پٹھان کوٹ پرپاکستان سے امریکی صدرکی ڈومورکی ضد مضحکہ خیزہے
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
جیسا کہ پچھلے دِنوں بھارتی خبرراساں ادارے
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں پہلے امریکی سیاہ فام صدر بارک
اوباما نے بڑے ملے جھلے انداز سے پاکستان کو چمکارتے اور دھمکاتے ہوئے
کہاہے کہ پاکستان کی شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی پالیسی درست
تو ہے تاہم پاکستان کو مزیدموثراقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘‘ گوکہ امریکی صدر
نے بھارتی خبرراساں ادارے کو دیئے گئے اپنے اِس انٹرویومیں ایک بارپھر
پاکستان سے ڈومورکا مطالبہ کردیاہے۔
اَب یہاں ہمیں یہ ضرورسوچنااور غور کرناہوگاکہ یقیناامریکی صدر کے اِس
مطالبے کے پیچھے بھی بھارتی ڈکٹیشن کا بڑاعمل دخل ہے آج اگر اوباما نے
پاکستان سے ڈومورکی رٹ لگائی ہے تو اُنہوں نے ایسے ہی یہ رٹ نہیں لگائی ہے
بلکہ سوفیصدی اِس رٹ کے پسِ پردہ وہ بھارتی التجائیں اور درخواستیں ہیں جو
بھارتیوں نے امریکی صدر سے کیں ہیں اور اِس طرح بھارتی امریکی صدر سے
پاکستان پرڈومور کا دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور امریکا نے بھی
خطے میں پاکستان سے زیادہ بھارت سے اپنے مفادات کے حصول کے عوض بھارت کی
خوشنودی کو مقدم جانتے ہوئے پاکستان سے ڈومور کی بھارتی ضد شروع کردی ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ بھارتی خبرراساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیاکو دیئے گئے
اپنے انٹرویو میں امریکی صدر مسٹر بارک اوبامانے اور کیا کہاہے؟؟ اِس
انٹرویومیں امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام (مگر کہنے کو نام کے مسلمان )
امریکی صدر اوباما نے جیسے بھارتیوں کی زبان اپنے منہ میں ٹھونس کر پاکستان
کو دوٹوک الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ’’پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت
گردگروپوں کے خلاف مزیدکارروائی کرے‘‘ یعنی یہ کہ امریکانے پاکستان سے
ڈومورکا کھلاٹُلامطالبہ کردیاہے اِس مرتبہ امریکاکی جانب سے ڈومور کا حکم
پٹھان کوٹ بھارت میں پیش آئے دہشت گردی کے واقع کے بعد کیا گیاہے،جو اِس
بات کا غماز ہے کہ امریکاسانحہ پٹھان کوٹ پر پاکستان کو کس نگاہ سے
دیکھتاہے..؟؟ اور پٹھان کوٹ کے تناظر میں پاکستان امریکا کے سامنے کس حیثیت
میں ہے..؟؟
اگرچہ اوباما نے اپنی اِس انٹرویومیں ہمارے وزیراعظم کو بھی مخاطب کرتے
ہوئے یہ کہاہے کہ’’ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کو اِس بات کا ادراک ہے
کہ پاکستان میں عدم استحکام پورے خطے کے لئے خطرہ ہے ، شدت پسندوں کے خلاف
بلاتفریق کارروائی کی پالیسی درست ہے تاہم پاکستان کو پھر بھی
مزیدموثراقدامات کو یقینی بنانا ہوگا‘‘ اِس پر میراخیال یہ ہے کہ شاید
مسٹراوباما کو پاکستان میں بلاامتیازاور بلاتفریق جاری نیشنل ایکشن پلان کے
حوالے سے آپریشن ضربِ عضب دکھائی نہیں دے رہاہے آج اگر اِنہیں یہ اِن کی
کھلی آنکھوں دکھائی دیتاتو ممکن ہے کہ امریکی صدر یہ نہ کہتے کہ پاکستان
شدت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز مزیدکارروائیاں کرے،یا ابھی تک امریکیوں اور
خطے کے دوسرے پڑوسی (بھارت جیسے) ممالک کو ابھی تک یہ یقین نہیں ہوپارہاہے
کہ پچھلے پونے دوسال سے پاکستان میں بلاتفریق اور بلاامیتاز جاری آپریشن
ضرب عضب معصوم انسانوں کے خون کے پیاسے شدت پسندوں ، دہشت گردوں کو واصلِ
جہنم کرتا اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کی منزلیں طے کرتاہوااپنے اہداف کی
جانب تیزی سے بڑھتاہی جارہاہے مگر پھربھی یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایسے
میں بھی امریکی صدر بارک اوباماکی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف پاکستان سے
ڈومور کا کیاجانے والامطالبہ سوائے پاکستان کے حوصلے پست کرنے اور آپریشن
ضربِ عضب پرسوالیہ نشان لگانے جیسی مضحکہ خیزی کے اور کچھ نہیں ہے۔
ہاں البتہ ، امریکی صدر نے اپنے اِس انٹرویومیں اپنی آنکھیں اِدھر اُدھر
گھوماتے ہوئے بڑے مدھم اور دھیمے انداز سے جیسے اُنہوں نے اپنے کلیجے
پرپتھررکھتے ہوئے چارسدہ باچاخان یونیورسٹی پشاور کا تذکرہ اِن دو الفاظ
میں کچھ یوں کیا کہ’’پشاورحملے کے بعدپاکستانی سیکورٹی فورسز نے متعدد شدت
پسندگروہوں کے خلاف کارروائی کی ہے،اور ویسے بھی دہشت گردی کا سب سے
بڑاشکاراسلام آباد خود ہے‘‘۔
جب اُنہوں نے یہ جملے کہے ہوں گے تو ایسالگتا ہے کہ جیسے اپنے اِس
انٹرویومیں وہ سانحہ چارسدہ باچاخان یونیورسٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈررہے
ہوں گے اور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اُنہوں نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیئے گئے
انٹرویو میں کیوں ؟سانحہ چارسدہ کا تذکرہ کردیاہے اِس تذکرے کے بعد کہیں
اِن سے اور امریکاسے بھارت ناراض نہ ہوجائے اور بھارت روٹھ جائے تو بھارت
اور امریکا صدی کے بہترین شراکت دار بننے سے رہ جائیں گے ۔
اوبا ماکا خیال ہوگاکہ آج اگر کہیں ایساہوگیاتو پھر امریکی تاریخ اِنہیں کس
نام سے یاد رکرے گی حالانکہ امریکا بھارت سے متعلق پہلے ہی یہ عندیہ دے
چکاہے کہ بھارت اور امریکا صدی کے بہترین شراکت دار بن سکتے ہیں‘‘ اورآ ج
امریکاکی بھی یہ شدت سے خواہش ہے کہ ’’ انڈیااور امریکا صدی کے بہترین
شراکت دار بن جائیں ‘‘ اگریہ امریکی اور بھارتی خواب حقیقی رنگ میں سامنے
آگیاتو پھر اِس طرح بھارت خطے میں جہاں اپنے مفادات کا خیال رکھے گاتو وہیں
اِس پر یہ بھی لازم ہوگاکہ وہ خطے سے وابستہ اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ
امریکی مفادات کو بھی مقدم جانے گااور پھر بھارت اور امریکا دونوں مل کر
جنوبی ایشیاپر اپنی حکمرانی اور اپنی کامیابیوں کے جھنڈے اپنے اپنے مفادات
کے ساتھ گاڑیں گے اور خطے کے خاص طورپر پاکستان و چین سمیت بالعموم دیگر
ممالک کی مانیٹرنگ کو ترجیحی دیں گے اور پھر اِس طرح بھارت اور امریکادونوں
مل کر پاکستان اور چین کی سیاسی ، سماجی، اقتصادی اور جنگی سازوسامان کے
حوالوں سے ہونے والی ترقی اور دونوں عوام کی خوشحالی کو روکنے کے لئے
مشکلات پیداکریں گے آج اِسی سازشی عزم کی تکمیل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے
خطے میں امریکابھارت کو اپنے قریب ترکرنے اور اِسی طرح بھارت بھی خود کو
امریکی قربتیں حاصل کرنے کے لئے امریکی تلوے چاٹ رہاہے اور آج یہی وجہ ہے
کہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق جاری آپریشن ضرب عضب کے ہونے
کے باوجود بھی امریکی صدر اوباما بھارت کے پٹھان کوٹ کو جواز بناتے ہوئے
بڑی ڈھٹائی سے پاکستان سے مزید ڈومور کا مطالبہ کررہے ہیں ،تاکہ امریکا کو
بھارتی خوشنودی حاصل ہوجائے اور یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کا
خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی سازشوں اور عزائم پر سختی سے کاربند رہیں
یقیناایسے میں امریکاکی جانب سے پٹھان کوٹ پر پاکستان سے ڈومور کا کیا جانے
والامطالبہ سوائے بھارتی چاپلوسی اور مضٰحکہ خیزی کے کچھ نہیں ہے۔(ختم شد |
|