پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سندھ حکومت
کی جانب توپوں کا رخ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست ہے ۔لیکن
یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی کی جو حالت اس بار ہوئی ہے کراچی کی تاریخ میں
ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا جو بدل کر بھتہ
خوروں کا شہر بن گیا ، مفاہمت کی سیاست نے ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ
دیئے ، تاریخ کا ایک باب تو مکمل کرلیا گیاکہ انتقال اقتدار مارشل لا کے
بغیر جیسے تسے بھی ہو سیاسی جماعتوں کی جانب سے بذریعہ ووٹ منتقل ہوا۔لیکن
بلدیاتی انتخابات کے بعد جو درگت کراچی کی بنی ہوئی ہے وہ ارباب اختیار سے
زیادہ عوام کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے جگہ جگہ غلاظت و کچرے کے ڈھیر اور نئے
آنے والے وزیر بلدیات جان خان شورو کی جانب سے جھاڑو پھیر صفائی مہم صرف
وقتی ثابت ہوئی اورفوٹو سیشن تک محدود ہوئی اب اس بات کا کیا رونا پیٹنا کہ
بلدیاتی اداروں میں ماضی میں ناظمین نے بہت زیادہ بھرتیاں کرلیں تھیں اس
وجہ سے اب فنڈ نہیں بچتا لیکن قابل غور بات تو یہ ہے کہ یہ بھی تو مفاہمت
کا حصہ تھا ۔بھرتیاں کہاں زیادہ نہیں ہے جہاں جس کا بس چلتا ہے وہاں اپنے
سیاسی کارکنان کی کھیپ کی کھیپ بھرتی کروادیتاہے۔ ریلوے کا محکمہ ہو ، پی
آئی اے ہو یا پھر اسٹیل مل ، ان جیسے کئی اداروں میں بے تحاشا بھرتیاں کس
نے کروائی کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے ، اب اسٹیل مل کی پیدوار صفر سے
بھی نیچے چلی گئی ہے پاکستان ریلولے کا خسارہ بلندیوں کے سفر پر ہے ، پی
آئی اے کی کارکردگی دنیا بھر میں شرمندگی کا سبب بنی ہوئی اس میں اگر
بلدیات اور واٹر بورڈ شامل ہوگئے تو یہ پاکستانیوں کے لئے کوئی اچھنبے کی
بات نہیں ہے۔
چارسدہ باچا خان یونیورسٹی میں نگرانی پر معمور سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف
کاروائی کا آغاز کردیا گیا ہے کہ پندرہ سکورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے
باوجود سہولت کار اسلحہ اندر لیکر کیسے پہنچ گئے اور اہم بات یہ ہے کہ خیبر
پختونخوا میں حساس علاقوں میں جب تقریبات منعقد کیں جاتی ہیں تو انتظامیہ
ازخود بھی سیکورٹی کا بندوبست کرتی ہے لیکن آرمی پبلک اسکول کے واقعے سے ہم
نے صرف ایک سبق سیکھا ہے کہ سانحہ ہونے کے بعد احتجاج کیا جا ئے گا ، اس پر
افسوس کیا جائے گا ۔ مذمتی بیانات جاری ہونگے ، فوٹو سیشن ہوگا اور سیاست
چمکائی جائے گی۔اس کے علاوہ حکومت نے یا تعلیمی اداروں نے کوئی سبق نہیں
سیکھا ۔ہم اب تک یہ کہہ کر دلوں کو بہلاتے رہے کہ یہ وہ دشمن ہے جو بچوں سے
ڈرتا ہے ، لہذا جب سال بھر ہوا تو ہم نے کہا کہ ہم دشمنوں کے بچوں کو
پڑھائیں گے ، لیکن دشمن میں تو انسانیت ہی نہیں ہے ۔ افغانستان کی سرزمین
سے آنے والے دہشت گردوں نے سرخ پھولوں کی سر زمین کو خون سے ایک بار پھر
نہلادیا ۔ آئی ایس دولت اسلامیہ اپنے دائرے کو بڑھاتے جا رہی ہے اور اس کی
بھرتیاں تیزی سے جاری ہیں۔ فرقہ واریت کا سورج سوا نیزے پر آگیا ہے ، اور
ہم اب تک گٹر کی سیاست سے ہی باہر نہیں نکل سکے۔ملک کے دوسرے حصوں میں
اسکول دہشت گردی کا نشانہ بنیں تو بیرون ملک امداد سے نئی آرائش و زیبائش
کردی جاتی ہے کراچی میں سرکاری کالجوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے ایسے جلا دیا
جاتا ہے تو حکومت کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ ایک بار اس کا دورہ تو کرلے۔
کچھ کر یا نہ کر ، میٹھا دے یا نہ دے کچھ میٹھا تو بول دے ۔مسئلہ اہم یہ
نہیں ہے کہ طلبا تو بوٹی مافیا سسٹم سے کامیاب ہو ہی جائیں گے کالجوں اور
اسکولوں کی کیا ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کی صفائی کیسے ہو ، اس
پر سیاست کیسے ہو ، گٹر کیسے صاف ہوں اور کچرے کیسے اٹھائے جائیں ۔حکومت کی
ترجیحات کا تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ سائیں سرکار آخر کیا کیا کرے ، تھر
میں بچے غذائی قلت سے مر رہے ہوں تو بچے کیوں پلاننگ کے تحت پیدا نہیں کئے
جاتے ، کراچی میں لوگ ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہو رہے ہوں تو لڑکے لڑکی کی
مشعوقی کا چکر ہے ، اختیارات میں توازن کا معاملہ ہو تو ایک دن میں قانون
سازی کردی جاتی ہے ۔ لیکن اس پر عمل درآمد کون کرائے گا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے
کہ قانون نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کرنے والے کہاں
ہیں۔پولیس اہلکاروں کی سیاسی بھرتیوں نے پولیس کو سیاسی بنا دیا ،کون دعوے
سے کہہ سکتا ہے کہ سرکاری ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں ، جو سیاسی
جماعت بھی اقتدار میں آتی ہے اس کے کارکن رسمی کاروائیاں کرتے ہیں اور
سیاسی جماعتوں کو ان کے حصے بانٹ دیئے جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ بے روزگاری میں کمی تو ہورہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے
کہ حق داروں کی حق تلفی ہو رہی ہے میرٹ کا مذاق بنا دیا گیا ہے پرچی سسٹم
تو کوٹہ سسٹم سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، کیونکہ میرٹ نہیں ہے۔ سرکاری
نوکریاں کسی بادشاہ سلامت کے کوٹے میں ہے کہ کوئی واقعہ ہوگیا تو متاثرہ
خاندان کے کسی فرد کو نوکری دے دی جائے گی اتنا معاوضہ ملے گا ، لیکن اس
میں ان کا کیا قصور جن کے ساتھ کوئی خدا نخواستہ حادثہ نہیں ہوا جس کے سبب
انھیں طویل قطاروں لگ کر اپنی درخواستیں جمع کرانی پڑتی ہیں لیکن تمام تر
پراسس کے باوجود انھیں ملازمت نہیں ملتی ، پرائیوٹ ادارے ڈیلی ویجز پر
ملازم رکھتے ہیں اور جب کسی بے وفامحبوب کی طرح ان کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے
تو نوٹس بورڈ پر لکھ کر لگا دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کل سے آنے کی زحمت نہ
کریں کیونکہ چھانٹی ہوگئی ہے، کنٹریکٹ کے قانون نے محنت کشوں کی طاقت چوس
لی ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ اب نوجوان کیا کرے ، کیونکہ اس کے پاس کرنے کو بہت
کچھ ہے وہ بے روزگاری کی بنا پر خود کشی کرسکتاہے وہ ڈکیت بن سکتا ، وہ چور
بن سکتا ہے وہ بھتہ خور بن سکتا ہے وہ تارگٹ کلر بن سکتا وہ کرایئے کا قاتل
بن سکتا ہے وہ لینڈ مافیا کا اہلکار بن کر سرکاری اراضیوں پر قبضہ کرسکتا
ہے۔ وہ منشیات فروشوں کے اڈوں پر کارندہ بن کر ڈرگ مافیا بن سکتا ہے۔ اس کے
پاس پھر سب کچھ کر نے کورہ جاتا ہے اور وہ اپنا مسئلہ حل کرلیتا ہے ۔ لیکن
انجام بہت بھیانک ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ اس کا انجام کیا
ہوگا ، کیونکہ وہ تو پہلے ہی ضمیر کی موت مر چکا ہے ۔ایسے سانس لینے والا
ایک مردہ جسم ہی سمجھنا چاہیے۔ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں اس سے کیا حاصل ہو
رہا ہے ہم سب اس سے واقف ہیں ۔ لیکن جب تک کرپشن کا سمندر بہتا رہے گا کوئی
نظام درست نہیں ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے مسئلے پیداکرنے والے کو حل
کرو ، مسئلہ پھر خود ہی حل ہوجائے گا ہم کوے کے کان کاٹ کر لے جانے پر کوے
کو دیکھتے ہیں اپنے کان کو نہیں ۔ ہمیں اپنا احتساب پہلے خود کرنا ہوگا ۔مسئلہ
پھر مسئلہ نہیں رہے گا ۔
" |