دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن۔۔۔۔؟

آج ملک کی مسلح افوج سمیت تمام اداروں کی ایک ہی نیت ہے کہ دہشتگردی کو شکست دی جائے ملک سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کا جن پھر بوتل میں واپس چلا جائے ،لیکن ہر طرح کی کوشش کے بعد نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ملک کے دشمن نئی طاقت سے حملہ آور ہوتے ہیں،اسکی کچھ وجوہات ہیں ،من حیث القوم ہمارا المیہ ہے کہ ہم پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر دہشت گردی کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں ،شدت پسند تو ہمارے نشانے پر ہوتا ہے مگر شدت پسندی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،انتہا پسند شخصیات پر تو قانون اپنی گرفت مضبوط کرتا ہے مگر انتہا پسندی جوں کی توں ہے جب تک انتہا پسند اور دہشت گرد کی بجائے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کو ختم نہیں کریں گے معاملات جوں کے توں چلتے رہیں گے ۔۔۔اگر آج ہم نے کالعدم تحریک طالبان ،لشکر جھنگوی یا پھر کسی اور کالعدم تنظیم تو ختم کردی ہے مگر وہی ’’سوچ‘‘کسی اور تنظیم کے ساتھ مل کر اسی ڈگر پر چل پری ہے ،حکومتی موفق کے مطابق اگر بالا تنظیمں یا ان کے لوگ پاکستان میں داعش کو کوش آمدید کہہ رہے ہیں تو پھر اسی سوچ کو ختم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی دہشت گردتو آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ نے ختم کر دئیے مگر اس سوچ کو پروان چڑھانے والی ’’نرسریوں‘‘ کے بارے میں ہم نہیں سوچیں گے تو قوم کا امتحان یونہی چلتا رہے گا اور معصوم بچوں کی آہ وبکاہ میرے وطن کی فضاؤں کو ایسے ہی غم زدہ رکھے گی۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم ماضی میں جا کر حقائق دیکھے جائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کا پاکستان پانچ سال پرانے پاکستان سے مختلف ہے پاک فوج نے گزشتہ دو سالوں میں جس جانفشانی سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا ہے اس اے انکار ممکن نہ ہے لیکن یہ بھی ایک حققیت ہے کہ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے ،جنرل راحیل شریف نے سال کی ابتدائی روز کہا تھا کہ سال2016ئدہشت گرودں کے خاتمے کا سال ہے آرمی چیف کی یہ سوچ بہت مثبت تھی جس کو پورے ملک میں خوب پذیرائی ملی ۔۔۔لیکن گزشتہ عشرے میں ہونے والے واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ سب اتنا آسان نہ ہو گا دہشت گرد ہر مرتبہ نئے روپ میں وار کرتے ہیں جس کا جواب قانون نافذ کرنے والے ادارے مزاحمت کی صورت میں دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔۔۔؟اس کی خاص وجہ راقم نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ اہم سول ملٹری انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں کوئی مربوط تعلقات کار مرتب کرنے میں تاحال کوسوں دور ہیں اور یہی چیز دہشت گردی کی موثر روک تھام کے لئے بہت ضروری ہے تمام متعلقہ افراد میں اس احساس کی موجودگی کے باوجود تا حال کوئی میکنزم کی صورت پذیر نہیں ہو پایا جس سے متعدد سیکورٹی ایجنسیوں کے کام کے فوائد حاحل کئے جا سکیں ۔۔۔۔۔۔جبکہ کچھ خاص حوالوں سے تو یہ تعلقات ابھی بھی مختلف سروسز کی ’’باہمی رقابت‘‘سے متاثر ہیں ۔۔۔؟پس منظرمیں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں قوم اپنی سیکورٹی ایجنسیوں سے لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے بہترکام کی امید رکھتی ہے وہیں سیکورٹی ایجنسیاں ابھی تک ایک دوسرے سے بھر پور طریقے سے تعاون نہیں کر رہی ہیں۔۔۔۔؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر تمام سیکورٹی ایجنسیاں اپنے مابین بہتر روابط اور ارتباط یقینی بنا لیں تو نتائج کرشماتی نوعیت کے ہوسکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ان میں سے ایک ہے کہ تمام تر اچھے کام کا کریڈٹ چند لوگوں کو دینا اور دیگر کے غیر معمولی کام کو بھی نظر انداز کر دینے سے مختلف سروسز کے مابین رقابتیں جنم لیتی ہیں اور اس سے مجموعی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے اس پالیسی کو بھی از سر نو دیکھنا ہو گا سب لوگوں کو ان کے کام کے مطابق ان کی پشت پر تھپکی ملیاور اس طرح بہترین نتائج حاصل ہو سکیں ۔۔۔۔اور اسی طرح تمام جاسوس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے باہمی طے شدہ مفصل نظام کے تحت ایک دوسرے سے رابطے کریں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ سال وازارت داخلہ نے نیشنل انٹرنل سیکورتی پالیسی میں ایسا میکنزم تشکیل دیا تھا لیکن نیکٹا میں شامل ہونے کے باوجود اس کی مشق نہیں کی جا سکی اور نہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد ہی ایسا ہو سکا ،وفاقی حکومت کی 33تنظیموں ہیں جن سے ملک کا قومی سیکورٹی آپریٹس تشکیل پاتا ہے ، اور ان کی افرادی قوت 6لاکھ سے زیادہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعاد پاک فوج سے بھی زیادہ ہے ان 33داخلی سیکورٹی ایجنسیوں میں آئی ایس آئی ،آئی بی ،نیکٹا،قفاقی پولیس ،گلگت بلتستانپولیس،آزاد جموں کشمیر پولیس،آزاد جموں کشمیر سرحدی پولیس،خاصہ دار برائے فاٹا،ایم آئی ،ایئر انٹیلی جنس،نیول انٹیلی جنس،میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی،ایئرپورٹ سیکورتی فورس ،ایف آئی اے،ایف سی کے پی، ایف سی بلوچستان،پاکستان رینجرز پنجاب ،پاکستان رینجرز سندھ،کوسٹ گارڈ،جی بی اسکاوٹ،آئی سی ٹی پولیس،انیٹی نارکوٹیکس فورس،فرنٹیر کانسٹیلبری،میڈرل لیویز،موٹر وے پولیس،فیڈرل بورڈ آف ریونیو انٹیلی جنس،ریلوے پولیس اور چاروں صوبائی پولیس سروسز ودیگر خصوصی شاخیں جن میں (سی آئی ڈی،اور بلوچتان لیویز شامل ہیں ) ڈی جی ملٹری پولیس اور چترال باڈرز پولیس شامل ہے ،وہ سب اہل اختیار جو بار بار کہتے رہے کہ دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے کیا وہ اب بھی اپنے دعوؤں پر قائم ہیں ۔۔۔؟ کیا چارسدہ یونیورسٹی پر خوفناک حملہ ہمارے طاقتوار خفیہ اداروں کی ناکامی نہیں ۔۔۔؟ کیا ایسے تمام دعووئں کو غلط ثابت نہیں کرتا۔۔۔۔؟ ان سوالات پر غصہ ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کیا جائے اوردا خلی و خارجی پالیسی میں موگود نقائص کو دور کرنے کے لئے سیاسی و فوجی قیادت پہلے سے بہتر کوئی لائحہ عمل ترتیب دے گی۔۔۔۔۔۔؟
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.