لہو کا قرض
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
وہ 20 جنوری کی ایک یخ بستہ صبح تھی ،دھندنے
ہرشے کواپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا،حدِنگاہ صفراور ہاتھ کوہاتھ سجھائی نہیں
دیتا تھا۔’’ جہنمیوں‘‘کے قبیلے کے کھیتوں میں چھپے چاروحشی باہر نکلے اورلگ
بھگ ساٹھے آٹھ بجے باچاخاں یونیورسٹی چارسدہ کی پچھلی دیوارپھلانگ کر
کمپاؤنڈمیں داخل ہوئے اورپھر تھوڑی ہی دیربعد یونیورسٹی کے درودیوار گولیوں
کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھے۔ دہشت گردوں نے نہتے طلباء پربموں اور گولیوں کی
بارش کردی ۔ یونیورسٹی کے گارڈزنے اُن درندوں کے بڑھتے قدم روک دیئے اور
اُس وقت تک اُن کامقابلہ کرتے رہے جب تک پولیس اورفوج کے جوان وہاں پہچ
نہیں گئے ۔پاک فوج کے کمانڈوزاور پولیس کے مشترکہ آپریشن سے لگ بھگ ڈیڑھ
گھنٹے میں وہ چاروں دہشت گردواصلِ جہنم ہوئے لیکن اکیس گھروں میں صفِ ماتم
بچھاگئے ۔یہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاورکے سانحے کے ایک سال ایک ماہ اورچار
دنوں کے بعدپیش آیا ۔عینی شاہدین کہتے ہیں کہ اگریونیورسٹی کے گارڈز دہشت
گردوں کو بَروقت روکنے میں کامیاب نہ ہوتے توشاید انسانی جانوں کا نقصان
اِس سے کہیں زیادہ ہوتا ۔صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی فضاء
سوگوار اورہر صاحبِ دِل کَرب اورصدمے سے دوچار ہے ۔سانحہ اے پی ایس پشاور
کے بعدیہ دوسرا سانحہ ہے جس میں دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر ہمارے دِلوں
پروار کیااور اُن معصوم پھولوں کو کچل ڈالا جن کادہشت گردی کی اِس جنگ سے
براہِ راست کوئی تعلق ہی نہ تھا ۔دینِ مبیں کی آڑمیں خون کی ہولی کھیلنے
والے یہ درندے مسلمان ہوہی نہیں سکتے کیونکہ میرے نبیؐ توعالمین کے لیے
رحمت بناکر بھیجے گئے۔ رَبّ ِ کائینات اورآقاؐنے تو حصولِ علم پرسب سے
زیادہ زوردیا ہے اِس لیے میں اُن وحشی درندوں ،اُن کے سہولت کاروں اوراُن
کے لیے دِلوں میں نرم گوشہ رکھنے والے ’’مولویوں‘‘ کوکیسے مسلمان مان لوں ۔میں
سمجھتی ہوں کہ جہنمیوں کا یہ قبیلہ جوکبھی طالبان کے روپ میں سامنے آتاہے
اورکبھی داعش کے ،دراصل دینِ مبیں کوبدنام کرنے کی ایک مکروہ سازش ہے اوریہ
امر مسلم الثبوت کہ بھارت اُن کی پُشت پراور امریکہ پیٹھ تھپتھپانے والا ۔شنیدہے
کہ سانحہ باچاخاں یونیورسٹی کے پیچھے بھی بھارت ہی کا ہاتھ ہے اورافغانستان
کے جلال آبادکے بھارتی قونصل خانے نے اِس سانحے کی تکمیل کے لیے دہشت گردوں
کی مالی امداد بھی کی اورطالبان کمانڈرنے جلال آبادمیں بھارتی قونصلیٹ سے
30 لاکھ افغانی کرنسی وصول کی ۔ہوسکتاہے کہ یہ پٹھانکوٹ ایئربیس پرحملے
کاردِعمل ہو کیونکہ پٹھانکوٹ ایئربیس حملے کے بعد 16 جنوری کوبھارتی
وزیرِدفاع منوہرپاریکر نے پاکستان کوموردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہا ’’پاکستان
نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پرہونے والے حملوں کی تحقیقات میں کوئی تعاون نہیں
کیا ۔پاکستانی ٹیم کوپٹھان کوٹ ایئربیس کے اندرجانے کی اجازت نہیں دیں گے ،ہماراصبر
جواب دے گیا۔دنیا اِس کے نتائج ایک سال کے اندر دیکھ لے گی ‘‘۔حالانکہ
بھارت ہی کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ بھارتی وزیرِداخلہ کے بیان
سے صرف دو دِن پہلے (14 جنوری کو) یہ کہہ چکے تھے کہ ’’ پاکستان کی سمت
درست اورجیش محمد کے خلاف کارروائی احسن اقدام ہے۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح کے
مذاکرات باہمی مشاورت سے مختصر مدت کے لیے ملتوی کیے گئے ہیں۔ بھارت
تحقیقات کے لیے آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کاخیر مقدم کرے گا ‘‘۔
ISPRکے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سانحہ باچا خاں یونیورسٹی
پربریفنگ دیتے ہوئے کہا’’حملہ آوروں نے افغان سِمز استعمال کیں ۔اُنہیں کِس
نے بھیجا اورکہاں سے کنٹرول ہوا ،سب پتہ چل گیا‘‘۔ 21 جنوری کوچیف آف آرمی
سٹاف جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی ،چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ
اورامریکی کمانڈرسے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ باچاخاں یونیورسٹی پردہشت گردوں
کے حملے کو افغانستان سے کالعدم تحریکِ طالبان کاآپریٹر کنٹرول کر رہاتھا
اِس لیے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی میں پاکستان کی مدد کی جائے لیکن
افغان حکومت نے کمال ڈھٹائی کاثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ دیا ’’باچاخاں
یونیورسٹی حملے میں ہماری زمین استعمال نہیں ہوئی‘‘۔ اب پاکستان نے امریکہ
سے مطالبہ کیاہے کہ افغانستان میں موجود مُلّافضل اﷲ اوردیگر دہشت گردوں کو
ڈرون حملوں سے ماراجائے کیونکہ کابل ، بھارت کے زیرِاثر ہے۔ وزیرِاعلیٰ
خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے بجاطور پریہ مطالبہ کیاکہ اگرحملہ افغانستان سے
ہواہے توسکیورٹی بڑھاکر افغان سرحدوں کو سِیل کیاجائے اور اگراِس میں
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے توبھارت سے بات کی جائے کیونکہ بھارتی
تواپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ہرواردات کافوراََ پاکستان پرالزام
دھردیتا ہے ۔دست بستہ عرض ہے کہ دھرتی ماں کے اِن نونہالوں کاخون ہم پہ قرض
اوربدلہ لینا ہمارافرض ۔
محترم عمران خاں نے باچاخاں یونیورسٹی کادَورہ کرنے کے بعدصحافیوں سے گفتگو
کرتے ہوئے کہاکہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ایک صفحے پرہے اورہم دہشت گردی
کوختم کرکے ہی دَم لیں گے ۔ حقیقت بھی یہی کہ جتنی دیرتک دہشت گردوں کو یہ
پیغام نہیں جائے گاکہ پوری قوم اپنے سارے سیاسی اختلافات بھلاکر دہشت گردوں
کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے ،دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہی رہیں گے ۔اِس
سلسلے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے بعض نیوزچینلز کاکردار کسی بھی صورت
میں لائقِ تحسین قرارنہیں دیاجا سکتا ۔ہماراالیکٹرانک میڈیاآزاداوربیباک
سہی ،یہ بھی بجاکہ میڈیاکو کنٹرول کرنے والا ’’پیمرا‘‘ خوابِ خرگوش میں
لیکن کیا خونم خون دھرتی ماں کی آبروکی حفاظت ہمارے الیکٹرانک میڈیاکا بھی
فرض نہیں ۔ کیاہمارے اینکرزاپنی ریٹنگ بڑھانے کے شوق میں اتنے بے لگام
ہوچکے کہ اُنہیں اتنابھی ہوش نہیں کہ کیا مناسب ہے اورکیا نامناسب ۔محترم
عمران خاں نے توپوری قوم کے ایک صفحے پرہونے کاپیغام دے دیالیکن الیکٹرانک
میڈیاپر یہ شورکہ محترم جنرل راحیل شریف نے توکہاتھاکہ دہشت گردوں کی
کمرتوڑی جاچکی اور 2016ء دہشت گردی کے خاتمے کاسال ہوگالیکن صرف ایک ماہ
میں دہشت گردوں کے حملے سے 146 سے زیادہ جانیں جا چکیں۔ اِن اینکرزکو چاہیے
کہ آپریشن ضربِ عضب سے لے کر اب تک ڈیڑھ سال کاریکارڈ نکال کردیکھ لیں تاکہ
اُنہیں بھی پتہ چل سکے کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں محیرالعقول کمی آئی
ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بجھتے دیئے کی لَوہے جوبجھنے سے پہلے بھڑکاہی
کرتاہے ۔عرض ہے کہ ٹی وی چینلزکے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کرچائے کی پیالی
میں طوفان اُٹھانا آسان ،بہت آسان لیکن ملک وقوم کی حفاظت کے لیے جان
ہتھیلی پررکھنا بہت مشکل اورعزم وہمت کی روشن مثال۔یہ فرض میرے وطن کی
افواج ، رینجرز ،پولیس اورایف سی بطریقِ احسن اداکر رہے ہیں۔ہمارے ہیروتو
یہی جو شہیدوں کے خون کاقرض اپنی جانوں کا نذرانہ دے کراداکر رہے ہیں ،
ہمیں یقینِ کامل کہ وہ دھرتی ماں کو دہشت گردی سے پاک کرکے ہی دم لیں گے۔
انشاء اﷲ |
|