اقتدار تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبریں ہماری

پنجاب حکومت کی پھرتیاں اور لاہور کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر دل ،،گارڈن،گارڈن،،ہوجاتا ہے بھلے دور میں ایسا لاہور ،انگریزی فلموں،میں دیکھنے کو ملتا تھا مگر آج کل تو ،لاہور ،لاہور ہے جس نے اب لاہور نہیں دیکھا ،،اوہ جمیا ای نئی،،۔میٹرو بس کے بعداورینج ٹرین نے انتظامیہ کی ،،پوشل،،پر پاؤں رکھا ہوا ہے جدھر دیکھو اورینج ٹرین آ رہی ہے اورینج ٹرین جا رہی ہے کے نعرے سنائی دیتے ہیں جسکی مقبولیت کا اندازہ مسافر خانوں،کی بند اور غلاظت و بدبو سے بھرپور لیٹرینوں کے دروازوں،،لاہور کے مین روڈز پر لگی ،،فلیکسوں،،اور ماہانہ ،،وزارت منہ ماری،،کا قلمدان تھامے ،،ٹی وی ،پروگراموں میں بیٹھے (ن)لیگ کے قومی و صوبائی ممبرانوں کے منہ سے سن سن کر اب اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی ہے۔شیر پنجاب،خادم اعلی پنجاب،ہمت فین،مائیک اڑانے والے مردآہن،اور دن رات منصوبوں کو مکمل کروانے کی فکر میں پریشان حال وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو دیگر صوبے کے چھوٹے چھوٹے شہروں کا کیاخیال کیونکر نہیں آ رہا مسلسل وزارت اعلی پنجاب کی سیٹ پر براجمان اور عوامی تکالیف میں خود بیمار ہو جانے والا خادم اعلی پنجاب صوبے کی کسی بھی نکر پر ،،ریپ ،،کی خبر پر،، اقتدارکا اڑن کٹولہ،،لے کر فوری پہنچ جاتا ہے مگر چھوٹے چھوٹے شہروں میں بسنے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کون کرے گا ؟؟

پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے صوبہ بھر میں ہونے والی اموات کا جواب کون دے گا؟؟
مین اور چلتے روڈز کو ون وے نہ کرنے پر حادثات میں مرنے والوں کے ورثا کو جواب کون دے گا؟؟
چھوٹے شہر کے ہسپتالوں میں ادویات،،ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرنے والی اموات کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟

کیونکہ پنجاب حکومت کی کوئی جامع پالیسی ہی نہیں سامنے آتی ہے چھوٹے شہروں میں بسنے والی عوام کے چھوٹے چھوٹے مگر بنیادی وہ مسائل ہیں جنکو حل نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ،،ذہینی معذور،اور بیمار و لاغر پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے گئے پینے کا صاف پانی عوام کی پہلی ضرورت ہے بدقسمتی سے لاہور سمیت صوبہ بھر میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے کرپشن کا جال بچھانے کے لیے ،،فلٹریشن پلانٹ،،کہیں کہیں لگائے گئے جسمیں انتظامیہ نے لاکھوں روپے کا کرپشن ٹیکہ لگاتے ہوئے ،انتہائی ناقص اور گھٹیا ترین مٹریل،،سے تیار فلٹریشن پلاٹ نصب کروائے جو چالو ہوتے ہی عوام کو بے موت مارنے کے پروانے جاری کرنے لگے۔کیونکہ فلٹریشن پلانٹ جب نصب ہوتا ہے تو پانی پہلے حصے میں فلٹر ہوتا ہے اور دوسرے حصے میں بجلی سے چلنے والے راڈوں سے گزرتا ہے جہاں سے گزرتے وقت پانی میں موجود ،،بکٹیریا،،ختم ہو جاتا ہے اور عوام کو پینے کا صاف پانی ملنے لگتا ہے مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے ۔تھرڈ کلاس فلٹریشن پلانٹ کے راڈ پہلے ایک دو روز میں ہی کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اور بکٹریا کتم ہونے کی بجائے مزید جنم لینے لگتا ہے کمال ایڈمنسٹریشن کا حال کہ اگر فلٹریشن پلانٹ آٹھ ،دس سال قبل لگائے گئے ہیں تو انکے فلٹر ہی تبدیل نہیں کیے جا سکے جسکی وجہ سے بکٹیریا ساتھیوں سمیت عوام سے ،،جپھیاں،،ڈالتا پھرتا ہے اگر محکمہ کی کالی کتابیں کھولی جائیں تو فلٹر اور راڈ سینکڑوں بار تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں مگر بے بس،مجبور،لاچار،پریشان ،،بیچار ی عوام،،خادم اعلی کے جھوٹے نعروں،پر لڈیاں ڈالتے ،بے کار فلٹریشن پلانٹ سے مضر صحت پانی ،کینیوں،کولروں،بالٹیوں،میں بھر بھر کر لے جاتے ہیں پینے کا صاف پانی سمجھ کر پینے والے ،ہیپا ٹائیٹس،جگر،معدہ،اور پیٹ کی بیماریوں کے مریض سینکڑوں کی تعداد میں اوپر جا چکے ہیں اور ایک لمبی لائن ہے جو حکومتی اور انتظامیہ کے دھوکھے میں اوپر جانے کو تیار کھڑی ہے بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خادم اعلی کو لاہور کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا یا نظر آنے نہیں دیا جاتا کیونکہ پینے کے صاف پانی کی طرح ہی اب ڈی سی اوز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ایک نئے کام پر لگا دیا گیا ہے کہ،، بھٹہ مزدوروں،،کے بچے کو سکول بھیجا جائے بتایا گیا ہے کہ اسکا ڈائریکٹ فائدہ بھی ملک و قوم اور غریبوں کو ہوگا ۔بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو سکول ڈاخل کروانے اور ،،بھٹوں،،پر چھاپے مار کر بچوں کو آزادی دلانے کے لیے ضلع و تعصیل کے افسران ،،ڈانگیں،،تھامیں ،بھٹوں،،پر چھاپے مار رہے ہیں اور بچوں کے ساتھ تصاویر بنوا کر افسر شاہی کو خوش کیا جا رہا ہے ،قرض پہ قرض لینے والا بگلیں بجا رہا ہے ڈیڑھ کروڑ لگا کر عزت دار بزنس کا خواہش مند جیل کی یاترا کو جا رہا ہے ۔،،اوہ بھائی،،بھٹہ مزدوروں کو آزادی کب ملے گیََ؟؟کون دلائے گا؟؟کیا وہ آزادی لینا چاہتے ہیں ؟؟یہ وہ سوال ہیں اگر آرڈنینس بنانے والے یا ترمیم کر نے والے سے ہی پوچھ لیے جائیں تو جواب نہیں ملے گا ۔رہی تعلیم دلانے کی بات تو زبردستی کس کس کو سکول داخل کروایا جائے گا یا پھر ترمیمی آرڈیننس میں یہ شق رکھ دی جاتی ،،کہ بھٹہ مالک صبح سویرے اٹھے گا مزدوروں کے بچوں کو تیار کروائے گا اور بیگ پکڑ کر سکول چھوڑنے جائے گا ،،چھٹی ٹائم لینے کی ذمہ داری بھی اسی بدنصیب کی ہو گی۔بھٹوں پر مزدوری کرنے والوں نے گھر کے افراد گن کر بھٹہ مالک سے قرض لیا ہوتا ہے اور بچون کے ہمراہ کمال ایمانداری سے صرف اتنا ہی کام کرتے ہیں جس سے بمشکل گزارہ ہو اور یہ لوگ بھٹوں پر نسل در نسل آباد ہیں بھٹہ مزدور نے گو لاکھوں کا قرض حاصل کر رکھا ہوتا ہے اسکے باوجود سر درد ،ڈلیوری،خوشی،غم،اموات سب کچھ بھٹہ مالک کے ذمہ ہوتا ہے ڈلیوری ہو یا موت بھٹہ مالک کے گھر ہی ہوتی ہے کیونکہ تمام خرچہ اسی نے اٹھانا ہوتا ہے تھوڑی کمی بیشی ہوئی رات کو سامان اٹھایا لاکھوں روپے کا قرض لینے والے غائب ہو جاتے ہیں۔اسی طرح قرضہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس قرض کو اتارنے کے لیے بھٹہ مزدور اپنی کم سن اولاد کو بھی ،،دین اور دنیا،،کا شعور دیے بغیر کام پر لگا دیتا ہے اس میں بھٹہ مالکان کی گرفتاریاں اور حوالات ،،یاترا،،ظلم ہی نہیں حکومتی غنڈہ گردی کہا جائے تو کم نہیں ہو گا اگر چائلڈ لیبر ایکٹ کے مطابق چودہ سال سے کم عمر بچہ ،کسی ہوٹل،دوکان،بھٹہ،وڈیروں کے ڈیروں میں،امیروں کی کوٹھیوں،چائے خانوں،پر مزدوری کرتا پایا جائے تو اسکے والدین کو یا وارث لو جیل بھجوایا جائے ،انکو جیل کی ہوا کھانا پڑے گی تو اس ایکٹ کے مثبت اثرات بھی حاصل ہوتے اور قانون بھی حرکت میں نظر آتا ۔اب جس نے مخالفین کو جیل بھجوانا ہو گا چودہ سال سے کم عمر بچہ اسکے پاس کام کرے گا ،خود ہی انتظامیہ کو اطلاح کی جائے گی اور پھر لاکھوں کا قرض معاف ،مالک جیل میں ہوگا ۔پاکستان میں جب بھی کوئی آرڈیننس پاس کیا جاتا ہے یا کسی میں ترمیم کی جاتی ہے تو شرم کی بات ہے کہ اس قانون کو بنانے والے اسکی ،،الف،ب،،کو ہی نہیں جانتے ہوتے ۔خادم اعلی صاحب اس بھاگ دوڑ،پکڑا ،پکڑائی،کی بجائے عملی طور پر اقدامات کرتے ہوئے پنجاب بھر کے چھوٹے بڑے شہروں،قصبوں،میں ہیپا ٹائیٹس،جگر،معدہ،اور پیٹ کی بیماریوں میں پل پل مرتے مریضوں کو پینے کا صاف پانی دیکر انکی جانیں بچائیں،ہماری آنے والی نسلوں کو بچائیں،اور مزیڈ جو ان موذی امراض میں مبتلا ہونے والے ہیں ان خاندانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ورنہ اقتدار کا ،،اڑن کٹولے،،پرکوئی ایک نہیں بیٹھتا اور انقلابی اقدامات نہ کرنے والوں کو کبھی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا گیا ہے۔تعصیل و ضلعی انتظامیہ کو عوام کے بنیادی مسائل ختم کرنے پر لگائیں اور پینے کا صاف پانی مہیاء کروائیں تا کہ ،،تمہارے اقتدار میں،،،ہماری قبریں نہ بنتی جائیں،،۔اور سنا ہے کہ قبرستانوں میں،میٹرو بسیں اور اورینج ٹرین نہیں چلتی،،۔
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 43 Articles with 31378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.