تعلیمی اداروں کی بندش....ملک میں غیر یقینی صورتحال

پنجاب اور ملک بھر کے آرمی پبلک اسکول، نیوی، فیڈرل گیریژن اور وفاقی تعلیمی ادارے 31 جنوری تک بند رکھنے کے فیصلے کے بعد سیکورٹی خدشات کے پیش نظر مزید تعلیمی اداروں کی بندش کا سلسلہ جاری ہے۔سیکورٹی خدشات کے باعث انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی اور زکریا یونیورسٹی کا لاہور کیمپس 31جنوری تک بند رہے گا ۔ گزشتہ روز لاہور کی3 یونیورسٹیاں اور ملتان میں 7 تعلیمی اداروں کو بند کردےا گیا ہے۔ قصور میں بھی ایک یونیورسٹی اور 2کالجوں سمیت 13تعلیمی اداروں کو سیل کردیا ۔ نئے سیکورٹی پلان کے تحت لاہور میں 12 سرکاری اسکولوں، 131 بوائز، 19 خواتین کالجوں اور 19 یونیورسٹیوں کو اے پلس کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔ ناقص سیکورٹی انتظامات پر بہاولپور میں اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی اور 4 تعلیمی ادارے، ڈسکہ میں 5، ساہیوال میں 11، لیہ میں 3 اور سرگودھا میں 15 تعلیمی اداے بند کردیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں شدت پسندوں کے حملوں کے بعد وزارتِ داخلہ کی جانب سے اسلام آباد، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے اعلی حکام کو سرکاری اور نجی اسکولوں کے ارد گرد حفاظتی اقدامات مزید سخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پنجاب کے اسکولوں اورملک بھر کے فوج کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں حالیہ چھٹیوں کی وجہ حکام کی جانب سے سردی کی شدت بتائی جا رہی ہے، حالانکہ پنجاب میں دھند اور شدید سردی کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا، تاہم تعلیمی ادارے بند کرنے کا حکم خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے پانچ دن بعد ہی جاری کیا گیا۔

سیکورٹی خدشات کی بنا پر اسکولوں کو بند کرنے کے فیصلے پر وزیر داخلہ چودھری نثار نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی بندش پر انھیں شدید اختلاف ہے۔ خوف و ہراس پھیلانے سے دشمن کو فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر ایک اسکول کی سیکورٹی ایک مشکل کام ہے، لیکن تعلیمی اداروں کو سیکورٹی فراہم کی جانی چاہیے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن کے وزیر طارق فضل چودھری نے اسکولوں کی بندش کا معاملہ ان کے سامنے اٹھایا تھا، لیکن میں نے کہا تھا کہ اسکولوں کو بند نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنے تعلیمی ادارے، ہسپتال، سڑکیں اور دیگر مقامات بند کرکے خود کو گھر میں قید کرلیں گے تو ہم وہی کریں گے جو دراصل دشمن چاہتا ہے۔ ملک کی متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے وزیرداخلہ کے بیان کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسکولوں کی بندش کا حکومتی فیصلہ غلط ہے۔ تعلیمی اداروں کو سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت تعلیمی اداروں کو بند کر کے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ خان کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے اقدام کو غلط قرار دینے کا وفاقی وزیر داخلہ کا موقف ٹھیک ہو گا، لیکن ہمارا جو موقف ہے وہ بھی غلط نہیں۔ سیکورٹی خدشات پہلے بھی نہیں تھے اور تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد بھی نہیں ہوں گے، سیکورٹی الرٹ اور خدشات کے باعث تعلیمی ادارے بند کیے گئے نہ مستقبل میں کبھی ایسا ہوگا۔حکومت نے تعلیمی اداروں کوفول پروف پروف سیکورٹی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حساس اداروں کو باقاعدہ نشاندہی کے ساتھ سیکورٹی الرٹ موصول ہوا تھا۔ ذرایع کے مطابق پاکستانی حساس اداروں کی جانب سے ایک سیکورٹی الرٹ جاری کیا گیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان سے13 خودکش بمبار پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں اور دہشت گرد سول و فوجی تنصیبات اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر تمام اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز کی سیکورٹی کے حوالے سے جامع حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے پنجاب اور وفاق کے تعلیمی اداروں کی فول پروف سیکورٹی کے حوالے سے 31 جنوری سے قبل جامع حکمت عملی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے ہدایت جاری کی گئی ہے کہ 31جنوری سے قبل سیکورٹی کا ایسا مربوط سسٹم تیار کیا جائے، تاکہ جس سے ملک کے تعلیمی ادارے دوبارہ سیکورٹی کی وجہ سے بند نہ ہو۔متعلقہ محکمے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے موثر انتظامات کیے جائیں۔ سیکورٹی خدشات کے باعث وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں کو دو سے تین اسلحہ لائسنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لیے جاری کیے گئے نئے ہدایت نامے کے مطابق ہر ادارے کو 2 سے 3 اسلحہ لائسنس دیے جائیں گے۔ ڈائریکٹر جنرل وفاقی نظامت تعلیمات معین الدین وانی نے تمام اداروں کو مراسلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلحہ لائسنس کے لیے اداروں کے سربراہان درخواست کمشنر اسلام آباد کو بھجوائیں، اداروں کی چاردیواری کو جلد سے جلد اونچا کیا جائے اور ان پر خاردار تاریں لگائی جائیں۔ وفاقی نظامت تعلیمات کی جانب سے جاری مراسلے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، گاڑیوں کے معائنہ کے لیے خصوصی شیشے خریدنے اور ایمرجنسی راستے بنانے کے احکاما ت بھی جاری کیے گئے ہیں، جب کہ اسکولوں کی عمارتوں پر نگرانی کے لیے چیک پوسٹیں قائم کرنے اور تربیت یافتہ گارڈرکھنے کی بھی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ اداروں کی حفاظت کے لیے نجی سیکورٹی ایجنسیز کی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظرسیکورٹی کے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت کراچی یونیورسٹی کی چار دیواری اونچی کی جائے گی اور اس پر خار دار تاریں لگائی جائیں گی۔ جامعہ کراچی کے داخلہ راستوں پرکیمرے لگائے جائیں گے اور پیٹرولنگ کا نظام وضع کیاجائے گا، جبکہ ریٹائرڈ فوجی اہلکار بھی بھرتی کیے جائیں گے۔ وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لیے ریپڈ ریسپانس فورس کو متحرک کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور پولیس مشترکہ طور پر اداروں کی سرویلنس کریں۔ اسکولوں میں واچ ٹاور بنائے جائیں گے اور کلوز سرکٹ کیمرے لگائے جائیں گے جو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سے منسلک ہوں گے۔ اسکولوں سے متصل علاقوں میں پولیس موبائل اور موٹرسائیکلوں پر پیٹرولنگ کی جائے گی۔ جبکہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لیے اقدامات نہیں کیے ہیں۔ اسکولوں کی سیکورٹی انتہائی خستہ حال ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اپنی سربراہی میں تعلیمی سیکورٹی پالیسی پر ایوان کو اعتماد میں لیں۔ سندھ میں کسی ایک اسکول کی بھی باﺅنڈری وال نہیں بنائی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کردینا غلط اقدام ہے، افغانستان جیسے دہشتگردی کے شکار ملک میں بھی کبھی اسکول اور موبائل فون سروس بند نہیں کی گئی، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اسکول بند کرنے کی بجائے پورے ملک کو محفوظ بنانے کی تدبیر کرنا ہوگی۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے ملک بھر میں غیریقینی کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے عوام کو اعتماد میں نہ لینے کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس جنم لے رہا ہے اور قیاس آرائیاں پھیل رہی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کہ اگر ان کے بچے اسکول، کالج یا یونیورسٹی جارہے ہیں تو انہیں کسی قسم کا خطرہ تو نہیں ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ پرائیویٹ اداروں کو بھی سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نجی تعلیمی اداروں سے بھاری ٹیکس لیتی ہے۔ اگر انہوں نے سیکورٹی پر بھاری اخراجات کرنے ہیں تو ان سے ٹیکس کی مد میں کوئی رقم نہ لی جائے۔ سیکورٹی وجوہات پر تعلیمی ادارے بند کرنا یا چھٹیاں کرنا کوئی حل نہیں ہے۔ انٹیلی جنس پر توجہ مرکوز کی جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ حکومت کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد بھی ہوش نہیں آیا، سندھ میں تعلیمی اداروں کا سیکورٹی پلان دہشتگردی کے تمام تر خدشات اور خطرات کے باوجود فائلوں کی نذر ہوگیا ہے، محکمہ تعلیم گیارہ مہینے پہلے صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کا سیکورٹی پلان تیار کر کے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کو بھجوا چکا ہے لیکن اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ ذرایع کے مطابق سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کو ایک سال سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال ایک بھی سیکورٹی گارڈ بھرتی نہیں کیا جا سکا، سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پنجاب حکومت نے سرکاری اسکولوں میں 30 ہزار ریٹائرڈ فوجی بطور سیکورٹی گارڈز بھرتی کرنے کی منظوری دی تھی۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن نے اس حوالے سے پنجاب کے تمام ای ڈی اوز کو احکامات جاری کیے جس کے بعد اضلاع کی سطح پر اشتہارات بھی دیے گئے۔ تاہم بھرتی کا عمل اس سے آگے نہ بڑھ سکا، جبکہ اسکولوں کی سیکورٹی صورتحال ابھی تک غیر تسلی بخش ہے اور محکمہ تعلیم کے افسران محض ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے تک محدود ہیں۔ جبکہ اسکولوں کی سیکورٹی کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ آرمی پبلک اسکول اور چارسدہ کی یونیورسٹی میں دہشت گردی کے بعد بھی وفاقی تعلیمی اداروں کی حفاظت کے ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کی سیکورٹی صورتحال نہایت مخدوش نظر آ رہی ہے۔ حکومت کے تمام اعلانات اور بڑے بڑے دعوے ہوا ہو گئے۔ وفاقی تعلیمی اداروں کی بیرونی دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہیں، کہیں تو سرے سے بنی ہی نہیں ہیں، کچھ اسکولوں میں تو دیوار کی جگہ جنگلے ہیں۔ کہیں دیواروں میں راستے بنے ہیں۔ اس حالت زار سے طلباءہی نہیں، اساتذہ بھی خوفزدہ ہیں۔ بہت سے اسکولوں کی دیواریں اتنی چھوٹی ہیں کہ بچے بھی آسانی سے پھلانگ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وفاقی نظامت تعلیمات کے سربراہ سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے گیٹ بھی انتہائی خستہ حال ہیں اور ان پر گارڈز بھی تعینات نہیں۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں پر ریاست تعلیمی اداروں کو صرف اس لیے بند کردیتی ہے کہ فول پروف سیکورٹی کو یقینی بنانا اداروں کے بس کی بات نہیں ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.