامات بھی ان کے اوپر ہے لیکن جب کسی کے خلاف کارروائی شروع ہوتی ہے تو الٹا نیب پر الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ادارہ ٹھیک نہیں، بجائے یہ کہ جو کمی بیشی موجود ہے اس کو دور کیا جائے۔ نیب کو مزید با اختیار بنایا جائے تاکہ کر پشن کے خلاف اقدامات کر نے اور کرپٹ افراد کو قابوکرناآسان ہوجائیں لیکن بد قسمتی سے سیاسی جماعتیں اپنی سیاست نیب کے اوپر کرتی ہے اور میڈیا بھی زیادہ تر خبر یں بغیر تحقیق کے چلاتا ہے جن سے اچھے آفیسرز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کرپشن کو روکنا ہرادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ جب کوئی فرد کرپشن کریں اس کو اسی وقت روکا جائے اور شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کومضبوط اور بااختیار بنایا جائے ۔ انفرادی سطح پر اختیارات کی حوصلہ شکنی ہو، تب ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ملک تر قی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے کہ جب سب کی نیت اور سوچ ملک کو ٹھیک کرنے کی ہو۔جن اختیارات کے تحت نیب کو چلایا جارہاہے اس کے مطابق نیب کی کار کردگی بہت حد تک ٹھیک ہے ۔ مزید بہتر کرنے کیلئے اس ادارے کو سیاسی اثرورسوخ سے پاک کیا جائے تاکہ ادارے کے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوکہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226379 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More