ہم تو ٹھہرے اچھوت

 جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ن لیگ کو آخر کار آمریت آرڈیننس کا سہار ا لینا ہی پڑا ،پورے ملک میں اپنے آپ کو رسوائی سے بچانے اور سیاسی ساکھ کو قائم و دائم دکھانے کیلئے شیر پنجاب اور شیر پاکستان کو اپنے احسانوں تلے دبے گورنر پنجاب کے ذریعے آرڈیننس کا فی الفور نفاذ کرنا پڑا کیونکہ اگر اس میں کچھ دن اور دیر ہو جاتی تو کافی سارے سیاسی بلدیاتی نمائندے دوسری چھتریوں پر اترنے کیلئے تیار تھے اور آنے والے دن حکومت پنجاب کیلئے سبکی اور پشیمانی کا پیش خیمہ تھے، ویسے بھی پنجا ب والوں کو دکھانا تھا کہ گورنر جاگ رہا ہے ،اس کے اختیارات کیا ہوتے ہیں اور وہ کتنی سپیڈ سے ان پر عمل کروا سکتا ہے۔آرڈیننس کے نفاذ سے سیاسی جماعتوں پر ایک جمود طاری ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں جن عوامی نمائندوں نے وعدے وعید کر رکھے تھے وہ بھی پریشان ہیں کہہ یہ کیا ہو گیا۔چلو ہم نے بھی دیکھ لیا کہ حکومت اگر کچھ کر نا چاہے تو اس کے آگے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی اور نہ کرنا چاہے تو لاکھ احتجاج کر لیں ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، یقینا اس آرڈیننس نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارمانوں کا خون کر دیا اور اس سلسلہ میں ق لیگ اور تحریک انصاف تو عدالت عالیہ میں رجوع بھی کر چکے ہیں دیکھتے ہیں کہ عدالت انکے زخموں کا مرھم بنتی ہے یا نہیں۔
ویسے کتنے افسوس کی بات ہے کہ عوام گیس بجلی کیلئے سڑکوں پر ہے
ملازمین اپنے جائز حقوق کی بحالی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں
نرسز اور ڈاکٹرز بھی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے انکار کر کے سڑکوں پر ہیں
PIA نے بھی اپنے دفاتر کی تالہ بندی کا اعلان کر دیا ہے بکنگ سمیت تمام دفاتر بند ہونگے،2فروری کے بعد فضائی آپریشن بھی معطل
واپڈا والوں کو بڑی مشکل سے منایا گیا لیکن ا ب وہ بھی آستینیں درست کرنے لگے ہیں۔
لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کوئی مرتا ہے تو مرے، اس کی بلا جانے۔
کسی کے گھر میں ایک وقت کی روٹی ہے،
کسی کو علاج کی سہولت میسرہے،

تھانہ کچہری میں عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کسی کو کوئی غرض نہیں ۔حکومتی مشیر وزیر سب اچھا کا راگ الاپتے دکھائی دے رہے ہیں ٹی وی مباحثے ذاتیات کے دفاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں مملکت پاکستان کی فکر کسی میں دکھائی نہیں دے رہی ہر کوئی اپنے اپنے لیڈر کو خوش کرتا دکھائی دے رہا ہے اور تو اور محکمہ صحت کا 50 فیصد بجٹ اورنج لائن منصوبے کی نذر کیا جارہا،لوکل گورنمنٹ کے فنڈز کو ماہانہ بنیادوں پر اس منصوبے کیلئے ٹرانسفر کروایا جا رہاہے، سولر توانائی اور صاف پانی کے منصوبے بھی اورنج لائن کی نذر ہو چکے ہیں ۔کیا نہیں ہو رہا جو میں یہاں تحریر کروں۔ خدا کیلئے کوئی عدالت ہی سوموٹو لے لے، گورنر پنجاب ہی لوکل باڈیز آرڈیننس سمجھ کر ہی کسی ایک اور آرڈیننس کی بھول کر بیٹھیں لیکن شرط ہے کہ بادشاہ سلامت کی ناراضگی آڑے نہ آ جائے-

تف ہے ایسے سیاستدانوں پر جنہوں نے مغل بادشاہوں کو بھی شرما کر رکھ دیا ہے، وہ بھی جو چاہتے تھے یا جس میں انکا نام نکلتا دکھائی دیتا تھا وہ جڑ جاتے تھے خواہ بادشاہ کے شوق کی خاطر بستیا ں کی بستیاں برباد ہو جاتی تھیں لیکن بادشاہ کا شوق سلامت رہے۔ ہمارے سکولوں میں بچوں کو ذبح کیا جارہا ہے کوئی آرڈیننس نہیں، ہماری مساجد میں نمازیوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے کوئی فی الفور ایکشن نہیں ،اندھے دو وقت کی روٹی اور اپنی ٹوٹتی سانسوں کی بقاء کے لئے سڑکوں پر ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں گورنر پنجاب کے ضمیر کے تالے کھلنے کا نام نہیں لیتے، بچیوں کو وحشی درندوں کے طرح نوچا جاتا ہے لیکن کوئی حکمنامہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وجہ تو یہ ہی ہوسکتی ہے کہ ہمارے دکھ درد حکومتی اکابرین کے دکھ درد نہیں ہو سکتے انہیں تو ہم نے عیش و عشرت کے لئے خود چنا ہے اب ان کے دکھ درد ہی ہمارے دکھ درد ہو سکتے ہیں ہمارے ان کے نہیں
دیکھا ڈاکٹر عاصم کیلئے کس کی کیا زبان ہے اور کس کی کیا خواہش ؟

دیکھاماڈل ایان علی عدالت میں پیشی کیلئے ایسے آتی ہے جیسے کوئی مقابلہ حسن میں شرکت کرتا ہو؟
دیکھا 4 حلقوں کے انتخابی نتائج کی سکروٹنی کیلئے کیسے اس کو التواء میں رکھا گیا ؟اور پورے ملک کی معیشت داؤ پر لگتی ہے تو لگ جائے-

دیکھا وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے خصوصی مشیر بیرسٹر ظفراﷲ خان کیسے ڈنکے کی چوٹ پر اسلا م آباد کی گرین بیلٹ پر اپنا دینی مدرسہ قائم کر رہے ہیں-

دیکھا راتوں رات کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے سکیم کی آمد،کیونکہ ماجھے گامے کے پاس تو دھن ہے نہیں۔یہ ہے وہ صورتحال ہے جو حقیقی ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف حکومتی عہدیداروں اور رشتہ داروں کیلئے ہے عوام کا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ
ہم تو ٹھہرے اچھوت اور اچھوت کا کام حکومتوں وڈیروں کی خدمت ہے احتجاج نہیں
غلامی ہے آزادی نہیں،
بے انصافی ہے انصاف نہیں کیونکہ سب قانون ،قائدے، ضابطے انہی کیلئے ہیں اور انہوں نے ہی بنائے ہیں اور وہی قانون ،ظابطہ دستور بنتا ہے جسے حکمران پسند کریں جیسے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2016۔باقی سب جائیں بھاڑ میں
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 11784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.