نائن الیون کے بعد ریاست
الینوئس(Illinois) کے اس وقت کے ریاستی سینٹر باراک اوباما نے اپنے مقامی
اخبار ’ہائیڈ پارک ہیرلڈ‘ میں ایک مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے ’’اس قسم
کے پاگل پن کی وجوہات کو سمجھنے کے مشکل کام‘ پر زور دیا ۔ اوباما نے لکھا
تھا کہ ’’اس سانحہ کی حقیقی روح حملہ آوروں کی جانب سے دوسروں کی تکلیف
محسوس نہ کرنے اور ہمدردی کے رویوں کے فقدان میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
انہوں نے مزید لکھا ’’ کسی بچے کی تکلیف یا والدین کی مایوسی پر ایسی بے
حسی فطری نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ میں اس کا کہیں کوئی وجود ہے، اس کا کسی
خاص ثقافت، مذہب یا نسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ اس سے اس بات بخوبی سمجھا
جا سکتا ہے کہ اوباما کی ریاستی آخری خطاب میں پاکستان کو کئی دہائیوں تک
غیر محفوظ قرار دینے کی کیا سوچ کارفرا ہوسکتی ہے ۔ سانحہ چارسدہ کے بعد
نیشنل ایکشن پلان پر تنقید میں ، لمحہ بھر کیلئے یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ
پاکستانی فوج کے ہاتھ میں کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ اس نے ہوا میں
لہرائی اور سب کچھ ختم ہوجائے ، پاکستان کا مقابلہ جہاں اندرونی ملک دشمن
عناصر سے ہے وہاں اپنے جڑواں پڑوسیوں کی سرزمینوں پر موجود پاکستان دشمن
ممالک کے آشیر باد لئے پاکستان دشمن ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے
جس سے حکومت کیلئے کوئی ہمدردی کا سامان پیدا ہوسکے ۔ ہم دہشت گردوں سے
ہمدردی کی امید نہیں رکھ سکتے اور اس لئے اپنے زبان و بیاں میں تنقید کا
نشانہ ضرور بناتے ہیں لیکنہم با حیثیت پاکستانی اپنے قرب و جوار میں ہونے
والے واقعات کسی اجنبی یا غیر معمولی و سر گرمیوں پر نظر نہیں رکھتے۔ شائد
یہ پاکستانی فطرت ہے یا پھر دہشت گردی کے مسئلے کی وجہ معلومات کی کمی ہے۔
مثال کے طور پراب ہم آگاہ ہیں کہ اسامہ کے حوالے سے روایتی فکر غلط تھی۔ وہ
پاک افغان سرحد پرتہذیب یافتہ دنیاسے دور کسی گہرے غار میں نہیں چھپا ہوا
تھا۔ اس کے بجائے وہ پاکستان کے ایک درمیانی آبادی کے شہر میں ایک بدنما ،وسیع
اور خاردار تاروں سے گھِرے ہوئے ایک کمپاؤنڈ میں قیام پذیر تھا ۔
مغرب نے اس موضوع کو اپنے طور پر خصوصی طور پر لیااس کا سب سے زیادہ واضح
اظہار 2006ء میں شائع ہونے والا جان اپڈائیک(John Updike)کا ناول ’دہشت گرد‘
تھاجس میں ناول کے مرکزی کردار ایک عرب نژاد امریکی نوجوان کو ایک پیش امام
کے ساتھ درست طور پر نہیں دکھایا گیا، جیسا کہ جیمزووڈ نے ’دی نیو ریپبلک‘
میں ناول پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ اپڈائیک کی اس کردار میں گہرائی پیدا
کرنے کی کوشش ’کھوکھلے کیک کی سجاوٹ‘ کے مانند تھی۔ اس کے برعکس پرل
ابراہم(Pearl Abraham) کے گزشتہ برس منظر عام پر آنے والے ناول ’امریکی
طالبان‘ کا مرکزی کردار پختگی سے تخلیق کیا گیا تھا اوریہ عامیانہ نہیں تھا؛
جان جوڈ پارش(John Jude Parish) ایک سنہرے بالوں والا سمندری مہم جُو ہے
اور سکیٹنگ کا شوق رکھتا ہے جو نوجوانوں کی روایتی کام چوری کے انداز میں
غیر واضح طور پر پُراسرایت کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ جب ٹانگ زخمی ہونے کے
باعث وہ کھیلوں سے دور ہوتا ہے تو وہ خود کو عربی پڑھنے میں مشغول پاتا ہے۔
اس کی زندگی میں تنظیم کی کمی پائی جاتی ہے اور آوارہ گردی کا یہ راستہ اس
کو بروکلین کے عربی سکول سے پشاور کے ایک مدرسے اور وہاں سے القاعدہ کے
تربیتی کیمپ تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن پارش ایک عام دہشت گرد سے قطی طور پر
منفردہے ، اس کا سفر اس قدر شاندار اور خودسری سے بھرپور ہے کہ اس مظہر پر
معمولی روشنی ڈالتا ہے۔ اہم ایشو یہ ہے کہ مغرب جہادی کے اذہان کو نہیں پڑھ
پاتے اور اور ایسے فوری طور ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ کسی
اسلامی لوازمات میں شامل ہے کہ ہر امام یا مسجد کا مقصد انتہا پسندی کا
احیا ہے ، دوسری جانب اگر ہم سیدھ سادے انداز میں دیکھیں کہ جیسی بھی
تعلیمی نظام ہے لیکن اس نظام نے لاکھوں بچوں کے لئے مفت تعلیم کے ساتھ قیام
و طعام کے انتظامات بھی سبنھال کر شرح ناخواہ دنگی میں کمی سبب بنے ہوئے
ہیں ۔ مدارس کو اگر جدید طرز تعلیم میں ڈھالنا ہے تو ہمیں مسلمانوں کی ذہن
سازی کرنا ہوگی اور اس کیلئے دانشوروں کو اس موضوع پر لکھنا ہوگا ۔
مذمت کرنے اور نفرت کرنے کے بعد محبت کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔ آئی ایس
پی آر نے شعور کی بیداری کیلئے میڈیا پر اچھی کوشش کیں لیکن یہ کام تو صرف
آئی ایس پی آر کا نہیں ہے ، ہمارے ڈرامے ہماری فلمیں ، ہمارے فیچرز ملک کو
دہشت گردی سے پاک کرنے کے مواد سے خالی ہیں ہماری توجہ ان کے منفی کردار کو
اپنے تلخ تحریروں میں اجاگر تو کرتی ہے لیکن ہم ملک میں جاری اس دہشت گردی
کی جنگ میں ادب کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ شاعری کسی عورت کے گرد گھومتی ہے
تو ڈرامے کسی ساس بہو کی چپقلش سے مزین ہوتے ہیں فلمیں ہیرو اور ہیروین کے
محبت کا محور لئے ہوتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک کے سب سے حساس طبقے
نے اس موضوع کے تمام اطراف کو نظر انداز کرکے صرف اپنی ذات کی حفاظت اور
میڈیا میں مذمت تک محدود کرلیا ہے ۔ مذمتوں سے انسانی مثبت ذہن سازی نہیں
کی جاسکتی ،ملزموں کو جیل میں ڈالنے اور پھانسیاں سینے سے عارضی وقفہ ضرور
ملتا ہے لیکن انتہا پسندی کی بنیادی سوچ کا قلع قمع نہیں ہوتا۔ مغرب بھی
مشرق کی روش پر گامزن ہے جیسے2004ء میں لورین ایڈمز (Lorraine Adams)کا
منظر عام پر آنے والا ناول ’ہاربر‘ (Harbor) دہشت گردی کے موضوع کا احاطہ
کرنے والے ناولوں میں سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا۔ وہ مرکزی کردار کو ایک
امتیازی کردار کے طور پر شناخت کروا کرقاری کا اعتماد حاصل کرتی ہے۔ وہ ایک
مہاجر ہے اور الجزائر سے تعلق رکھتا ہے جو جہاد ی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے
قبل ایک بحری جہاز میں چھپ کر بوسٹن پہنچ جاتا ہے۔ جب مصنفہ اپنے کردار کا
حصہ بن کر اس کی مشکلات کا احاطہ کرتی ہے۔ اوراس کی اس جسمانی تکلیف کو
بیان کرتی ہے جو وہ بحری جہاز میں برداشت کرتا ہے یا امریکہ میں مستقل قیام
اختیار کرنے کے حوالے سے اس کا مسلسل اُلجھاؤ تو ہم یہ خیال نہیں کرتے کہ
مصنفہ نے اپنا ہوم ورک کیا ہے یا نہیں ( شاید یہ اتفاق نہیں ہے، کیوں کہ
لورین ایڈمز پلٹزر انعام یافتہ سابق رپورٹر ہیں ، وہ د ہشت گردی کے خلاف
کام کر چکی ہیں اور ایف بی آئی کے جمع شدہ موادتک بھی ان کی رسائی ہے) ۔
لیکن ان کا ناول ابراہم کی طرح ایک حادثاتی دہشت گرد کے متعلق ہے، ایک ایسا
شخص جو دوسروں کے کہنے پر چل رہا ہے۔ شاید دانستہ طور پر جہاد کا حصہ بننے
والے ایک شخص کی وجہ سے تخیلاتی حوالے سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جسے عبور کرنا
بہت مشکل ہے۔ لورین جیسے دیگر لکھاریوں کی تحاریر ثابت کرتی ہے کہ اس کی
تشفی مغرب ہے اور وہ صرف مغرب کے بارے میں لکھ کر ہی مطمئن ہونا چاہتے ہیں
اس کو اس بات سے غرض نہیں کہ کسی سعودی ، شامی ، فلسطینی ، پاکستانی یا
دیگر اسلامی ممالک میں یہ سوچ پیدا کس نے کی انتہا پسندی کو فروغ دینے اور
اس سے فائدے اٹھانے میں مغرب کو کتنا فائدہ ہوا اور اس کے ذہنی پس منظر کے
اسباب کیا تھے ۔‘‘ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ سعودی، شامی، پاکستانی یا
فلسطینی مصنفین کے اپنے ہم وطن دہشت گردوں کے ارادوں سے متعلق کھل کر لکھنے
کی روش موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے صحافیوں نے اس کو خصوصی موضوع بحث
بنایا ہو ، بلکہ اس کی توجہ فروعی مسائل یا سیاست کے ساتھ اپنی سوانح عمری
تک محدود ہے۔ مثال کے طور پر کتاب ’بیروت39‘میں سعودی ادیب عبداﷲ ضابط کے
ناول ’’20واں دہشت گرد‘‘ (Twentieth Terrorist)کا اقتباس پیش کیا گیا ہے،
مذکورہ ناول نگار خود بھی دہشت گرد رہ چکا ہے اور اسے نظریاتی اعتقادات سے
متعلق تفصیلات فراہم کرنے پر نفرت آمیز پیغامات اور موت کی دھمکیاں بھی
موصول ہوئی تھیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہنوز شائع نہیں ہوا اور اس کے
محض چند صفحات ہی دستیاب ہیں۔ اسی طرح فسکی ’جرم و سزا‘سینٹ پیٹرزبرگ کے
بجائے ہیلسنکی کے طالب علم کے بارے میں لکھ سکتا تھا؟ اگر فلوبرٹ
’اپالاچیا‘ (Appalachia) میں مادام بووری کو گاؤں کی ایک شادی شدہ عورت
دکھاتا تو کیا ہوتا؟کسی بھی تحقیق کا ماحصل ایک دنیا کا قریب سے مشاہدہ
کرکے حاصل ہونے والے تجربات کے برابر نہیں ہوسکتا۔ باباکوہی کی کہانی ’دی
آئیڈلز ڈسٹ‘ (The Ideals Dust) میں بامیان میں بدھا کے مجسموں کی مسماری کا
تذکرہ ہے، یہ طویل القامت مجسمے کبھی افغانستان کے وسط میں قائم تھے۔
باباکوہی کی کہانی میں بدھا کی خاک طالبان پر گرتی ہے ، جب وہ خاک کو
جھاڑتے ہیں تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خود بت بن گئے ہیں۔بالآخر آپریشن کے
نگران مُلا کو پیش ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔وہ خوف سے کانپتا ہوا اپنے
رہنما کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ وہ اس کو پہلی بار اس قدر قریب سے دیکھتا ہے
اوریہ دیکھ کر حیران رہ جاتاہے کہ وہ بول نہیں سکتا۔ وہ صرف کمانڈر کو
دیکھتا ہے اور ہم مُلا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ کہ کمانڈر کی پیشانی پر
بھی بدھا کی خاک گِری ہے۔ |