فیصل شہزاد اور امریکی خدشات.......
ٹائم اسکوائر کا معاملہ کچھ بھی ہو مگر ساڑھے سولہ کروڑ پاکستانیوں کی
اکثریت اِس بات پر بڑی حد تک متفق ہے کہ امریکا نے ٹائم اسکوائر بم سازش
میں امریکی شہرت کے حامل ایک پاکستانی نوجوان فیصل شہزاد کو اپنی اِس ساری
سازش میں دانستہ طور پر خود ہی ملوث کر کے یہ ثابت کرنا چاہا ہے امریکا میں
رہنے والے ہر پاکستانی سے امریکا کی سالمیت کو خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ
آج امریکا اپنے یہاں بسنے والے ہر پاکستانی کا تعلق زبردستی کسی نہ کسی
دہشت گرد گروپ اور شدت پسند تنظیم یا طالبان کے گروپ سے رابطہ ظاہر کر رہا
ہے۔ اور دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ پاکستانی آج نہ صرف امریکا
بلکہ کہ ساری دنیا کے لئے بھی خطرے کے باعث ہیں۔ جبکہ مجھ سمیت آج ہر
پاکستانی یہ امریکی اور بھارتی سازش سمجھ چکا ہے کہ دنیا بھر میں
پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دینے کا یہ عمل کس کا ہے جس کے لئے آج امریکا
یہ کام خود انجام دے رہا ہے۔
جبکہ امریکا یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ پاکستان میں بسنے اور
امریکا میں رہنے والے اکثر پاکستانیوں کا تعلق نہ تو کسی گروپ سے ہے اور نہ
ہی اِن کی ایک بڑی تعداد طالبان کو پسند ہی کرتی ہے۔ مگر پھر بھی امریکا ہے
کہ وہ بھارتی زبان استعمال کر کے یہ تاثر ساری دنیا پر قائم کرنا چاہتا ہے
کہ امریکا سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کا تعلق کسی
نہ کسی شدت پسند گروپ سے ضرور ہے۔ کیونکہ آج امریکا پاکستان سے متعلق جن
خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہا ہے کچھ اِسی قسم کے خیالات کا اظہار
بھارت بھی گزشتہ دنوں کرچکا ہے جبکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ
کیا وجوہات ہیں کہ امریکا بھی آج بھارت کی زبان بول رہا ہے.....؟دنیا کے
دیگر اسلامی ممالک مسلمانوں کو چھوڑ کر صرف پاکستانی مسلمانوں کو ہی دہشت
گرد گرداننے کے لئے نت نئے منصوبے اور سازشیں تیار کر رہا ہے اور اپنے
حواریوں کے ساتھ اپنے اِس مشن پر کمر بستہ ہے .....اِس کا باریک بینی سے
جائزہ لینا ہمارے حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ اِس کی گہرائی تک جائیں کہ ہم
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھی ہونے کے باوجود بھی امریکا کو
پاکستان کے کسی بھی قول و فعل پر اعتبار کیوں نہیں رہا ہے ......؟اور وہ
بھارت اپنے یہاں ہونے والی ہر دہشت گردی کے ڈانڈے ترنت پاکستان سے ہی کیوں
ملا رہا ہے......؟
اور کیا وجہ ہے ایک امریکی شہریت کے حامل پاکستانی نوجوان فیصل شہزاد کے
ذاتی عمل کو بھی جواز بنا کر ایک بار پھر لومڑی جیسی آنکھوں والی تیز و
عیار امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے گزشتہ دنوں پاکستان سے متعلق جو
زبان استعمال کرتے ہوئے اِسے دھمکی دی ہے اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
امریکیوں نے فیصل شہزاد کے بارے میں حتمی تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل ہی
انتہائی عجلت میں پاکستان سے متعلق اپنے آئندہ کے جس لائحہ عمل کا اظہار کر
کے پاکستانیوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے اِس سے یہ انداز بخوبی
لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا پاکستان کو صرف اپنے ہی مقصد کے لئے استعمال
کرنا چاہ رہا ہے جس کے لئے ہلیری کلنٹن نے ایک طرف پاکستان کو لالچ اور
دوسری جانب دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا
پاکستان سے مزید تعاون کی توقع رکھتا ہے اور اگر اسلام آباد کہے تو امریکا
پاکستان کو اِس معاملے میں مزید امداد بھی دینے کے لئے تیار ہے تو وہیں
امریکی لیڈی چالاک وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان کو یہ دھمکی بھی دی
کہ اگر مستقبل میں ٹائمز اسکوائر کی طرز کا کوئی واقعہ رونما ہوا تو
پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے اور نہ صرف امریکی لیڈی وزیر خارجہ
نے ہی اتنا کچھ کہا ہے بلکہ امریکی نائب مرد وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا
رابرٹ بلیک نے بھی ہلیری کی طرح پاکستان سے متعلق سخت ترین زبان استعمال کی
اور پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پنجاب سے دہشت گردوں کے
اڈے ختم کرے کیونکہ کالعدم لشکر طبیہ امریکا اور پاکستان کے لئے خطرہ ہے
اور بات یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ امریکی اٹارنی جنرل ایک ہولڈر نے بھی
پاکستان سے اپنی کدورت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹائمز اسکوائر بم سازش
میں پاکستانی طالبان ہی ملوث ہیں اور ہمیں اِس کے شواہد مل گئے ہیں اور اِس
کے علاوہ امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی اور وائٹ ہاؤس میں نائب مشیر جان بریٹن
نے بھی اپنے اپنے دلوں کی بھڑاس ٹائمز اسکوائر بم سازش میں پاکستانی طالبان
کو ملوث قرار دے کر نکالی ہے۔
جبکہ اِس موقع پر اِن امریکی رہنماؤں کا بس یہ ہی اسرار تھا کہ پاکستان
دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ ہاں البتہ !اِن امریکی رہنماؤںنے دبے
دبے الفاظ میں اِس بات کا اظہار کر کے پوری پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو
بھی ایک ایسے مخمصے اور الجھن سے دو چار کردیا ہے کہ ”ماضی میں ڈبل گیم
ہوتا رہا ہے“اِس کے بعد آخر میں پاکستانی قوم امریکیوں سے یہ پوچھنا چاہتی
ہے کہ امریکی یہ بھی بتائیں کہ ماضی میں کس کی جانب سے ڈبل گیم ہوتا رہا ہے
... پاکستان کی طرف سے یا امریکیوں کی جانب سے.....؟ اَب جبکہ امریکیوں کی
جانب سے اِس بات کو منظرِ عام پر آجانے کے بعد یہاں پاکستانیوں کی یہ ایک
سوچ بن چکی ہے کہ ماضی میں جب بھی کوئی ڈبل گیم ہوا وہ خود امریکیوں کی
جانب سے ہی ہوا ہے۔ اور آج بھی جس ڈبل گیم کا تذکرہ امریکا نے کیا ہے
یقیناً اِس کے منظر اور پس منظر میں امریکیوں کی ہی کوئی سازش اور نئی چال
ہوگی جو کسی نئے جال کے ساتھ سجائی جارہی ہے اَب اِس کی جانچ پڑتال کا کام
تو ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ وہ کسی درست سمت کا تعین کرتے ہوئے اِس جانب چل
پڑیں کہ ہر بار ڈبل گیم کی بازی اور بساط بجھانے والا امریکا اِس مرتبہ
پاکستان کے ساتھ کیا گیم کرنا چاہتا ہے۔
بہر کیف! یہ حقیقت ہے اور اِس حقیقت کو اَب ہمارے حکمرانوں کو بھی تسلیم
کرلینا چاہئے کہ جب بھی امریکیوں نے پاکستان کو کسی بھی مد میں کوئی امداد
دی یا دینی چاہی تو اُنہوں نے دہشت گردی سے متعلق ہر بار پاکستان پر کوئی
نہ کوئی ایسی سخت ترین شرط ضرورعائد کردی کہ جس سے پاکستان مشکلات کا شکار
ہوگیا اور مجبور ہوا کہ وہ اِن کی شرط پر من وعن عمل کرے یا پھر اِن کی دی
گئی امداد کو واپس کردے اور جب امریکیوں کو اِس بات کو پکا یقین ہوگیا کہ
مجبور اور بے بس پاکستان ہماری امداد کے عوض وہ سب کچھ کر گزرنے کو ہمہ وقت
تیار رہتا ہے جو ہم اِس سے کروانا چاہتے ہیں تو پھر امریکی ایک طرف تو
پاکستان سے اپنی اُلٹی سیدھی شرائط کی پابندی کراتے رہے تو اُدھر ہی اُنہوں
نے ایک حربہ یہ بھی استعمال کرنا شروع کردیا کہ اِسی دوران امریکیوں نے
اپنی سازشی کہچڑی کو پریشر کُوکر میں بنانے کا ارادہ کچھ یوں کیا کہ اُنہوں
نے اپنے یہاں دہشت گردی کے حوالے سے ٹائمز اسکوائر کی طرح کا کوئی نہ کوئی
ایسا من گھڑت واقع بھی گھڑ لیا کہ اِس کا سارا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا
اور خود ہی چیخنے چلانے لگے کہ پاکستان اپنے یہاں قائم دہشت گردی کے تربیتی
مراکز کو ختم کرے جہاں سے دہشت گرد نکل کر آج بھی دہشت گردی کے مر تکب
ہورہے ہیں۔
اور یوں امریکیوں نے اَب تک ایسے کئی اپنے خودساختہ تخلیق کردہ ڈراموں اور
اِس کے کرداروں سے دنیا کو یہ ظاہر کرانا چاہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں پاکستان کو ہماری دی گئی اتنی امداد اور تعاون کے باوجود بھی اَب تک
پاکستان دہشت گردوں کے خلاف ہماری توقعات کے مطابق کسی بھی قسم کی تسلی بخش
کاروائی نہیں کر پایا ہے جس سے دہشت گردوں کو اپنی حکمت عملی بنانے اور نت
نئے منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع مل رہا ہے اور ہم اِنہیں ختم کرنے کے لئے
پاکستان کو جتنی امداد دے رہے ہیں اُس سے پاکستان سمیت امریکا سے دہشت گرد
اور دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے اُلٹا اور بڑھتی جارہی ہے جس پر امریکیوں
کا یہ کہنا ہے کہ اِن کی ہر لمحہ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ تشویش میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اِس کے ساتھ ہی ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک قابل ِ
افسوس امر یہ بھی ہے کہ اَب تو امریکیوں نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ بھی کہنا
شروع کر دیا ہے کہ پاکستان ہماری دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی امداد کو
کسی اور مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس
تذلیل آمیز جملے کے بعد تو اَب ہمارے حکمرانوں کے لئے سوچنے اور اِس کا سخت
ترین نوٹس لینے اور امریکیوں کو اِس کا منہ توڑ جواب دینے کا مقام ہے کہ یہ
امریکیوں کو بتا دیں کہ اِن کی امداد اُن ہی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی جس
مد میں یہ پاکستان کو امدا دے رہے ہیں اور اِنہیں پاکستان کے اِس کردار پر
کوئی شک نہیں کرنا چاہئے جو پاکستان دورِ مشرف سے آج تک نیک نیتی اور خلوص
کے ساتھ اداکر رہا ہے۔
اگرچہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ کئی سالوں سے امریکا کے
ساتھ ہے مگر پھر بھی امریکیوں کے جسم پر نائن الیون کے لگے گھاؤ سے پاکستان
کے کردار پر شک کی ٹِیسیں اُٹھتی رہتی ہیں حالانکہ پاکستان آج بھی امریکی
جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر وہ کچھ کر رہا ہے جو اِسے کرنا چاہئے اور سونے پر
سہاگہ یہ کہ پھر بھی امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اِس سے بڑھ کر بہت کچھ
کرے جس سے اِسے یہ یقین ہوجائے کہ پاکستان اَب امریکا کے لئے ہی سب کچھ کر
رہا ہے اور اَب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان یہ امریکی توقع کب پوری کرتا
ہے.....؟ |